یہاں مسئلہ عوام کو سکھانے کا نہیں۔ عوام بیچاروں کو تو جہاں بھی ہانکا گیا اسی راستے پہ وہ چل پڑے۔ جو نعرے لگوانے عوام سے مقصود تھے وہ پھیپھڑے کیا جگر پھاڑ کے اس نے لگائے۔ چاہے نعرے کشمیرکے تھے، افغانستان کے یا ہزار سالہ جنگ کے۔ مسئلہ تو یہاں حکمرانوں کا ہے۔ قوم کو اس ڈگر پہ چلائے رکھا کہ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔
تاریخ دھرانے کی یہ جگہ نہیں لیکن کچھ مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اداروں کی تباہی کی جو بات ہم کرتے ہیں وہ تباہی عوام کے ہاتھوں نہیں ہوئی بلکہ اگر فہرست بنائی جائے تو اس میں تمام کارنامے ہمارے حاکموں کے رہے ہیں۔ کل یعنی منگل کے روز ایک انگریزی اخبار میں ہماری ریلویز کی تباہی کی ایک سٹوری شائع ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے تک ریلویز ٹھیک چل رہی تھی۔ جنرل ضیاء آئے اور جب ان کی حکومت نام نہاد افغان جہاد میں پھنس گئی تو نام نہاد مجاہدین کو اسلحے کی ترسیل کیلئے سمجھا گیا کہ اپنے زیرِ تحویل ٹرانسپورٹ نظام ہونا چاہئے۔ اس سوچ کے تابع ایک نئے ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ جو مال یا فریٹ ریلویز سے ٹرانسپورٹ ہوتا تھا اس کی ترسیل این ایل سی کے ٹرکوں پہ منتقل ہونے لگا۔ تمام دنیا میں یہ اصول رائج ہے کہ ریلویز کی زیادہ کمائی فریٹ کی ترسیل سے ہوتی ہے۔ جب بتدریج یہ ذمہ داری پاکستان ریلوے سے منتقل ہوتی گئی تو ہمارے ریلوے کے نظام کو تباہی کے راستے پہ ڈال دیا گیا۔
پاکستان ایئرلائنز کی تباہی بھی آہستہ آہستہ ہوئی۔ اس میں عوام کا کوئی ہاتھ نہیں۔ سفارش پر بھرتیاں، ضرورت سے زیادہ بھرتیاں، یہ سب حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں اچھا بھلا ادارہ تباہ ہوتا گیا۔ یہی کچھ پاکستان سٹیل ملز کے ساتھ ہوا۔ روسیوں نے ہمیں یہ کیا تحفہ دیا تھا، ہم اس ایک سٹیل مل کو نہ چلا سکے۔ یہاں بھی بھرتیاں ضرورت سے زیادہ ہوئیں تو قصور قوم کا نہیں مختلف اوقات میں برسرِ اقتدار آنے والے حکمرانوں کا ہے۔
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کا قصہ دیکھ لیجئے۔ انہوں نے نجی بجلی کیا مہیا کی، ان سے جو معاہدے کئے گئے وہ اس نوعیت کے تھے کہ ان پہ پورا اترتے ہوئے قوم کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ معاہدے ایسے کہ مکمل طور پہ پاور پروڈیوسرز کے حق میں تھے۔ قوم اس ادائیگی کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی تھی لیکن حکمران ایسے تھے جنہوں نے خفیہ طور پہ اپنا مفاد ملحوظ خاطر رکھا اور ان معاہدوں پر دستخط کئے۔ مفروضے کے طور پہ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہاں طالبان قسم کی حکومت ہوتی تو اِن پاور پروڈیوسرز کا وہ حشر کرتی کہ اِن کی نسلیں یاد رکھتیں‘ لیکن ہمارے حکمرانوں کی... اور یہ صرف ایک حکمران کی بات نہیں... یہ خصوصیت رہی ہے اور اب بھی ہے کہ سوچ محدود، ہمت سے بھی عاری اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پیچھے قربان ہونے کو ہمہ وقت تیار۔ یہاں طالبان کی تعریف مقصود نہیں۔ کہنے کا مطلب صرف یہ کہ مضبوط حکمرانی کے نتیجے مختلف ہوتے۔ دیگر قومی مسئلے تو ایک طرف، ان بجلی معاہدوں کی وجہ سے جو سرکلر قرضہ بن چکا ہے اس کی ادائیگی قوم کیلئے ناممکن ہے۔
مثالیں کون کون سی دی جائیں؟ براڈشیٹ سکینڈل کا چرچہ جو حالیہ دنوں میں ہوا یہ معاہدہ براڈشیٹ نامی ایک فرضی کمپنی کے ساتھ مشرف دور میں ہوا۔ دو نمبر اشخاص پہ مبنی اس فرضی کمپنی‘ جس کا نہ آگا نہ پیچھا‘ کے ساتھ معاہدہ کرنا ایک احمقانہ اقدام تھا‘ لیکن تب کے نیب کے جو بڑے افسر تھے اور جن کا اپنے ادارے میں نیک نام بھی تھا انہوں نے یہ معاہدہ کیا۔ سوال جواب تو ان سے بنتا ہے کہ آپ نے عقل کی کس بنیاد پہ ایسا کیا۔ پھر معاہدہ منسوخ ہوا، فرم کے مالک فنکاروں نے برطانوی عدالتوں کا رجوع کیا اور اس ساری کارروائی کے نتیجے میں پاکستان کو لگ بھگ تیس ملین ڈالرز کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ ان بڑے افسران کو چھوڑیے، چکوال کے ٹرک اڈے کا ایک چھوٹا سا ٹرک مالک ہو‘ وہ ایسا معاہدہ نہ کرے‘ غلہ منڈی کا آڑھتی ایسی حماقت سے دور رہے‘ لیکن اس ملک میں ہمارے کیسے کیسے بڑے پیدا ہوتے ہیں جو مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور قوم کو بھاری نقصان پہنچا کے انہیں رتی برابر شرم بھی نہیں آتی۔
ن لیگ کے ادوار میں لاہور میں دو پراجیکٹس کا بڑا چرچہ رہا۔ ایک میٹرو بس، دوسرا میٹرو ٹرین کا۔ تذکرہ ان کا یوں ہوتا تھا کہ یہ پراجیکٹ بنیں گے اور لاہور کی کایا پلٹ جائے گی۔ بھاری رقوم ان پہ خرچ ہوئیں۔ میٹرو ٹرین تو ساری چینی قرضے پہ بنی ہے‘ لیکن اس قرضے کو مع سود واپس کرنا ہے۔ دونوں پراجیکٹس مکمل ہو چکے ہیں اور چل رہے ہیں‘ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ کایا پلٹنا تو دور کی بات‘ ان کا ذکر تک کہیں نہیں ہوتا۔ لاہور میں ٹریفک کا حال بہتر ہونے کے بجائے بد تر ہو چکا ہے۔ شہر میں گندگی کی صورت حال بھی خراب سے خراب تر ہو چکی ہے۔ ہر بڑے شہر کی طرح لاہور دو حصوں میں بٹا ہوا ہے، ایک عوام کا لاہور اور دوسرا خواص کا۔ میٹرو بس اور میٹرو ٹرین پہ لگے وسائل صحت، صاف پانی اور تعلیم کی طرف مرکوز کئے جاتے تو لاہور کی شکل واقعی بدل سکتی تھی‘ لیکن پھر بات وہی کہ فیصلے حکمرانوں کے ہوتے ہیں اور ان کی سوچ پتا نہیں کہاں سے آتی ہے۔
مولوی بیچارے تو ویسے ہی مطعون ٹھہرتے ہیں۔ ان کا کام کیا ہے؟ لاؤڈ سپیکروں کا بھرپور استعمال، نعرے لگانا اور لا یعنی مسئلوں پہ ڈٹ جانا۔ مذہبی طبقات اس معاشرے کو ایک خاص رنگ ضرور دیتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں وہ فیصلہ ساز نہیں۔ فیصلہ ساز وہ ہیں جو انگریزی یا مغربی تعلیم سے آراستہ ہیں۔ قوم کا بیڑہ غرق ہوا ہے تو ان کے ہاتھوں سے۔ مذہبی طبقات کو خوش کرنے اور اپنا ہم نوا بنانے کے لئے بہت کچھ کیا گیا‘ لیکن حتمی فیصلے مولویوں کے نہیں حاکموں کے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان جو رجعت پسندی کا ایک مضبوط قلعہ بنتا گیا ہے‘ اس کے ذمہ دار مذہبی طبقات نہیں بلکہ مغرب کے پروردہ حکمران ہیں۔ باقیوں کو چھوڑئیے، وزیر اعظم عمران خان کو ہی دیکھ لیجئے۔ خود پڑھے ہوئے، جہاں تک ان کی پڑھائی ہے، مغربی طرز کے اداروں سے ہے لیکن بات بات پہ ریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ کی اپنی اہمیت اور تاریخ میں مقام ہے، لیکن آپ پہ ذمہ داری آج کی بھی ہے۔ بات آپ اب کی کریں۔ کسی گہری یا وسیع سوچ کا اشارہ آپ دے نہ سکیں اور ذکر ریاست مدینہ کا کرتے رہیں تو اس سے آپ کی عقیدت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آپ کی ذہنی مفلسی۔ یعنی کچھ اور آپ کے پلے ہے نہیں اور آپ اس ذکر سے قوم کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔
لہٰذا مسئلہ پاکستان کا قیادت کے حوالے سے یہ قحط الرجال ہے۔ ناکارہ حکمرانی کی ایک لمبی تاریخ ہم دیکھ چکے ہیں۔ ساری قوم نے نہیں لیکن کچھ مخصوص طبقات نے اپنی امیدیں موجودہ حکمرانوں سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ اِن کا حال بھی عیاں ہو چکا ہے۔ عمران خان کے مدمقابل آئندہ کی سیاست کے کون سے شاہسوار نمودار ہو رہے ہیں؟ مریم نواز اور بلاول زرداری۔ یعنی آزمائے ہوئے سکوں کی نئی شکلیں۔ اگلے الیکشن جب بھی ہوئے گھمسان کا رن پڑے گا۔ تبدیلی آئی بھی تو کیا شکل اختیار کرے گی؟ مسیحائوں کی تلاش میں قوم کو کھوٹے سکے ہی ملیں ہیں۔