"AYA" (space) message & send to 7575

بات کچھ بن نہیں رہی

یہ حکومت اپنی دھاک بٹھا نہیں پارہی۔ کچھ کارکردگی کا مسئلہ ہے کچھ اہم لوگوں کی قابلیت کا۔ مزید مسئلہ صوبوں میں حکمرانی کا ہے۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کا راج ہے‘ لیکن دونوں صوبوں میں چیف منسٹر اپنے آپ کو مضبوط اور مؤثر حکمران ثابت نہیں کرسکے۔ خیبر پختونخوا میں ہم رہتے نہیں لہٰذا محمود خان صاحب کے بارے میںکچھ زیادہ نہیں کہہ سکتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ جو وہ تاثر دیتے ہیں وہ متاثر کن نہیں۔ جہاں تک پنجاب کے وزیراعلیٰ کا تعلق ہے وہ تو اب ناپختگی کی ایک کہاوت بنتے جا رہے ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں کوئی غیر مؤثر حکمران ہوگاتو اسے عثمان بزدار کا لقب نہ دے دیا جائے۔
ضمنی الیکشن دیکھ لیں، ان سے یہ ٹھیک نہیں ہوئے۔ نوشہرہ والا الیکشن تو ایک مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک جو صوبائی کابینہ کے ممبر بھی تھے‘ اپنے بڑے بھائی کے خلاف ہوگئے اور نتیجتاً سیٹ پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے گئی۔ وزیراعظم پشاور گئے اور وہاں میٹنگ میں اس دلچسپ رائے کا اظہار کیا گیاکہ دراصل شکست اس لئے ہوئی کہ نون لیگ نے سائنسی قسم کی دھاندلی کی تھی۔ ان افلاطونوں سے کوئی پوچھے کہ حکومت آپ کی، ن لیگ کا زور خیبرپختونخوا میں کسی شمار میں نہیں آتا لیکن پھر بھی اگر وہ سائنسی قسم کی دھاندلی وہاں کرسکتی ہے تو اِس کا مطلب یہ کہ پی ٹی آئی والوں نے اپنے آپ کو حد سے زیادہ نکما ثابت کیا‘ اور یہ تاویل دی گئی جب وزیراعظم سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
پنجاب میں ڈسکہ کا ضمنی انتخاب ایک مثال بنتا جا رہا ہے۔ اول تو جھک مارنی نہیں چاہئے، لیکن اگر کوئی جھک مارنے پہ تلا ہے تو کم از کم اسے پورا تو کرے۔ پی ٹی آئی والوں نے اس انتخاب کو اپنے حق میں موڑنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا‘ لیکن بات نہ بنی اور تماشا لگ گیا۔ کچھ جگہوں پہ پولنگ عملہ غائب یا گمشدہ ہو گیا تو فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے دھند کا عذر پیش کیا۔ پیش کیا کیا ساری قوم کی ہنسی نکل گئی اور جیسا کہ محکمہ زراعت ایک معنی خیز اصطلاح بن چکا ہے عذرِ دھند بھی اب مقبول اصطلاح نہ بن جائے۔
ان تماشوں کے بعد اسلام آباد کی سینیٹ سیٹ پہ جو مقابلہ ہونے جا رہا ہے وہ حکومت کے سر پہ ایک خطرہ بن کے منڈلا رہا ہے۔ اس مقابلے میں ایک طرف ہے شہنشاہِ مہنگائی حفیظ شیخ اور دوسری طرف سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی۔ یوسف رضا پاپولر آدمی ہیں اور ہرپارٹی میں ان کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب اقتدار میں تھے توان پہ بھی کرپشن کے بہت الزامات لگے لیکن ان الزامات کی وجہ سے ان کی ذاتی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔ جب وزیراعظم تھے تو ہر پارٹی کے ایم این ایز کو ان تک رسائی تھی۔ میں اس امر کا خود گواہ ہوں کہ ان کا قومی اسمبلی میں دفتر ایم این ایز سے بھرا رہتا تھا۔ کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ یہ وزیراعظم پی پی پی کے نہیں بلکہ ن لیگ کے ہیں کیونکہ درخواست اٹھائے ن لیگ کے ایم این ایز ان کے دفتر میں موجود رہتے۔ چھوٹی موٹی چیزوں میں کسی کو انکار نہیں کرتے تھے۔ بطور ایم این اے میں نے جو گیس کی چند سکیمیں چکوال کیلئے منظور کروائیں ان سب کی منظوری گیلانی صاحب نے دی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ گیلانی صاحب ہر ایم این اے کو اپروچ کرسکتے ہیں اور یہی دھڑکا وزیراعظم صاحب کو لگا ہوا ہے کہ کچھ ایم این ایز اِدھر ادھر نہ ہو جائیں۔ ہوتا کیا ہے یہ تو عالم غیب کی باتیں ہیں لیکن حکومت والوں کے دلوں میں ڈر یہ ضرور ہے کہ اسلام آباد کی سیٹ کہیں ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ اور چلی گئی تو پی ڈی ایم کے لیڈر چھالیں مارنا شروع ہو جائیں گے اور یہ مطالبہ ایک دم زور پکڑے گاکہ وزیراعظم کے پاس وزیراعظم رہنے کا اخلاقی جواز نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی والے اتنے بے چین ہیں کہ سپریم کورٹ میں فیصلہ کھلی ووٹنگ کے حق میں ہو تاکہ کسی ممبر کے پھسلنے کا امکان یکسر مسترد ہو جائے۔
اس سیٹ کے انتخاب میں جو بھی نتیجہ نکلے پی ڈی ایم کو ایک کریڈٹ جاتا ہے کہ بہت قلیل عرصہ میں اپوزیشن پارٹیوں میں ایک نئی جان پڑگئی ہے۔ اس حکومت کے پہلے ڈیڑھ دو سال تو یہ گمان ہوتا تھاکہ ملک میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں۔ ن لیگ دبی ہوئی تھی اور پے در پے تاریخیں اور مقدمات بھگت رہی تھی‘ لیکن مولانا فضل الرحمن کا کمال سمجھئے یا کوئی اور وجہ ہو‘ اب پی ڈی ایم کی زبان میں زور آ چکا ہے۔ یہ فروعی بحث ہے کہ استعفے نہیں دیئے اور لانگ مارچ کا کیا بنے گا۔ ایسے حربے ایک چال کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ کسی حتمی نوعیت کے ہتھیار نہیں ہوتے۔ یعنی جلسے جلوس اور استعفوں وغیرہ کی باتیں لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہوتی ہیں۔ چاہے لاہور کا جلسہ یا کسی اور جگہ کا جلسہ بھرپور تھا کہ نہیں یہ بھی کوئی اتنی اہمیت کی بات نہیں۔ اپوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور حکومت پہلے سے زیادہ کمزور لگتی ہے۔ نہ اپوزیشن فوری طور پہ اقتدار میں آرہی ہے نہ حکومت یکدم اقتدار سے محروم ہو رہی ہے لیکن جسے آپ انگریزی میں equation کہتے ہیں وہ تھوڑاسا تبدیل ہو گیا ہے۔ فیصلہ جو ہوگا وہ اگلے انتخابات میں ہوگا‘ لیکن جو صورتحال بنتی جا رہی ہے وہ پی ٹی آئی حکومت کیلئے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے اگر حکمران جماعت سے دو تین ضمنی انتخابات ہینڈل نہیں ہوئے تو جب بڑا معرکہ سرپہ آن پڑے گا تو پھر وہ کیا کرے گی۔
ملکی سطح پہ یہی تو پریشانی بنتی جا رہی ہے۔ زوردار کہانی تو اب تک یہ رہی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی‘ دونوں نے ملک کو تباہی اور معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پہ پہنچا دیاتھا۔ اس کہانی کی منطق کے مطابق دونوں سابقہ حکمران جماعتوں کو کمزور سے کمزور تر ہوجانا چاہئے تھا اور گلیوں میں راج صرف پی ٹی آئی کررہی ہوتی‘ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ دونوں سابقہ جماعتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں‘ اور پی ٹی آئی اس طرح نہیں چھائی ہوئی جس طرح امید کی جا رہی تھی۔ مریم نواز پہ کیسز ہیں اور وہ سزا یافتہ بھی ہیں لیکن جس قسم کے لتے وہ حکومت اور اس کے حمایتیوں کے لے رہی ہیں اس سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ جب بھی انتخابات کا سٹیج سجاتو ایک طرف عمران خان ہوں گے اور ان کے مدمقابل ہوں گی مریم نواز۔ اس ساری داستان کا مطلب یہ کہ ہماری سیاست کہیں آگے نہیں جاسکی۔ یہ وہیں پہ کھڑی ہے جہاں پہلے تھی۔ عمران خان جب آگے آئے تو اِدھرادھر سے ان کی معاونت کرنے والے سمجھ رہے تھے کہ ایک نئے دور اور نئی سیاست کا آغاز ہوگا‘ لیکن پرانی سیاست جوں کی توں قائم ہے اور نئے گھوڑے اتنے مؤثر نہیں ثابت ہوئے جتناکہ سمجھا جارہا تھا۔
پھر ہمارے سامنے متبادل کیا ہے؟ معاونت کرنے والوں کے پاس ایک ہی چیز کی ضمانت ہے کہ نواز شریف پھر سے واپس نہیں آسکتے۔ وہ سزایافتہ ہیں اور اس لحاظ سے سیاست سے ڈس کوالیفائی ہیں۔ لیکن ن لیگ اور مریم نواز کا کیا بنے گا؟ پنجاب میں زبردست انتخابی دنگل لگنے کا امکان ہے۔ مہنگائی اور کمزور کارکردگی کی وجہ سے یار دوستوں کو تو یہ ڈر ہے کہ جیسے ق لیگ کا ٹکٹ 2008ء کے الیکشن میں ایک تہمت بن گیا تھا کہیں پی ٹی آئی کا ٹکٹ اگلے الیکشن میں تہمت نہ بن جائے۔ امیدوار بھاگے جا رہے ہوں گے اور ٹکٹ ان کے پیچھے لگے ہوئے ہوں گے۔ کہیں ایسا ہوا تو اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں