پاکستان تحریک انصاف کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں تھوڑی سی مزید ہلچل ہونی چاہئے۔ یہ پی ٹی آئی کی صحت کیلئے بھی اچھا ہوگا اور ملکی سیاست کیلئے بھی شاید فائدہ مند ثابت ہو۔ ٹھہرے ہوئے پانی گندے ہو جاتے ہیں اورکسی استعمال کے قابل نہیں رہتے۔ اڑھائی سال کی بے فائدہ حکومت کے بعد پی ٹی آئی کا بھی یہی حال ہوچکا ہے۔
پہلا جھٹکا یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں لگا تھا۔ دوسرا زیادہ اور زوردار اس صورت میں لگ سکتا ہے اگر گیلانی سینیٹ کی چیئرمینی کے انتخاب میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ حکومت پہلے ہل چکی ہے لیکن اگر سینیٹ کی چیئرمینی میں بھی شکست آتی ہے تو حکومت کا اعتماد بالکل زیرو ہو کے رہ جائے گا۔ پہلے سے ناقص حکمرانی بالکل ستیاناس ہوکے رہ جائے گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ انتخاب صاف اور شفاف ہو اور اس میں وہ اندھیروں کی ہیراپھیری نہ ہوجو کہ کبھی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت نے پہلے سے ہی انتباہ کردیا ہے کہ یہ انتخاب نیوٹرل ہونا چاہئے اور اس میں کسی کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ دو تین ووٹوں کی عددی اکثریت سینیٹ میں پی ڈی ایم جماعتوں کی ہے اور ہیرپھیر نہ ہوتو کامیابی پی ڈی ایم کے حصے میں آنی چاہئے۔
لیکن یہ کہنے کی باتیں ہیں، مداخلت کرنے والے زوردار طریقے سے حرکت میں آ گئے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دو تین ووٹیں توڑنا پاکستانی سیاست میں کون سا بڑا کام ہے لیکن ساتھ ہی پی ڈی ایم اور خاص طور پہ یوسف رضا گیلانی نے ثابت کیا ہے کہ ووٹ توڑنے کی صلاحیت ان کی پی ٹی آئی سے کچھ زیادہ ہے۔
بہرحال یہ پاکستانی سیاست کے اسرار و رموز ہیں۔ اب تک تو ہر قسم کی امداد پی ٹی آئی حکومت کو پہنچائی جاتی رہی ہے۔ اسی بنا پہ ون پیج کا چرچہ عام ہوا۔ اب کیا کیفیت ہے یہ کہنا اتنا آسان نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ جن کرشموں کی اِن سے توقع تھی اُن میں سے کوئی رونما نہیں ہوا۔ جتنی بھی ہمدردی کسی سے ہو اس کی کمزوریوں کا بوجھ ہمیشہ کیلئے اٹھانا آسان نہیں ہوتا۔ تو کون کہہ سکتا ہے کہ اندر خانے کون سے محرکات یا رجحانات چل رہے ہیں۔ اس نکتے کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے کہ پی ڈی ایم کی قیادت نے ایک پیج اور اس سے جڑے ہوئے تصورات کو خاصا تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ادارے حساس مزاج کے مالک ہوتے ہیں۔ حکم چلانا تو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن کھلی تنقید انہیں اچھی نہیں لگتی۔ اور جب مولانا فضل الرحمن جیسے لیڈر بغیر کسی تامل کے کھل کھل کے نام لے رہے ہوں تو صورتحال وہ نہیں رہتی جو پہلے تھی۔ جب ادارے متنازع ہو جائیں یا بنا دیئے جائیں تو اور تو کچھ نہیں ہوتا لیکن ان کا اعتماد مجروح ضرور ہوتا ہے۔ نواز شریف تو چلیں لندن بیٹھے ہیں اور پاکستان میں کسی کا ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکتا‘ لیکن مولانا فضل الرحمن تو یہیں ہیں اور انہوں نے کتنی کھل کھل کے باتیں کی ہیں۔ محسن داوڑ پہ ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ مولانا پہ ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں۔ مریم نواز تو ایک کیس میں سزا یافتہ ہیں اور ضمانت پہ باہر آئی ہوئی ہیں‘ لیکن اُن کا اندازِ بیاں بھی کتنا کھلے قسم کا ہے۔ وہ بھی کسی کا لحاظ نہیں کر رہیں۔
پہلے ڈیڑھ دو سال تو یوں لگتا تھا کہ ملک میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں‘ لیکن پی ڈی ایم کی بنیاد ڈالی گئی اور اس اتحاد نے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اقتدار میں پی ٹی آئی ہی ہے لیکن ملک کی سیاسی صورت حال میں کچھ تبدیلی آچکی ہے۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میدان میں صرف پی ٹی آئی ہے اور اس کے مدمقابل کوئی نہیں۔ پی ڈی ایم نے زور ضرور پکڑا ہے اور جو حکمت عملی اپنی تبدیل کی ہے اُس سے فائدہ بھی اسے پہنچا ہے۔ پہلے تو پی ڈی ایم نے استعفوں کی رٹ لگائی ہوئی تھی لیکن بہت حد تک یہ کریڈٹ آصف علی زرداری کو جاتا ہے کہ کچھ عقل کی نصیحت کرکے پی ڈی ایم کو اس راہ پہ لائے کہ جو موقعے ہاتھ آئیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج پی ٹی آئی کے لئے سبکی کا باعث بنے ہیں اور ڈسکہ کا انتخاب تو ایسے تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے منہ پہ کالک خود مل لی۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب اور پھر سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے جو الیکشن کمیشن نے سٹینڈ لیا اور جس بھرپور طریقے سے حکومتی رویے کی مذمت کی اُس سے بھی کچھ حد تک پی ٹی آئی کی رسوائی ہوئی ہے۔ یہ سب عوامل ایسے ہیں جو بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف مقابلہ سخت ہو رہا ہے۔ اس نئے پیدا شدہ ماحول میں سینیٹ کی چیئرمینی کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا وہ مورال نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا اور اپوزیشن جماعتوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ نظر آرہا ہے۔ کیا ان سب چیزوں کا اثر سینیٹ کی چیئرمینی کے الیکشن پہ پڑے گا؟ کچھ ہی دن باقی ہیں اور ہم دیکھ لیں گے لیکن اتنی بات تو واضح ہے کہ مقابلہ کانٹے دار ہے۔ جس کسی کے مقدر میں کامیابی آئی آسانی سے نہیں آئے گی۔
حکومت کہیں جا نہیں رہی۔ قومی اسمبلی میں حکومت کے خلا ف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب نہیں ہو سکتا لیکن حکومت نہ بھی کہیں جا رہی ہو تو محض اقتدار پہ ٹکے رہنا تو کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ جب جناب زرداری صدر مملکت تھے تو پی پی پی نے اپنا پانچ سالہ دور اقتدار پورا کیا تھا لیکن اس سے کیا ہوا؟ کارکردگی کی بنا پہ پی پی پی رسوا ہو کے رہ گئی تھی اور اس پانچ سالہ دور اقتدار کے بعد جو 2013ء میں قومی انتخابات ہوئے ان میں کم از کم پنجاب کی حد تک پی پی پی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں تھا۔ اُس الیکشن میں پی پی پی کا پنجاب سے مکمل صفایہ ہو گیا تھا۔ تو پی ٹی آئی اپنے پانچ سال پورے کر لے گی تو اس سے کیا نکلے گا؟ ڈر تو یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کا وہ حشر نہ ہو جائے جو پی پی پی کا 2013ء میں ہوا تھا کہ ٹکٹ میز پہ سجے ہوں اور لینے والا کوئی نہ ہو۔ اور یہ تو محض فضول کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی پچھلے اڑھائی سالوں میں کچھ خاص نہیںکر سکی تو اگلے دو سالوں میں معجزے برپا کر سکے گی۔ انسان کی جب آدھی عمر گزر جائے تو باقی عمر میں وہ اپنے آپ کو دہرائے چلا جاتا ہے۔ اگر اب تک عثمان بزدار بس ویسے ہی رہے ہیں تو اگلے دو سالوں میں وہ نواب آف کالا باغ نہیں بن جائیں گے لہٰذا پی ٹی آئی حکومت سے کچھ خاص امیدیں نہیں باندھی جا سکتیں۔ جو کارکردگی اور کارنامے ہم دیکھ چکے ہیں آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ اس صورتحال میں یہ قومی ضرورت بن چکی تھی کہ پاکستانی سیاست میں کوئی نیا عنصر داخل ہو۔ نئے شاہسوار سیاسی افق پہ نمودار تو نہیں ہوئے لیکن جو پرانے تھے اُن میں ایک نئی جان پڑ چکی ہے اور موجودہ حالات میں اِسی کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔
ہم لاکھ روتے رہیں کہ پاکستان میں قیادت کا بحران ہے، ولولہ انگیز قیادت ہمیں نصیب نہیں ہو رہی‘ لیکن گزارہ تو انہی چیزوں پہ کرنا پڑتا ہے جو دستیاب اور موجود ہوں۔ ہم رونا رو سکتے ہیں کہ کوئی صلاح الدین ایوبی ہماری تقدیر میں کیوں نہیں لکھا ہوا لیکن گزارہ بہرحال حقیقت پہ کرنا ہوتا ہے۔