شروع کے سالوں میں کافی قیام اسلام آباد میں رہا‘ لیکن کہیں پھر سے اسلام آباد میں رہنا پڑے اس تصور سے اب دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ بہ امر مجبوری ٹی وی پروگراموں کیلئے کبھی اسلام آباد جانا پڑ جاتا ہے لیکن دل وہاں بالکل نہیں لگتا۔ جائیں بھی تو واپس بھاگنے کو جی چاہتا ہے۔ وہاں کے کلب میں کبھی ٹھہرنا پڑتا ہے لیکن ٹھہر بھی جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے قید کرکے رکھ دیا ہے۔ لاہور البتہ مختلف شہر ہے۔ وہاں دو تین دن قیام بھلا لگتا ہے لیکن چوتھا روز طلوع نہیں ہوا اور من میں بغاوت اٹھ جاتی ہے کہ اب واپس جائیں۔ لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ گاؤں بھی وقفے وقفے سے اچھا لگتا ہے۔ زندگی میں توازن تو ضرور ہونا چاہئے لیکن زندگی بھرپور طریقے سے جینے کیلئے ورائٹی کی اپنی اہمیت ہے۔ کچھ یہاں کا پانی پیا کچھ وہاں کا۔ ایسے معمول سے ہی دل خوش رہتا ہے۔
دیہات کو جس چیز نے طاقت بخشی ہے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اب تو حسب توفیق فون ہر ایک کے پاس ہوتا ہے اور سمارٹ فون بھی عام ہیں۔ ہم جیسے لوگوں‘ جن کی روزی روٹی صحافت سے جڑی ہوئی ہے‘ کیلئے تو انفارمیشن ٹیکنالوجی عیاشی نہیں بنیادی ضرورت ہے۔ اب گاؤں میں بیٹھے کالم لکھا جا سکتا ہے یا آپ زیادہ خوش نصیب ہوں توکالم ڈکٹیٹ بھی ہو سکتا ہے جیساکہ میں کرتا ہوں۔ اب چکوال میں یہ سہولت میسر ہے کہ ہونہار لڑکے‘ جو کمپیوٹر کے ماسٹر ہیں‘ ڈکٹیشن لے لیتے ہیں۔ اس میں غلطی بھی کوئی نہیں ہوتی اور کالم تیار ہو جاتا ہے۔ یہ سب انفارمیشن انقلاب کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ نہیں تو چند ہی سال پہلے گاؤں میں رہنا کالا پانی میں جلا وطن ہونے کے برابر تھا۔ نہ بجلی، نہ ٹیلی فون اور کمپیوٹر کا تو تب تصور تک نہ تھا۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا چکوال میں ڈائریکٹ ڈائلنگ نہیں تھی۔ اُس زمانے میں صحافت کرنے کیلئے یہ ضروری تھاکہ آپ کا قیام کسی بڑے شہر میں ہو۔ تب ہی اخبارات کے دفاتر تک رسائی ممکن ہوتی لہٰذا جو اسلام آباد میں ہمارا شروع کے سالوں میں قیام تھا وہ نظریہ ضرورت کے تحت ہوا۔ اب اُس مخصوص ضرورت سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اسی لئے یہ ممکن ہے کہ مالٹے اور کینو کے درختوں کے بیچ میں چل کے کالم مکمل کیا جائے۔
ذرائع آمدورفت بھی بہتر ہوگئے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھاکہ بھگوال سے چکوال آنا دشوار تھا کیونکہ سڑک اتنی خراب تھی۔ اب موٹروے ہمارے پاس سے گزرتی ہے اور اگر نیلہ دلہہ انٹرچینج سے جائیں تو اسلام آباد میرے گاؤں سے ایک یا سوا گھنٹے کی مسافت پہ ہے۔ لاہور جانا ہوتو گاؤں کے گھر سے اُس مخصوص سرائے تک جہاں ہمارا قیام ہوتا ہے‘ تین گھنٹے لگتے ہیں۔ میری خوش قسمتی یہ کہ گاڑی میں خوب نیند آتی ہے۔ رَت جگوں میں نیند کی جو کمی واقع ہوئی ہو وہ گاڑی کے سفر میں پوری ہو جاتی ہے۔
اب فقط دو ضروریات رہ گئی ہیں جن کی بنا پہ لاہور کا سفر کچھ دنوں بعد ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک تو اپنے زلف تراش سے ملنے کیلئے۔ گو سر پہ بال اتنے گھنے نہیں رہے لیکن پھر بھی قینچی کا کچھ کام اُن پہ ضروری ہوتا ہے۔ داڑھی کی تو بات ہی اور ہے، چار پانچ روز بعد اس کا بناؤ سنگھار لازم ٹھہرتا ہے۔ دوسرا روحانی ضروریات پوری کرنے کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہمیں پڑتی ہے وہ لاہور سے نسبتاً بہ آسانی دستیاب ہوتی ہیں۔ جہاں تک اچھی صحبت کا تعلق ہے تو اس کا گزارہ بھی ہو ہی جاتا ہے۔ اللہ کی مخلوق ہے، یہ تو کہیں لکھا نہیں ہوا کہ لاہور میں ہی اچھے لوگ ملتے ہیں۔ ہم گاؤں یا چکوال والے ویسے بھی تھوڑے پہ قناعت کرلیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ لاہورکی جدید ثقافت کی اپنی دل نشینی ہے‘ لیکن ایک حد سے زیادہ وہ ثقافت برداشت کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ ایک تو موسیقی اُن خاص محفلوں میں ایسی ہوتی ہے کہ کم از کم ہمارے قدیم اور زخم شدہ دلوں کو نہیں بھاتی۔ پھر جو اچھل کود ہوتی ہے وہ بھی ہم جیسوں کے دائرۂ عافیت میں کہیں فٹ نہیں ہوتی۔ شوق کون نہیں رکھتا لیکن صحیح معنوں میں ہمارے شوق سادہ ہیں۔ مثال اب کیا دوں۔ جس دن یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اِسی صبح ریڈیو سیلون سے لتا منگیشکر کا ایک گانا سنا جس کی موسیقی انیل بسواس کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ بول یوں ہیں ''آئے تھے دھڑکن لے کر دل میں، چلے تو لے کر جان چلے‘‘۔ موسیقی ایسی ہے اور لتا جی کا گانا بھی ایسا کہ بے اختیار تین چار بار اس گانے کو سنتا رہا اور اب بھی جی نہیں بھرا۔ لاہور کی جدید ثقافت میں تو ایسی موسیقی نہیں ملتی۔ کئی دفعہ فن کے کمالات دکھانے والوں کے سامنے کسی پرانے گانے کی فرمائش کی کہ اس پہ فن کا کوئی مظاہرہ ہو۔ کوشش ضرور ہوئی کہ اُن پرانی دھنوں پہ ہاتھ پاؤں ہلائے جائیں‘ لیکن ان کا قصور بھی نہیں کیونکہ اور قسم کی موسیقی پہ اُن کی ریاضت ہوئی ہوتی ہے۔ جب پرانی روایات ہی نہیں رہیں تو وہ کہاں سے اُن روایات کی علم بردار بن جائیں؟
ہمارے معاشرے میں ویسے ہی موسیقی اور اُس سے جڑے ہوئے فنونِ لطیفہ کو وہ فروغ حاصل نہیں جوکہ دوسرے معاشروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں نہ موسیقی کے کنسرٹ ہال (concert hall) نہ بیلے ڈانس (ballet dance) نہ آپرا (opera) کی گائیکی۔ ہندوستان میں کلاسیکی موسیقی بہت چلتی ہے لیکن ہم اس میں بہت پیچھے ہیں‘ حالانکہ دیکھا جائے تو ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا ورثہ جہاں ہندوستان کا ہے وہاں ہمارا کچھ زیادہ ہونا چاہئے کیونکہ کتنے بڑے بڑے کلاسیکی موسیقی کے استاد مسلمان رہے ہیں۔ ہندوستان والے اُن مسلمان استادوں کو مانتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں‘ لیکن ہم ہیں کہ ایسا معاشرہ ترتیب دے دیا ہے جس میں ایسے فنون کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بھی مذہب کی کوئی کمی نہیں۔ وہاں بڑے بڑے سادھو اور مذہبی پیشوا قسم کے لوگ بستے ہیں‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ اور چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ ہم نے پارسائی اور پاکیزگی کا ایسا ماحول بنا ڈالا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔ باہر کی دنیا میں موسیقی کے بڑے مراکز بڑے شہروں میں ہوتے ہیں۔ یہاں جب موسیقی کے مراکز سِرے سے ہیں ہی نہیں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسلام آباد میں رہ رہے ہیں یا بھگوال میں؟ کہنے کا مطلب یہ کہ کلچر اور فنون لطیفہ کے حوالے سے آپ اپنے ساتھ کوئی نقصان نہیں کررہے‘ اگر آپ دیہات یا کسی چھوٹے شہر میں رہتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے مقبول قومی مشغلہ کڑاہی گوشت کا تناول ہے۔ وہ تو اچھے سے اچھا چکوال کے ڈھابوں میں بھی مل جاتا ہے۔ اگر آپ نے لاہور جا کے بھی یہی جھک مارنی ہے تو اتنے لمبے سفر کا فائدہ ہی کیا۔
فنون لطیفہ کے حوالے سے ایک صاحبہ ہیں جن کا یوٹیوب پہ خاصا چرچہ رہتا ہے۔ فن بھی وہ کمال کا کرتی ہیں لیکن بات پھر وہی کہ کہاں ان کی پسندیدہ موسیقی اور کہاں ہمارے زنگ آلود مزاج۔ لہٰذا ایسے جوہرِ کمالات سے ہم محروم رہیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ شام کو اکیلے میں بیٹھتے ہیں اور اپنی پسند کے گانے سن لیتے ہیں۔ کل شام میڈم نور جہاں کی وہ لافانی غزل سننے کا پھر اتفاق ہوا ''دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا‘‘۔ ایک دفعہ کیا سننا تھا ہم اسے سنتے ہی رہے اور یوں ایک اور شام بیت گئی۔