پاکستانی لیڈروں میں ذوالفقار علی بھٹو کو پڑھنے کا شوق تھا۔ سیاست اور اقتدار میں بھی آئے تویہ شوق اُن کے ساتھ رہا۔اُن کی ذاتی لائبریری بہت وسیع تھی اور کوئی نئی کتاب آتی تو کوشش یہی ہوتی کہ اُن کی لائبریری کی زینت بن جائے۔خود لکھتے بھی اچھا تھے اور دو تین کتابیں اُن کی تصنیف کردہ ہیں۔
چوہدری محمد علی جو تقسیم ہند سے پہلے سرکارشاہی کے بڑے افسر تھے اور پاکستان بننے کے بعد وزیراعظم بھی رہے ‘ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی تحریراُن کی بہت عمدہ تھی ۔ظاہر ہے کتابوں سے بھی شغف ہوگا لیکن چونکہ اُن کے بارے میں کوئی مستند سوانح حیات نظر سے نہیں گزری تو اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جنرل ایوب خان جو بغیر کسی فتوحات کے خودساختہ فیلڈ مارشل بن گئے اُن کی زندگی کے کسی پہلو سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ کتابوں کی دنیا سے کچھ زیادہ لگاؤ تھا۔ چند سال پہلے اُن کی ڈائری پبلش ہوئی تھی اور اُس کے مطالعہ سے یہ تاثر تقویت پاتا ہے کہ لکھنا پڑھنا اُن کی زندگی کا اتنا بڑا معمول نہ تھا۔ڈائری پڑھ کے تو ذہن میں یہی خیال ابھرتا ہے کہ شکارکے بہت دلدادہ تھے۔ ڈائری میں تواتر سے ذکرملتا ہے کہ فلاں جگہ اتنی مرغابیاں ماریں اور رات فلاں ریسٹ ہاؤس میں رہ کرصبح فلاں شکار گاہ میں بھرپور شکارکیا۔
بے نظیر بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل تھیں اور ان کے بارے میں یہی عمومی خیال ہے کہ بہت پڑھتی تھیں لیکن حقیقت میں اُن کی ریڈنگ کو آپ ہلکی ریڈنگ ہی کہہ سکتے ہیں۔ زیادہ گہری یا بھاری کتابوں سے اتنا لگاؤ نہ تھا۔بولنے میں روانی بہت تھی اور ای میل باقاعدگی سے پڑھا اور لکھا کرتیں۔لیکن اُن کی جو تصنیف ''دختر ِمشرق‘‘ ہے اُسے آپ کافی ٹیبل کی کتاب ہی کہہ سکتے ہیں۔ جہاں تک شریف فیملی کا تعلق ہے اُن کا ذکر کتابوں کے ضمن میں نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ جاتی امرا میں ہرچیز ملے گی ... مختلف اقسام کے تیتر‘ چکور‘ طرح طرح کے ہرن ‘ لیکن کتاب کہیں نظر نہ آئے گی ۔ شاید کتابی نالج سے زیادہ پریکٹیکل نالج پہ وہاں کے مقیم یقین رکھتے ہوںاور اس بات پہ اُن سے کوئی جھگڑا بھی نہیں کیا جاسکتاکیونکہ پریکٹیکل نالج ہی شاہد انہیں کہاں سے کہاں سے لے گیا ۔ورنہ کتابوں تک رہتے توشاید کسی منشی خانے تک ہی محدود رہتے۔یہ اِس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان میں پریکٹیکل نالج کی زیادہ اہمیت ہے۔ البتہ شہباز شریف کے نئے ماڈل ٹاؤن گھر میں کتابیں ضرور نظر آتی ہیں لیکن وہ بھرتی کی کتابیں ہیں جیساکہ سیٹھ لوگ اپنے ڈرائنگ روموں کی سجاوٹ کیلئے الماریوں میں آویزاں رکھتے ہیں ۔
روسی انقلاب کے لیڈر ولادیمیرلینن کتابوں کے رسیا تھے ۔ ہمیشہ کتابیں ساتھ رہتیں‘ پڑھتے اور لکھتے رہتے ۔ اُن کے مجموعہ تصنیف سے ایک چھوٹی لائبریری بھر جائے لیکن وہ صرف کوئی پڑھاکو آدمی نہ تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ لیڈر تھے اور کیا بلا کے لیڈر۔ روسی انقلاب دانش وروں کا انقلاب تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں تمام کے تمام دانش ور لوگ تھے لیکن وہ سارے بغیر چون و چراکے لینن کو لیڈر مانتے تھے۔ اس لئے کہ ذہنی صلاحیت کے حوالے سے لینن اُن سب سے افضل تھے۔ جنہیں ہم انسانی کمزوریاں کہتے ہیں وہ لینن میں نہ تھیں۔ نہ تمباکو‘ نہ شراب اور نہ عشق کی داستانیں۔ زندگی میں ایک آدھ عشق کا قصہ ضرور رہا لیکن زیادہ تر پس ِپردہ۔جلاوطنی میں یا پھر اقتدار میں ذہن بس کام پہ ہی فوکس رہتا ۔
بیسویں صدی میں دو چنگیز خان دنیا کے سٹیج پہ نمودار ہوئے ‘ ایک ہٹلر، دوم سٹالن ۔ ہٹلر اپنی ہی آگ میں جھلس کے خاک ہو گیا لیکن سٹالن اپنی تمام تر خون ریزی کے باوجود سیاست اور جنگ دونوں میدانوں میں کامیاب رہا اور قدرتی موت مرا۔خون ریزی ایسی کہ ہزاروں کیا لاکھوں آدمی اُس کے دستخطوں سے مارے گئے ۔اُن کے سامنے لسٹیں رکھی جاتیں اور نیچے وہ دستخط کرتے۔ صرف کمیونسٹ پارٹی نہیں بلکہ روسی فوج کو بھی نہیں بخشا اور فوج کے سربراہ مارشل ٹوخاچیوسکی جو بہت ذہین کمانڈر سمجھے جاتے تھے کو گرفتار کرکے موت کے گھاٹ اتار ا گیا۔ سٹالن عجیب صفتوں کا مالک تھا ۔ لینن جتنا دانشور تو نہیں لیکن دانشور بہرحال تھا۔ دو تین اچھی کتابیں بھی لکھیں اور دورِ حکمرانی میں بھی کتابوں سے لگاؤ رہا حتیٰ کہ جنگ عظیم دوم میں جب ہٹلر کی فوجوں نے سوویت یونین پہ تباہ کن حملہ کیا اور سٹالن اٹھارہ اٹھار‘ بیس بیس گھنٹے کام کرتاپھر بھی جس دیوان پہ رات کو لیٹتا تو کتابیں ساتھ ہوتیں۔چنگیز خان کی زندگی کے بارے میں خوب جانکاری رکھتے تھے اور ایک اُن کا ہردل عزیز موضوع روس کے گزرے ہوئے حکمران Ivan the Terribleکی زندگی کا مطالعہ تھا ۔ یہ بہت ہی ظالم حکمران تھا اور اس کی زندگی کا بھرپور مطالعہ کرکے سٹالن پتا نہیں اپنے لئے کیا رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہوں گے ۔ سٹالن تقریریں اپنی خود لکھتے تھے ۔ ڈیسک پہ بیٹھ کے اپنے ہاتھ سے تحریر کرتے۔کسی ٹائپسٹ کو ڈکٹیشن نہ دیتے۔کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی صرف قتل و غارت سے سٹالن نہیں بن جاتا ۔ سٹالن بننے کیلئے بہت کچھ ضروری ہوتا ہے۔
چیئرمین ماؤ بھی کتابوں کے رسیا تھے ۔ نوعمری سے پڑھائی لکھائی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ شعر بھی کہتے تھے اور مضامین لکھنے کا بھی شوق تھا ۔ اس کے ساتھ بلاشبہ عظیم ملٹری کمانڈر تھے اور اگر کوئی چینی کمیونسٹ پارٹی کو کامیابی اور فتح کے ساتھ گوریلا جنگ کی راہ پہ لے گیا تو وہ ماؤ ہی تھے ۔ سٹالن کی طرح ماؤ کے دل میں بھی رحم کا کوئی کونانہ تھا ۔کمال کی بات البتہ یہ ہے کہ سٹالن اور ماؤ اپنے ساتھ بھی رحم نہیں کرتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں سٹالن کا بیٹا یاکوف(جو ہماری زبان میں یوسف کہلائے گا) فوج میں میجر تھا اورلڑائی کے دوران جرمنوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ یہ مستند حقیقت ہے کہ جب جرمنوں کو پتا چلا کہ یاکوف سٹالن کا بیٹا ہے تو روسیوں کو یہ پیش کش کی گئی کہ ایک جرمن جرنیل جو روسیوں کے قبضے میں تھا اُس کے بدلے میں یاکوف کورہاکیا جاسکتا ہے۔ سٹالن نے پیش کش مستر د کردی۔ یاکوف نے اپنے قیدی کیمپ سے جب بھاگنے کی کوشش کی تو جرمن گولیوں کی بوچھاڑ میں مارا گیا۔
جہاں تک ماؤ کا تعلق ہے لانگ مارچ میں حالات اتنے کٹھن تھے کہ دوسری بیوی سے اپنے دو بچے انہیں راستے میں کسی کسان کے گھرانے میں چھوڑنے پڑے۔ بعد میں اِ ن بچوں کا کوئی پتانہ چلا کہ اِن کے ساتھ کیا ہوا۔ ماؤ کا بڑا بیٹا 1950-53ء کی کورین جنگ میں مارا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی لیڈر شپ نے فیصلہ کیا کہ اس خبر کی اطلاع ماؤ کو نہ دی جائے۔ کچھ عرصہ بعد کوریا میں جو چینی کمانڈر تھے وہ جب ما ؤ سے ملے تو اس کے منہ سے بے ساختہ افسوس کے کچھ الفاظ نکل گئے ۔تب جاکر ماؤ کو اپنے بیٹے کی موت کا علم ہوا۔کہتے ہیں کہ ماؤ کا رنگ فق ہو گیا لیکن وہ چپ رہے اور کچھ نہ کہا۔آج اگر چین عظیم ہے تو اُن بنیادوں کی وجہ سے جو چینی انقلاب میں رکھی گئیں۔اور ہم ہیں کہ موٹر گاڑیوں پہ شاہدرہ سے جہلم جانا ہو تو اسے لانگ مارچ کہہ دیتے ہیں۔ چین سے دوستی توہماری ہے لیکن کچھ چینی انقلاب کے بارے میں پڑھ تو لیں ۔
چیئرمین ماؤ کا پلنگ عام سائز سے تھوڑا بڑا تھا ۔ سوتے تو دائیں بائیں کتابیں ہوتیں۔ لینن کے برعکس ماؤ کی آنکھ ہمیشہ عاشقانہ رہی۔