جب سے بادشاہی مسجد لاہور سے متصل علاقے کی روشنیاں ماند پڑیں اور وہاں کے بیشتر مکینوں کو نئے مسکن تلاش کرنے پڑے بہت سے لوگ پوش آبادیوں میں منتقل ہو گئے۔ پرانی گلیاں بے آباد ہوئیں تو فن کے تقاضے نئی جگہوں پہ پورے ہونے لگے۔ زندگی میں زیادہ مہربان تو ہم بنا نہ سکے لیکن ایک عدد مہربان کی بدولت جدید ثقافت کے فن کے مظاہروں کا کبھی کبھار موقع مل جاتا ہے۔ دلدادہ بہت ہوں گے اس جدید ثقافت کے لیکن اِس کے انداز ہمارے دل کو زیادہ لبھاتے نہیں۔
پرفارم کرنے والے آرٹسٹوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے فن کے ماہر ہوتے ہیں اور کئی سالوں کی ریاضت کے بعد ہی اس شعبے میں کچھ نام اور شہرت کمانے کے قابل بنتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ فن کے تقاضے ہی بدل چکے ہیں۔ ایک تو موسیقی اتنی بیہودہ ہوگئی ہے کہ کم از کم ہمارے جیسے آدمی کیلئے ایسی موسیقی کا سننا کسی دردناک اذیت سے کم نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس واہیات موسیقی پہ ایک عجیب قسم کی اچھل کود ہی ہوسکتی ہے۔ فن تو بس نام کا ہی رہ جاتا ہے باقی عجیب قسم کی جمناسٹک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اِس فن کے معیار کا اندازہ لگانے کیلئے یہی امر کافی ہے کہ آج کے بیشتر پرفارمر پرفارم کرنے سے پہلے گھٹنوں پہ اُس قسم کا حفاظتی گارڈ پہن لیتے ہیں جس قسم کا حفاظتی گارڈ امریکی فوجی پہنتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ جب آپ اچھل کود کررہے ہوں تو گھٹنے آپ کے محفوظ رہیں۔ ظاہر ہے اِس قسم کے معیارِ فن کے بہت چاہنے والے ہوں گے۔ داد دینے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ اور وہ جو موڈ بنانے والی بات نوٹوں کی ہے اُس کے بھی بھرپور مظاہرے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم یہی کہیں گے کہ ہم پرانے طرزکے آدمی ہیں۔ اِس قسم کا فن ہمارے دل کو نہیں لگتا۔ جاتے ہیں تو مجبوری کے تحت بیٹھے رہتے ہیں اور پھر شام کے ایک دو پہر گزر جائیں تو ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ انسان ہر چیز برداشت کر لیتا ہے‘ لیکن برداشت ایک چیز ہے، پسند یکسر مختلف کیفیت کا نام۔
1962ء میں فلم شہید ریلیز ہوئی تھی۔ گزرے زمانے کی مہان اور بے حد خوبصورت ایکٹریس مسرت نذیر اُس میں جلوہ گرہوئیں۔ فلم میں دوتین گانوں پہ مسرت نذیر کا ڈانس تھا۔ ایک اِس گانے پہ ''میری نظریں ہیں تلوار کس کا دل ہے روکے وار توبہ توبہ استغفار‘‘۔ دوسرا ڈانس ہے اس گانے پہ ''حبیبی ہیاہیا نقاب جو اٹھایا شباب رنگ لایا زمانہ ڈگمگایا‘‘۔ایک آدھ قسم کا ڈانس منیر نیازی کی اس مشہور نظم پہ فلمایاگیا ''اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘۔ سارے ڈانس دل کو موہ لینے والے ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اِن میں کوئی اچھل کود نہیں۔ مسرت نذیر کی ہلکی سی بازوؤں کی موومنٹ ہے، تھوڑا سا کمر کا لہلہانا اور دونوں پاؤں کا ردھم (rhythm) میں چلنا۔ ذرا سی واہیاتی یا obscenity نظر نہیں آتی۔ میری نظریں ہیں تلوار کے ڈانس میں مسرت نذیر تیزی سے مٹی کی سیڑھیوں پہ چڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ صرف اِتنا ہی کررہی ہوتی ہیں لیکن لگتا ہے کوئی پری آسمانوں سے اتری ہے۔ شہید کے سارے گانے نسیم بیگم کی آواز میں ہیں اور تمام گانوں کیلئے ایک ہی لفظ ہے، لاجواب۔ ایک اور گانے کا ذکر میں بھول گیا ''جب سانولی شام ڈھلے‘‘۔ موسیقی، مسرت نذیر کا ڈانس اور نسیم بیگم کی آواز عجیب سماں پیدا کرتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہواکہ اپنی اکیلی شام شروع کرنی ہوتو یہ گانا لگا لیتا ہوں۔ فلم کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی تھی۔ کیا کہیں، کمال کی موسیقی ہے۔
ایسی پرفارمنس دیکھنے کو ملے پھر تو ہم وہاں جائیں‘ لیکن ظاہر ہے اِس قسم کے فن کے مظاہرے کی گنجائش ہمارے ہاں رہی نہیں۔ ایک تو ایسی جگہیں ہی نہیں رہیں جہاں ایسی پرفارمنس ہو سکتی ہیں‘ اور دوسرا یہ کہ مسرت نذیر روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ مسرت نذیر پاکستانی سینما کی ایواگارڈنر (Ava Gardner) تھیں۔ بہت خوبصورت چہرے ہماری سکرین پہ آئے ہیں لیکن اُن جیسا کوئی نہیں۔ وہ منفرد تھیں۔ وہ زمانہ ہی خوش قسمت کہلائے گا جس میں کوئی ایواگارڈنر یا مسرت نذیر جنم لے۔ یہاں کہتا چلوں کہ ہندوستانی سینما کی ایواگارڈنر مدھو بالا تھیں۔ اُن کے چہرے کو انسان دیکھے تو حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ایسی دلکشی کو ترتیب دینے والا کون ہے۔
جس عمر میں ہم پہنچ چکے ہیں اُس میں تین کام رہ جاتے ہیں۔ اول، ہسپتالوںکا چکر لگانااور ڈاکٹروں کا درشن کرنا۔ اللہ کا لاکھ شکر کہ ابھی تک اِس نحوست سے بچے ہوئے ہیں۔ کب تک بچے رہیں گے یہ کون کہہ سکتا ہے لیکن فی الحال ہاتھ پاؤں ٹھیک ہی چل رہے ہیں۔ دوم، لڑکھڑاتے قدموں سے صاحبانِ منبر و محراب کی طرف جانا اور راستے میں کوئی پوچھے کہ کہاں جا رہے ہو تو بھرائی آواز سے کہنا کہ اگلے جہاں کا بھی تو سوچنا ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے، روزانہ ارادہ بندھتا ہے کہ اب تو سدھار کا راستہ اپنائیں گے لیکن پاپی من کا کیا علاج، دل ہی دل میں آواز اٹھتی ہے کہ سدھرنے کی توفیق عطا تو ہو لیکن ایک دم نہیں تھوڑے عرصے بعد۔ سوم، باقی چیزیں ترک کرکے کتابوں میں گھرے رہنا۔ ہم بھی کتابیں پڑھتے ہیں لیکن پڑھائی کا وقت متعین ہے۔ جب سانولی شام ڈھلے تو دل اب بھی آوارگی کی طر ف مائل ہو جاتا ہے۔ پھر طرح طرح کے خیال آتے ہیں کہ یہ کرنا چاہئے وہاں جانا چاہئے۔ دورانِ کیفیت تو پتا نہیں کیا کیا اِرادے بندھتے ہیں، کہ لاہور کے مہربانوں سے کہیں گے کہ ایک شام کا انتظام ہم گاؤں میں کرتے ہیں۔ سارا سازوسامان آپ یہاں لے آئیے۔ میزبانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے گی۔ سوتے وقت تک یہ ارادہ مصمم رہتا ہے لیکن صبح آئی نہیں کہ شاعر کی وہی بات کہ چھوڑو رات کی باتیں، رات گئی بات گئی۔
کتابوں کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اب شغل کیلئے پڑھتے ہیں۔ جو پہلے نہ حاصل کرسکے اُس گیان کا ہم نے اب کیا کرنا ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کی تڑپ سے ہم کب کے آزاد ہوچکے۔ یہ بیڑا آج کے نوجوان اٹھائیں۔ ہم اور ہم جیسوں نے جو جھک مارنی تھی مار چکے۔ اب تو ہم اس نکتے پہ پہنچ چکے کہ جو بگاڑ ہے وہ ہماری قدرتی حالت ہے۔ ہماری آہوں سے کوئی فرق نہیں پڑنے لگا۔
اِس المیے پہ البتہ افسوس رہتا ہے کہ زمانے نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ جس پاکستان میں ہم نے آنکھ کھولی وہ نہیں رہا۔ کچھ ہماری کوتاہیوں نے، کچھ زمانے کے جبر اور مجبوریوں نے، اُس پاکستان کو بدل ڈالا۔ جیسے آج کی موسیقی دل کو نہیں بھاتی پاکیزگی کے نعروں والا پاکستان بھی ہمارے جیسوں پہ بھاری گزرتا ہے۔ ہماری عادات پرانی قسم کی ہیں اور چاہیں بھی تو اب نہ بدلیں گی حالانکہ سوچا جائے تو ہماری راحت کا سامان ڈھونڈنا اتنا پیچیدہ عمل نہیں۔ خواہش صرف اتنی سی ہے کہ مملکت کا کچھ ماحول ہلکا ہو جائے۔ نعروں کی شدت میں کمی آئے۔ پڑوس میں امن و بھائی چارہ کی فضا قائم ہو جائے۔ مشرق کی طرف جانا ہو یا افغانستان کی پہاڑیوں کی طرف یہ سلسلہ آسان ہو جائے۔
یہ سچ ہے کہ اِتنا بھی کہنا اصلاح کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور ابھی ہم کہہ چکے کہ خواہشِ اصلاح سے ہم باز آئے‘ لیکن حالات میں کچھ تو آسودگی آئے۔ دنیا کی سختیاں تو اپنی جگہ لیکن بہت سی سختیاں جو ہم جھیل رہے ہیں وہ ہماری خود تیار کردہ ہیں۔ اِن سے تو نجات حاصل کی جائے۔ کون کہہ رہا ہے کہ نعرے نہ لگائیں لیکن ساتھ گلے کو کچھ آرام تو دیں۔ مکے ضرور لہرائیں لیکن انگلیوں کو کبھی ڈھیلا بھی چھوڑ دیں۔