راولپنڈی رِنگ روڈ کی منظوری وزیراعلیٰ شہباز شریف نے 2017ء میں دی تھی۔ 2018ء میں اُن کی حکومت ختم ہوئی اور یہ پراجیکٹ سرد خانے میں چلا گیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور منصوبہ پھر زندہ ہوگیا۔ شہباز شریف کے منظور شدہ پراجیکٹ پہ کام ہوتا تو کوئی پرابلم نہ اٹھتا‘ لیکن نئے آنے والوں نے پرانے پراجیکٹ میں ترمیمات کرنا شروع کردیں اور پرانی منظور شدہ الائنمنٹ کوکہاں سے کہاں لے گئے۔ رِنگ روڈ کا نقشہ سنگجانی تک پہنچ گیا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ شہباز شریف والے منصبوبے کی باقاعدہ قانونی حیثیت تھی کیونکہ وزیراعلیٰ نے اُسے منظور کیا تھا۔ جو ترمیمات کی گئیں اُن کی منظوری کہیں سے بھی موجودہ چیف منسٹر کی طرف سے نہیں آئیں۔ اِس لحاظ سے ترمیمات کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ لیکن تاثر پھیلایا گیاکہ یہ باقاعدہ منظور شدہ پراجیکٹ ہے۔ ڈھیر ساری ہاؤسنگ سوسائٹیاں کھڑی ہوگئیں اور پچھلے کچھ ماہ میں ہزاروں فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں آئیں اورلوگوں نے دھڑا دھڑ خریدیں۔ اِس ساری کارروائی کا مرکزی کردار سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود تھے۔ اُنہی کی سرپرستی میں پرانے رِنگ روڈ پراجیکٹ میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اربوں روپے اِدھر سے اُدھر ہوئے۔ جن کو فائدہ پہنچنا تھا اُنہوں نے خوب مال کمایا‘ اور تو اور جو زمین پراجیکٹ کیلئے حاصل ہونی تھی اُس کی ادائیگیاں بھی شروع کر دی گئیں۔ ادائیگی کے ضمن میں 2.3 بلین روپے سرکاری خزانے سے تقسیم ہوئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ راولپنڈی کی زمین کا ریٹ کم رکھا گیا اور اٹک کا زیادہ۔
یہ تفصیلات موجودہ راولپنڈی کمشنر گلزار حسین شاہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں موجود ہیں۔ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود کا کردار بڑے واضح طریقے سے عیاں ہوتا ہے۔ اُن کے بغیر یہ گھپلا ناممکن تھا۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ رپورٹ میں درج ہے کہ تحصیل فتح جنگ کے ایک علاقے میں وہ متعدد بار گئے اور مقصد اُن کا زمین خریدنا تھا۔ اُن کے ایک بھائی مسعود کے روابط ٹاپ سٹی والوں سے بتائے جاتے ہیں۔ ایک اور نام جو آتا ہے وہ ڈاکٹر سید توقیر شاہ کا ہے جو میاں شہبا ز شریف کے پرنسپل سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ توقیر شاہ کا آبائی گاؤں سنگجانی ہے اور رِنگ روڈ کی نئی الائنمنٹ سے اُن کی اور اُن کی فیملی کی زمینوں کو مبینہ طور پہ فائدہ پہنچتا تھا۔ توقیر شاہ کی رشتہ داری زلفی بخاری سے بتائی جاتی ہے اور رپورٹ میں گو زلفی بخاری کا نام نہیں لیا گیا لیکن اشارہ واضح ہے کہ توقیر شاہ نے ایک تو اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور دوسرا اُنہیں موجودہ حکومت میں ایک طاقتور آدمی کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔ وفاقی وزیر سرور خان کا نام رپورٹ میں نہیں ہے لیکن اُن کی طرف اشارے واضح ہیں۔ جو ہاؤسنگ سوسائٹیاں راتوں رات پیدا ہوئیں اُن میں ایک نووا سٹی ہے جسے ایک بلڈنگ کیلئے این او سی سول ایوی ایشن منسٹری سے لینا تھا۔ این او سی تیزی سے اُسے مل گیا اور سول ایوی ایشن کے وزیرکون ہیں وہ ہم جانتے ہیں۔
بنیادی نکتہ اِس سارے معاملے میں کرپشن کا نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے خوب مال کمایا اور یہ رقم عوام کی جیبوں سے گئی۔ اِتنی بات تو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن بنیادی نکتہ وہی ہے کہ جب سابق کمشنر راولپنڈی یہ سارے گُل کھلا رہے تھے‘ اُنہیں اِس حکومت میں پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے زمین کی ایکویزیشن کیلئے 2.3 بلین روپے مختص ہو رہے ہیں، اُن کی ادائیگی بھی ہو رہی ہے لیکن کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ جس مد میں یہ پیسے جا رہے ہیں اس کی باقاعدہ منظوری چیف منسٹر کے ہاتھوں ہوئی ہے یا نہیں۔ پوچھنا چاہئے تھا چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار کو، لیکن اِس سارے معاملے میں جہاں ڈھیروں نام آتے ہیں جو ایک نام غائب ہے وہ چیف منسٹر پنجاب کا ہے۔ یعنی اِتنا بڑا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے، سرکار کی طرف سے اشتہارات اخبارات میں چھپ رہے ہیں، سرکاری خزانے سے پیسے جا رہے ہیں لیکن بے خبر وہ شخص ہے جس کو سب سے زیادہ باخبر ہونا چاہئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بے خبر ہیں اور وزیراعظم پاکستان بھی اُسی حالت میں ہیں۔
میں جب کالم لکھتے ہوئے یہاں تک پہنچا تو اپنے دوست مظہر برلاس کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اِس بہت ہی دلچسپ کالم کی لائن ہی بالکل مختلف ہے۔ برلاس کا کہنا ہے کہ معاملہ بالکل اور ہے۔ وزیراعظم آفس میں ایک طاقتور شخصیت کو سابق کمشنر راولپنڈی سے شکایت تھی کہ گجرخان کی ایک زمین کے مسئلے پہ انہوں نے اُن کی بات نہ سنی‘ لہٰذا پی ایم آفس میں سابق کمشنر کو پھنسانے کیلئے ایک سازش بنی گئی۔ اِس سازش کے تحت راولپنڈی رِنگ روڈ کے مسئلے کو سامنے لایا گیا اور اِس سارے قضیے کا ذمہ دار کمشنر محمد محمود کو ٹھہرایا گیا۔ دونوں صورتوں میں ذمہ داری کس پہ آن پڑتی ہے؟ جو کہانی بھی ہم تسلیم کریں رِنگ روڈ سکینڈل والی یا سابق کمشنر کے خلاف سازش والی دونوں صورتوں میں تاثر یہی اُبھرتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو کچھ معلوم نہ تھا۔ رِنگ روڈ سکینڈل ہو رہا ہے تو وہ بے خبر ہیں۔ اُن کے خاص معاون اگر اپنی عداوت کی بھینٹ سابق کمشنر کو چڑھانا چاہتے ہیں‘ اِس صورت میں بھی وزیر اعظم صاحب بے خبر ہیں۔ نہ انہیں سیکنڈل کی سمجھ ہے نہ سازش کی۔ چینی سکینڈل ہوتا ہے تو جہانگیر ترین فارغ ہو جاتے ہیں۔ تیل کی قیمتوں کے مسئلے پہ ایک اور اُن کا معاون چلا جاتا ہے۔ اور اب رِنگ روڈ کہانی کی زد میں اُن کا ایک اور قریبی ساتھی یعنی زلفی بخاری آجاتا ہے۔ اگر سوال کوئی اُٹھتا ہے تو وہ وزیراعظم صاحب کی سمجھ کے بارے میں ہے۔ لیکن سیانے تو یہی کہیں گے کہ جس حکومت کی ابتدا وزیراعظم ہاؤس کی بھینسوں کی نیلامی سے ہو اُس سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
سوال حکمرانیٔ پنجاب پہ بھی اٹھتے ہیں۔ کیسے وزیراعلیٰ ہیں کہ دو سال سے زائد عرصے کے دوران راولپنڈی رِنگ روڈ کی کھچڑی پک رہی ہے اور اِس میں وزیراعلیٰ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ نہ وہ کچھ اپنے چیف سیکرٹری سے دریافت کرتے ہیں نہ کمشنر راولپنڈی سے کچھ پوچھتے ہیں کہ ماجرا کیا ہے۔ کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہوں اور اُن کے نیچے ایک کمشنر ایسا کررہا ہو؟ شہباز شریف پہ لاکھ تنقید کی جا سکتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اُن کا افسر یا ماتحت انہیں اتنا بے خبر رکھ سکے۔
ہم تو یہ دیکھ کے حیران ہوتے رہے ہیں کہ اپنے گاؤں سے نکل کے جب موٹروے پہ چڑھتے اور پھر چکری کراس کرتے تو کچھ فاصلے پہ موٹر وے کے دائیں بائیں عجیب عجیب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نشانیاں نظر آنے لگتی تھیں۔ خیال آتا تھا کہ جب یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں زور پکڑیں گی تو اِن کی حدیں چکری تک پہنچتی ہوں گی۔ یہ سب رِنگ روڈ منصوبے کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ ظاہر ہے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں جب اتنی حرکت ہو رہی ہو تو اُس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ بھاری رقمیں اِدھر سے اُدھر ہو رہی ہیں۔ موجودہ کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ کی رپورٹ میں کچھ سقم بھی ہیں۔ اشخاص کے خلاف یا ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کافی الزامات ایسے ہیں جو بغیر ٹھوس ثبوت کے قیاس پہ مبنی ہیں مثلاً کئی جگہ ایسے لکھا ہے کہ عین ممکن ہے کہ 'فلاں کو مالی فائدہ پہنچے‘۔ اِس قسم کی ڈرافٹنگ سے رپورٹ کی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ بہرحال بنیادی نکتہ اس رپورٹ کا یہی ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اوپر سے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔