میرا خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں ہمارے بیشتر مفروضے اور اندازے غلط بنیادوں پہ مبنی ہیں۔ سب سے غلط خیال تو یہ ہے کہ افغانستان میں پھر خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔ خانہ جنگی یا اِس قسم کی صورتحال کیلئے دو برابر کے فریقوں کا ہونا ضروری ہے۔ برابر کا فریق وہاں کوئی ہے نہیں۔ جو امریکہ سے نہیں ہارے اُنہیں ہرانے والا افغانستان میں کوئی اور نہیں رہا۔
ماضی کی صورتحال یکسر مختلف تھی۔ پرانی مجاہدین تنظیمیں تقریباً برابر کی تنظیمیں تھیں۔ جب 1995-96ء میں طالبان تحریک اُبھری اور اس نے کابل کی طرف پیش قدمی شروع کی تو ایک طرف طالبان تحریک تھی اور دوسری طرف مختلف مجاہدین دھڑے۔ اب افغانستان میں دو فریق ہیں، ایک ایسی اپاہج حکومت جس کے سربراہ اشرف غنی ہیں اور دوسری طرف وہ قوت جس نے امریکیوں کو افغانستان سے جانے پہ مجبور کیا۔ یہ اپاہج حکومت طالبان کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہے۔ نہ اِس حکومت کے مختلف عناصر میں اِتنا دم خم ہے کہ اگر کابل اِن کے ہاتھ سے جائے تو پہاڑوں پہ چڑھ جائیں اور طالبان کا مقابلہ شروع کردیں۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہوگا البتہ یہ اندازے درست ہیں کہ آج کے طالبان پرانے طالبان نہیں۔ بیس سال کی جدوجہد کے بعد تو ہرچیز تبدیل ہو جاتی ہے۔ موجودہ طالبان جنگ اور مذاکرات دونوں تجربوں سے گزرے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے‘ لگتا یوں ہے کہ وہ افغانستان سے صرف جا نہیں رہا بلکہ وہ افغانستان کو طالبان کے حوالے کرکے جا رہا ہے۔ جب امریکہ کو بخوبی علم ہے کہ پیچھے محض ایک اپاہج حکومت ہے تو پھر امریکی انخلا کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ جلد یا بدیر سب کچھ طالبان کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔
طالبان بھی دیکھیں کیا کرر ہے ہیں۔ افغانستان کا بہت سا علاقہ اُن کے کنٹرول میں آچکا ہے لیکن پھر بھی پہلے وہ اِس بات کا یقین کررہے ہیں کہ اُن کاقبضہ اُن علاقوں پہ ہو جائے جہاں گزرے دور میں اُن کا کنٹرول نسبتاً کمزور تھا۔ پرانی طالبان حکومت کے خلاف مزاحمت احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد نے کی تھی۔ اب کی بار طالبان کی کوشش لگتی ہے کہ شمالی علاقے اُن کے کنٹرول میں آئیں۔ اِس کے برعکس بڑے شہروں کی طرف پیش قدمی آہستہ آہستہ ہورہی ہے۔ دکھائی یوں دے رہا ہے کہ طالبان کو کوئی جلدی نہیں کہ وہ کابل پہ قبضہ کریں۔ یہ حکمت عملی تو ایسے لگتی ہے جیسے چیئرین ماؤ کی قیادت میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی چین کی قومی تحریک میں تھی کہ پہلے دیہی علاقوں پہ قبضہ کرو اور پھر شہروں کی طرف آؤ۔ ابھی تو جولائی کا مہینہ ہے اور امریکی انخلا نے اگست کے آخر تک مکمل ہونا ہے۔ اِس ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی انخلا پہ امریکہ میں کوئی شور نہیں مچ رہا۔ وہاں کوئی آوازیں نہیں اُٹھ رہیں کہ افغانستان کو اپنے حال پہ چھوڑا جا رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے تمام چیزیں ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہی ہیں۔ (ہمارے دوست خالد مسعودکا کل کا کالم اِنہی لائنوں پہ تھااور شاید میں اُن کے تجزیے سے متاثر بھی ہوا ہوں)۔ صورتحال تو ایسی بن گئی ہے کہ یہ محض مہینوں کی بات ہوکہ طالبان کا کنٹرول پورے افغانستان پہ ہو جائے۔ ایک اور بات جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ جنگی حکمت عملی تو اپنائی جا رہی ہے لیکن دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آ گئی ہے۔ شہروں کا محاصرہ ہورہا ہے، علاقے طالبان کے کنٹرول میں آرہے ہیں لیکن بم دھماکوں جیسے واقعات نہیں ہورہے‘ یعنی ایک لحاظ سے افغانستان افراتفری کے بجائے استحکام کی طرف جا رہا ہے۔ قتل و غارت کے واقعات رونما نہیں ہورہے۔ جنہیں ہم وارلارڈ (warlord) کہتے ہیں ایسے کوئی سامنے نہیں آرہے۔ بس آہستہ آہستہ طالبان اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ چیلنج تو طالبان کو درپیش ہوگا کہ وہ صرف پختونوں کی تحریک نظر نہ آئے اور افغانستان کی مختلف قومیتیں بھی اس میں شامل ہوں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف پختونوں کی حکومت کابل میں قائم ہواور ایسی حکومت میں تاجک، ہزارہ اور اُزبک کی کوئی نمائندگی نہ ہو۔ طالبان کے سامنے سب سے بڑا امتحان ہی یہ ہے کہ اِن قومیتوں کو اپنے ساتھ ملائیں۔
دوسرا بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ القاعدہ جیسے عناصر پھر سے زور نہ پکڑیں۔ القاعدہ کی ضرورت تب تھی جب ماضی میں طالبان شمالی اتحاد سے برسرِپیکار تھے۔ جب شمالی اتحاد جیسی کوئی چیز نہ ہوگی تو القاعدہ جیسے عناصر کو افغانستان میں جگہ دینا سراسر نقصان کا سودا ہوگا۔ ملا عمر کی طالبان تحریک نے کچھ بھی نہ دیکھا تھا۔ اُن کی سوچ محدود تھی۔ موجودہ طالبان نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے۔ امریکی فوج کے ساتھ لڑائی کی ہے اور دوحہ میں امریکی اہلکاروں سے مذاکرات کی میز پہ بھی بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ ماسکو اور تہران بھی جا چکے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ماضی کی راہ پہ نہیں چلیں گے بلکہ حقیقت کے قریب یہ نکتہ ہے کہ ماضی کی راہ پہ چلنا ناممکن ہوگا۔ ملا عمر کی سوچ نہیں اپنا سکتے۔ اِس بدلی ہوئی کیفیت کو ہمیں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ طالبان کا قبضہ جب افغانستان پہ ہو جائے گاتو اُن کی ترجیح قومی تعمیر ہوگی کہ کیسے افغانستان میں انارکی ختم ہو اور استحکام آئے۔ آج کے طالبان نے جہاد وہاد کے کوئی نعرے نہیں لگانے۔ یہ لوگ اسلامک سٹیٹ یا داعش کو افغانستان میں بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ ایسے عناصر کا سختی سے قلع قمع کیا جائے گا‘ اور طالبان حکومت کی یہ ترجیح بھی ہوگی کہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے نہیں تو نارمل تعلقات استوار کئے جائیں۔ روس، چین، ایران اور پاکستان سے نارمل تعلقات رکھے جائیں گے حتیٰ کہ ہندوستان سے بھی تعلقات بہتر ہوں گے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے افغانستان میں اِتنی سخت جنگ نہیں لڑی جتنی کہ اُس کی ویتنام سے جنگ تھی۔ افغانستان میں اس بربریت کا عشرِعشیر بھی نہیں ہوا جو امریکیوں نے ویتنام میں روا رکھا‘ لیکن آج امریکہ اور ویتنام کے تعلقات بہترین ہیں۔ دونوں کی مخاصمت ایک دوسرے سے نہیں بلکہ چین سے ہے۔ اِس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ امریکیوں اور طالبان میں تعلقات نئی بنیادوں پہ استوار ہو جائیں گے۔
ہمارا یہ خدشہ شاید مبالغے پہ مبنی ہو کہ ایک بار پھر مہاجرین کا ریلا اِس طرف آئے گا۔ ایسا تب ہو اگر افغانستان میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوں اور قتل و غارت شروع ہو جائے۔ جس طریقے سے طالبان کا کنٹرول افغانستان پہ بڑھ رہا ہے ایسی صورتحال کا خطرہ کم ہوتا نظر آتا ہے۔
ہمیں ایک چیز سے پرہیز کرنی چاہئے اور وہ ہے فضول کی بیان بازی۔ نیک تمناؤں کا اظہار کرنا کوئی جرم نہیں‘ لیکن اِس سے زیادہ کا کہنا ہمیں جچتا نہیں۔ طالبان حکومت جب قائم ہوگی ہمیں اُس کے ساتھ رہنا ہوگا۔ ہمارا ماضی میں جو بھی کردار رہا ہوکسی طالبان حکومت نے ہماری ضرورت سے زیادہ نہیں سننی۔ وہ برابر کے تعلقا ت کے خواہاں ہوں گے اور ہماری بھی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ برابری کے تعلقات ہوں۔ دو مسائل البتہ ہمارے طالبان سے ہوں گے۔ ایک تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے۔ کیا اِس تحریک کو وہاں جگہ اور حفاظت ملتی رہے گی اور کہیں وہ ہمارے خلاف تو استعمال نہ ہو گی؟ ہمیں اِس پہلو پہ دھیان دینا ہوگا۔ دوسرا مسئلہ افغانستان کے ساتھ دیرینہ مسئلہ ہے‘ ڈیورنڈ لائن کا۔ افغانستان میں کوئی مکتب فکر ایسا نہیں ہے جو ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کو تسلیم کرے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ طالبان یہ مطالبہ کریں گے کہ ہندوستان کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان راہداری کی سہولت فراہم کرے۔