ہمارے جیسا بے سمت اور بے ارادہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک کسی نہ کسی حد تک چنگیزیت اِس میں کارفرما نہ ہو۔ یہاں آئین وغیرہ لفاظی کی باتیں ہیں۔ قانون کی حکمرانی ایک بے معنی نظریہ ہے کیونکہ جہاں قول اور عمل میں اِتنا فرق ہو وہاں قانون کی حکمرانی جیسے نازک تصورات عملی شکل اختیار نہیں کر سکتے۔
ہمارے حالات میں چنگیزیت کے کیا معنی ہیں؟ محض یہ کہ قانون یا حکم ہو اُس پہ نہ صرف عمل کیا جائے بلکہ سختی سے کیا جائے۔ مثلاً اگر تھوکنا منع ہو تو اس فعل کو منع ہونا چاہئے۔ اگر کوڑ اکرکٹ کے ڈھیر لگانا اور گندگی پھیلانا عیب سمجھے جائیں تو ایسی روشوں کا سختی سے خاتمہ ہونا چاہئے۔ تین سال سے یہ حکومت لگی ہوئی ہے کہ پلاسٹک کے شاپروں کا خاتمہ ہو لیکن عملاً اس سے کچھ ہو نہیں رہا اور جیسی یہ لعنت پہلے پھیلی ہوئی تھی اب بھی ویسے ہی ہے۔ ہاں حکومت والے اور خاص طور پر وزیر اعظم لفاظی کے ماہر ہیں بولتے ہی رہتے ہیں لیکن اِس ضمن میں اِن سے کچھ ہوتا نہیں۔
چنگیزیت البتہ خلا میں نہیں چلائی جاسکتی۔ چین میں کسی کی مجال ہے کہ حکومت کی کہی ہوئی بات نہ مانی جائے؟ وہ اِس لئے کہ وہاں کا نظام سخت ہے لیکن سختی کا عمل چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ مغربی معاشروں میں بھی جو قانون ہو اُس پہ عمل ہوتا ہے۔ وہاں قانون کا احترام ہزار سالہ تاریخ اور اس سے بھی پرانے کلچر میں پنہاں ہے۔ جسے ہم مغربی ذہن کہہ سکتے ہیں اُسے ہزار سال لگے بننے میں۔ یورپی تاریخ میں رومن ایمپائر کے خاتمے سے لے کرآج تک ایک تسلسل ہے جس کی وجہ سے جسے ہم مغربی اندازِفکر جانتے ہیں‘ اس کا ارتقا ہوا۔ ہمارا مخمصہ یہ ہے کہ یہاں نہ کمیونسٹ پارٹی ہے نہ مغربی اندازِ فکر‘ لہٰذا چنگیزیت کے تقاضے یہاں کیسے پورے ہوں؟ دورِ حاضر میں مسلمان ممالک میں دو قسم کی سختیاں پیدا ہوئی ہیں، ایک ایرانی انقلاب دوسری طالبان طرز کی حکومت لیکن معاشرے میں انقلاب نہ ایران پیدا کرسکا نہ طالبان۔
ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ سختیاں سطحی قسم کی رہتی ہیں۔ زور معاشرے کے ارتقا پہ نہیں ہوتا بلکہ انسانی کمزوریوں پر۔ یہ نہیں پہننا، فلانے جسم کے حصے کو ڈھانپ کے رکھنا ہے، فلاں ذاتی استعمال کی چیز ممنوع ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے طرزِ فکر کے مبلغین کی باتیں سنی جائیں تو اکثر یوں لگتاہے کہ اِن معاشروں کا سب سے بڑا مسئلہ عورت کا وجود ہے اور آدھی سے ز یادہ چنگیزیت اِن معاشروں کی اِس وجود کے گرد گھومتی ہے۔ اسلامی دنیا کہاں کھڑی ہے، اِس کی پسماندگی کی کیا وجوہات ہیں، لگتا ہے ہمارے مبلغین کو ایسی باتوں سے کچھ زیادہ سروکار نہیں۔ جنہیں ہم انسانی کمزوریاں کہہ سکتے ہیں اُن پہ نظریں لگی رہتی ہیں۔ معاشرے کی کمزوریوں سے صرفِ نظر کیا جاتاہے۔ پاکستان جیسے ملک میں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ نظامِ عدل کی کیا کمزوریاں ہیں، نظامِ تعلیم میں کون سی کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ بازاروں میں لُٹ مچی رہے، ملاوٹ کا راج ہو کسی کو کوئی پروا نہیں۔ دفتروں میں رشوت چل رہی ہو، اقربا پروری ہرطرف روا ہو کوئی بات نہیں۔ بس ظاہری اخلاقیات درست ہونی چاہئیں۔ پردے پہ زور ہوگا، برقعوں کا خیال ہوگا، لیکن معاشرتی ظلم و ناانصافی کے بارے میں ذہن لرزتے ہیں نہ دل دہلتے ہیں۔ اِس مرض کا علاج کیا کیا جائے؟
میرے جیسے خیالات رکھنے والا شخص چاہے گا کہ ٹریفک کا نظام کسی طالبان کے ہاتھ میں ہو۔ جو بھی ٹریفک قوانین ہوں اُن پہ سختی سے عمل کیا جائے‘ لیکن جس قسم کا ہمارا معاشرہ ہے یہاں دھڑکا لگا رہے گا کہ ٹریفک قوانین سے زیادہ محافظانِ قانون کو یہ فکر رہے گی کہ فلاں جوڑا‘ جو گاڑی میں بیٹھا ہے‘ اُن کا آپس میں رشتہ کیا ہے۔ اکیلی عورت گاڑی چلا رہی ہو تو وہ بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جہاں دھیان ہمیں دینا چاہئے وہاں ہم دیتے نہیں اور سطحی باتوں کو ہم نے اپنے سرپہ بٹھایا ہوا ہے۔ مانا کہ بے حیائی نہیں ہونی چاہئے لیکن بے حیائی کی تشریح تو پہلے کوئی خاطر خواہ طریقے سے کرے۔ دولت کا بے پناہ فرق بے حیائی کے زُمرے میں آنا چاہئے۔ ایک طرف بڑے شاپنگ مال ہوں اور دوسری طرف کوئی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں کسی کھانے کی چیز کی تلاش کررہا ہو‘ اصل بے حیائی تو یہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ نہیں کہا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے کوئی خاتون بغیر سر ڈھانپے نہ چلے۔ فرمان یہ تھا کہ دجلہ کے کنارے بھوکا کتا بھی ہو تو روزِ محشر خلیفۂ وقت سے پوچھا جائے گا۔ ہر بڑا شہر ہمارا دو حصوں میں بٹا ہوا ہے، ایک امیروں کیلئے دوسرا نچلے طبقات کیلئے۔ بے حیائی تو یہ ہے۔ لیکن ایسی ناہمواریوں پہ نظر کون رکھے؟
یہاں انگلستان کی جمہوریت نہیں چل سکتی کیونکہ وہاں کی جمہوریت اُن کی تاریخ کی پیداوار ہے۔ ہماری تاریخ اُن جیسی نہیں رہی۔ ہمارا کلچر اور خیالات اور ہیں۔ یہاں جمہوریت چلے بھی تو ایسی ہونی چاہئے جیسے سنگاپور میں جہاں سنگاپور کے عظیم راہنما لی کوان یو نے چلائی ڈنڈے کے ساتھ۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ یہاں چین جیسا نظام ہو لیکن اُس کے لئے ضروری ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ہو۔ وہ ہم کہاں سے لائیں گے؟ رہ گئے طالبان یا ایران کے انقلابی تو اُن کے حوالے سے یہی ڈر رہتا ہے کہ سطحی چیزوں پہ سختی کرتے رہیں گے۔ یہاں کے ڈنڈا برداروں کو دیکھ لیں جن کا دہائیوں سے راج بڑی جامعات پہ رہا ہے۔ ایک سطح سے زیادہ اُن کی سوچ جاتی نہیں۔ لاہور کی بڑی جامعہ میں اب تک یہ سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے کہ کہیں کوئی لڑکا اور لڑکی اکٹھے چائے تو نہیں پی رہے۔ یعنی جو ہمیں چنگیز خان ملے اُن کی حالت یہ ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت رہی تو معاشرے کی اِن روشوں پہ سختی ہوتی رہی۔ سوات میں ملا فضل اللہ ہو یا وزیرستان میں کوئی ٹی ٹی پی کمانڈر، ان کی سوچ ایسے سطحی موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ دوسرا ہمارے پاس کوئی نظام ہے نہیں۔ انگریزی دان آئے جو اب تک حکومت کرتے رہے ہیں، اُنہوں نے اِس ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔ موجودہ وزیراعظم ہیں وہ بھی سطحی قسم کی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ کبھی ریاست مدینہ کی بات کر دیں گے کبھی چین کا حوالہ دے ماریں گے۔ پلاسٹک کے شاپر آپ سے ختم ہوتے نہیں۔ بلدیاتی نظام آپ دے نہیں سکے۔ پنجاب جیسے صوبے کی صوبے داری آپ نے کن ہاتھوں میں دے رکھی ہے؟ چنگیز خان کی تاریخ پڑھی جائے تو نہ صرف وہ خود عظیم فوجی جرنیل تھے بلکہ اُن کے کمانڈر بھی اپنی اپنی جگہ عظیم تھے۔ آپ کے کمانڈر یہ پنجاب والے ہوں تو یہاں کون سے کرشمے آپ نے کردکھانے ہیں۔
حکمرانی میں سختی ہونی چاہئے لیکن معاشرتی برائیوں کے حوالے سے۔ معاشرہ یہاں ٹھیک ہوتا نہیں بس تاریخِ پاکستان ان کوششوں سے بھری پڑی ہے کہ ہم گناہگاروں کو نت نئے طریقوں سے ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار مسلمان بنایا جائے۔ جو حکمران آتا ہے ملکی مسائل سے ٹھیک طرح نبردآزما نہیں ہو پاتا بس ہم غریبوں کی اصلاح کی فکر لگی رہتی ہے۔ انگریزوں نے حکومت کی لیکن صرف زورِ بازو سے نہیں زورِ عقل سے بھی‘ لیکن جو کہتے تھے کر دکھاتے تھے۔ موجودہ پاکستان کے علاقوں میں اُن کی حکمرانی محض 98 سال رہی لیکن اِس عرصے میں اس علاقے کی ہیئت بدل ڈالی۔ پاکستان کو بنے 74 برس ہو چکے ہیں۔ دلوں سے پوچھنا چاہئے ہم نے کتنے نقشے بدلے۔
اپنے مبلغین کو سنیں تو لگتا ہے کہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ہرچھوٹی لغزش پہ دُرے لگتے رہیں۔ ہمارا انقلاب کا معنی بہت ہی محدود ہے۔ ذہنوں کی وسعت یہاں کیسے پیدا ہو گی؟