بھگوال سے جب اسلام آباد کی طرف براستہ موٹروے نکلنا ہوتا ہے تو چکری کے بعد دائیں بائیں پتا چلتا ہے کہ کتنا رقبہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے زیر استعمال آرہا ہے۔اسے آپ ڈیویلپمنٹ کہیں یا تباہی بہت ہی وسیع پیمانے پہ یہ کام ہو رہا ہے ۔ جنگل کے جنگل کٹ چکے ہیں ‘ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کی لیولنگ ہو رہی ہے اور جیسا کہ آگے جا کے ایئرپورٹ کے نزدیک دو بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں چند ہی سالوں میں چکری کے اطراف ایسی ہی سوسائٹیاں بن جائیں گی۔
کون کہتا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہ بنیں گھر تعمیر نہ ہوں؟لیکن ہرکام میں کوئی بیلنس یا میزان ہونا چاہئے ۔ یہاں تو کوئی بیلنس نام کی چیز دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ جو جنگل رہنے چاہئے تھے یا جو زمین زراعت کیلئے استعمال ہوسکتی تھی وہ ان سوسائٹیوں کے زیر استعمال آرہی ہے۔جسے انگریزی میں اربنائزیشن (urbanisation) کہتے ہیں وہ ویسے ہی پاکستان میں بہت ہو رہی ہے‘ لیکن ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی وجہ سے اس پروسیس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔چھوٹے بڑے شہروں میں یہی ہو رہا ہے اور اسلام آباد کے گرد تو تباہی بہت ہی وسیع پیمانے پہ ہوچکی ہے۔ٹیکسلا اور راولپنڈی ویسے ہی آپس میں مل چکے ہیں۔ اسلام آبادبدنما شہر بنتا جا رہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہوگی کہ روات سے لے کر ٹھلیاں انٹرچینج تک شہر کے شہربستے جائیں گے۔کہیں تو یہ کام رکنا چاہئے۔جو شہر ہیں وہ ہم سے ٹھیک طرح رکھے نہیں جا رہے ۔ صفائی نہیں ہوتی‘ اندرونِ شہر جو ڈیویلپمنٹ ہونی چاہئے اُس کا ہمیں کوئی خیال نہیں لیکن ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پہ دھڑا دھڑ نئے شہر آباد ہو رہے ہیں۔
کوئی ایسا شہر نہیں ہے جو اس عمل سے بچا ہو۔ لاہور کا حشر دیکھ لیں‘ کہاں سے کہاں پھیل گیا ہے ۔ اندرونِ لاہور اور مال روڈ کے اردگرد علاقوں کو ڈیویلپ کرنا چاہئے تھا۔ جو درخت یا گرین جگہیں تھیں اُن کو بڑھانا چاہئے تھا۔باغات لگنے چاہئیں تھے۔ قدرتی حسن کا تحفظ کیا جاتا‘ گندگی کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جاتا لیکن جیسا کہ واصف ناگی اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھتے ہیں اور لکھ کر مجھ جیسوں کورلاتے ہیں لاہور کا تاریخی حسن ہمارے ہاتھوں تباہ ہو چکا ہے۔ ملتان کا یہی حشر ہوا ہے ۔ راولپنڈی‘ خاص طور پر اُس کا صدر علاقہ‘کتنا خوبصورت ہوا کرتا تھا۔ہم چھوٹے تھے اور لارنس کالج جاتے ہوئے کچھ دیر صدر میں اِدھر اُدھر گھومتے تو مزہ آ جاتا۔ آج حالت یہ ہے کہ راولپنڈی صدر جانے کا سوچیں تو دل دہل جاتا ہے۔ اس کا وہ حال ہو گیا ہے کہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا۔
چکری سے لے کر اسلام آباد تک کے علاقے کیلئے خاص قانون سازی ہونی چاہئے تھی ۔ اس وسیع علاقے کو درختوں ‘ باغات اور زراعت کیلئے مختص کرنا چاہئے تھا ۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں پہ مکمل پابندی ہوتی۔سیمنٹ اور سریے کو اس علاقے سے دور رکھا جاتا۔ ایٹم بم تو ہم نے بنالیا‘ طرح طرح کے میزائل بھی بنا رہے ہیں‘لیکن دیگر شعبوں میں معلوم نہیں کس بیماری یا وبا کے تحت ہماری سوچ مفقود ہو جاتی ہے۔ہماری قوم صلاحیتوں سے عاری نہیں ۔ بڑی بڑی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں لیکن طرزِ حکمرانی کی وجہ سے یا کوئی اور وجہ ہو‘ لگتا یوں ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں میں ذوق نام کی چیز کوئی نہیں ۔ آپ دیکھ لیں مختلف چوراہوں پہ گھوڑوں یا بیل وغیرہ کے مجسموں کو کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ یہ مجسمے اتنے گھٹیا طرز کے ہوتے ہیں کہ مجسمہ سازوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے۔ لاہور الحمرا کے سامنے چڑیا گھر کے فٹ پاتھ کے اوپرایک مجسمہ علامہ اقبال ‘قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کا بنا ہوا ہے ۔ وہ اس کمزور کوالٹی کا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔اتنا رقبہ اسلام آباد لاہور موٹر وے کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن حکمرانوں کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ صحیح فیصلہ نہ کرسکے اس موٹروے کے دائیں بائیں کون سے درخت لگنے چاہئیں۔ یوکلپٹس جیسے بونگے درخت لگا دیئے گئے ہیں اور اب کونوکارپس (conocarpus) درخت جن کا یہاں کوئی کام نہیں‘ لگائے جا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہرکوئی ٹرخانے پہ لگا ہوا ہے۔ محنت نہ کرنی پڑے‘ بس شارٹ کٹ مار کے کام ہو جائے اور پیسے ہڑپ کرلئے جائیں۔ انگریز باہر سے آئے تھے‘ اُن میں اتنی عقل تھی کہ سڑکوں اور شاہراہوں کے ساتھ اس دھرتی کے درخت لگائے جائیں۔ لاہور مال کا آدھا حسن ہی اس پہ لگے پیپل کے درختوں کی وجہ سے ہے۔ ہم ہوتے تو ہم نے ٹرخانے والا کام کرنا تھا اور پیپل کی جگہ یوکلپٹس کے درخت لگے ہوتے۔
یہ مثالیں اس لئے دیں کہ اندازہ ہو سکے کہ ہمارے ذوق کا معیار کیا ہے۔ اور اگر یہ معیار ہے تو ہم نے دھرتی کے ساتھ وہی کچھ کرنا ہے جو ہم کررہے ہیں۔یہ جوسو سائٹیاں اُبھر رہی ہیں‘وہاں جائیں تو بتایا جائے گاکہ دبئی جیسے شہر بنیں گے ۔ ان افلاطونوں کو کون بتائے کہ دبئی جیسا شہر وہیں جچتا ہے ۔ ہمارے کرنے کے کام اور ہیں ۔ ترقی کی سمجھ یہاں اور قسم کی ہونی چاہئے لیکن بڑے سے بڑے بلڈر سے لیکر چھوٹوں تک ہر ایک کا مقصد یہی لگتا ہے کہ ہر جگہ شیخ زید شاہراہ جو دبئی کی بڑی شاہراہ ہے یہاں بچھ جائے۔
یا تو یہ ہو کہ عوام الناس کیلئے گھر بن رہے ہوں پھر تو ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا کوئی کمزور سا جواز بن جاتا ہے لیکن زیادہ تر یہ امیر طبقات کیلئے ہیں۔جن کے پاس پیسہ ہے اور جنہیں سمجھ نہیں لگتی کہ اپنا پیسہ کہاں انویسٹ کریں‘ان میں فائلیں خریدتے ہیں ‘اس انتظار میں کہ فائلوں کی قیمت بڑھ جائے گی۔یہ کاروبار اتنے وسیع پیمانے پہ ہوچکا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ہمارے سارے کے سارے اوپر کے طبقات اسی ایک پلاٹوں کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔
مزید برآں یہ کہ صرف پرائیویٹ پارٹیاں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے کاروبار میں ملوث نہیں محکمے کے محکمے اس کاروبار میں پڑ چکے ہیں۔ جن کا کام کچھ اور ہے وہ زمین کے کاروبار میں مگن ہیں۔ محکموں کی طرف سے ایسے ایسے اشتہارات لگتے ہیں کہ شرم آجاتی ہے کہ ان محکموں کا کام کیا ہے اور یہ کس کام میں لگے ہوئے ہیں۔کوئی پوچھنے والا‘ کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ جو پوچھ یا روک سکتے ہیں وہ اس کاروبار میں پیش پیش ہیں۔کرہ ٔارض کے کسی اور ملک میں آپ کو یہ صورتحال نظر نہیں آئے گی۔ نیویارک ‘ لندن یا پیرس میں بھی زمین کا کاروبار ہوتا ہے لیکن اس میں محکمے نہیں پڑے ہوتے۔یہ اعزاز فقط ہمارا ہے ۔
لاہور والا پراجیکٹ دیکھ لیں جواس حکومت کے ذہن پہ سوار ہے ۔ شاہدرہ سے لے کر بی آر بی کینال تک ساراعلاقہ زراعت اور باغات کیلئے مختص ہونا چاہئے تھا‘لیکن ترقی کے نام پہ یہاں ایک نیا شہر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پھر دیکھئے جو ہم طبقاتی تفریق کو کیسے ہوا دے رہے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا شہر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے‘ نچلے طبقات کیلئے ایک حصہ اور دوسروں کیلئے شہر کا امیرحصہ۔ خلیج اتنی وسیع ہوچکی ہے کہ شہروں کے مختلف حصوں کا آپس میں ملاپ نہیں رہا۔ اوپر سے ہم اسلام اسلام کرتے تھکتے نہیں۔ اسلام یہاں محض تقریروں اور نعروں کیلئے رہ گیا ہے۔ معاشرے میں دور سے بھی اسلام کا شائبہ ہوتا تو جس قسم کی طبقاتی تقسیم پاکستان میں ہوچکی ہے اس کی کوئی اجازت دیتا؟ لیکن معاشرہ بیچارا کیا کرے‘ طرزِحکمرانی ہی یہاں ایسی بن چکی ہے۔