یوں توبڑے فنکار ادارے اسلام آباد میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن فنکاری میں اپنا لوہا منوانے والا ایک ادارہ فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی ہے۔ سہارا اس ادارے کوقانون اور قوانین کا ہے اور اس کی کارکردگی کا واحد مقصد فیڈرل گورنمنٹ کے افسران خاص طورپہ بڑے افسران کو خوش رکھنا ہے۔ طریقۂ واردات معصومانہ ہے۔ بدنامِ زمانہ قانون 'لینڈ ایکوائزیشن ایکٹ‘ کا سہارا لیتے ہوئے اسلام آباد کے گردونواح کی زمینیں ہتھیالی جاتی ہیں اور پھران کی بندربانٹ سینئر افسران میں نام نہاد بیلٹِنگ کے ذریعے ہوجاتی ہے۔ عرصے سے یہ دھندہ چلا آرہا ہے نہ صرف اسلام آباد میں بلکہ ہرشہر میں جہاں بابوؤں کا راج ہے‘ لیکن چونکہ سرکار کی افسر شاہی طاقتور ہے اور عوام سوچ اور عمل دونوں طرح کی صلاحیت سے محروم ہیں چنانچہ کسی نے اس دھندے کوروکنے کی کوشش نہیں کی ماسوائے اب کے جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ کا ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ ہاؤسنگ اتھارٹی کی طرف سے پلاٹوں کی بندر بانٹ کے خلاف ایک حکم جاری کیا ہے جس کے تحت بڑے افسروں اورخود عدالتی میدان کے بڑے ناموں میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کوروک دیا گیا ہے۔
یوں توہم انگریز کی حکمرانی کے خلاف بہت بولتے ہیں لیکن کئی جگہ ہمارے کرتوت برطانوی سامراج سے آگے جاپہنچتے ہیں۔ انگریزوں نے ہی یہ زمین لینے والا قانون 1894ء میں بنایا تھا۔ شرم کی بات ہے یا حیرانی کی کہ کسی پاکستانی حکومت کوتوفیق نہیں ہوئی کہ اس قانون کوختم کیا جائے۔ اس قانون کا سیکشن 4 کہتا ہے کہ اگر مفادِ عامہ میں ہوتو سرکار پرائیویٹ زمین زبردستی لے سکتی ہے اوراس کے عوض معاوضہ دے سکتی ہے۔ اگر کسی بڑے قومی مفاد کیلئے زمین دی جا رہی ہوتب تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں یہ ہورہا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کیلئے زمین درکارہو تواِس قانون کو حرکت میں لایاجاتا ہے۔ دیہی مالکان سے زمین زبردستی منتقل ہوتی ہے، کچھ اُنہیں پیسے ملتے ہیں، کچھ سوسائٹی یا سیکٹر تیار ہو جائے اُس میں پلاٹ مل جاتا ہے‘ لیکن بیشتر زمین کی سستے داموں بندربانٹ سرکاری افسران اور عہدیداران میں ہو جاتی ہے۔ جن سیکٹروں کے بارے میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سٹے آرڈر دیا ہے وہاں سالوں سے تقریباً تیس ہزار درخواستیں کسی کونے کھدرے میں پڑی ہوئی ہیں لیکن بیلٹِنگ میں تین چارہزار افسران اور عہدیداران میں پلاٹ تقسیم کر دیئے گئے ہیں۔ جو مؤقف جج صاحب نے لیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کارروائی ناانصافی پہ مبنی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ فیڈرل افسرِ شاہی اور دیگر عہدیداران‘ جن میں سے بہتوں کا تعلق عدلیہ سے ہے‘ پر کاری ضرب پڑی ہے لیکن کسی نے چوں تک کی آواز نہیں نکالی۔ آواز تو تب نکلے جب دھندہ صاف ہو اور کسی کے جائز حق پہ ڈاکہ نہ ڈالاگیا ہو لیکن یہاں بات ہی اُلٹی ہے۔ اِس لئے سب چپ ہیںمع متاثرین کے۔ میڈیا پہ بھی حیرانی ہونی چاہئے۔ کوئی تبصرہ یا اداریہ نہیں چھپا۔ کم از کم میری گناہگار آنکھوں کے سامنے سے ایسا کوئی تجزیہ نہیں گزرا۔ دنیا جہاں کے معاملات کی میڈیا میں بات ہو رہی ہوگی لیکن اِتنا بڑا واقعہ، اِتنا تاریخی فیصلہ (اور یہ واقعی تاریخی ہے) اس پہ کوئی بات نہیں۔ اِس پر ہم سبحان اللہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
زمین اور پلاٹوں کے نام پہ کون کون سی فنکاری ہماری مملکت خداداد میں نہیں ہوتی۔ سب سے بڑاکاروبار یہی ہے اوراِس میں سب سے زیادہ ملوث خود سرکار ہے۔ ہر جگہ مذکورہ ہاؤسنگ اتھارٹی جیسی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جن کا واحد کام افسرشاہی کے مفادات کا تحفظ اوراُن کی جیبیں بھرنا ہے‘ اورکوئی پوچھنے والا نہیں۔ شکراِس بات کا کرنا چاہئے کہ کوئی تو پٹیشن لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ گیا اورپھر کمال جسٹس اطہر من اللہ کا ہے کہ انصاف پہ مبنی انہوں نے فیصلہ دے مارا۔ بہرحال سرکارشاہی کی فنکاری ملاحظہ ہو۔ پہلے ترتیب یہ تھی کہ بڑے بابوؤں کو اسلام آباد میں ایک پلاٹ ملتا تھا۔ پھراِن فنکاروں نے کسی وزیراعظم کو قائل کیا، نام میرے ذہن میں نہیں آرہا‘ کہ ایک پلاٹ بڑی زیادتی ہے، فیڈرل سیکرٹریوں کودو دوپلاٹ ملنے چاہئیں۔ حکم جاری ہوگیا اوراب تک ایسا ہی چلا آرہا ہے۔ داد دینی پڑے گی اِن شاہسواروں کو۔ سرکار کیلئے اِس قسم کی ہاؤسنگ سکیمیں آپ کودنیا کے کسی کونے میں نہیں ملیں گی۔ یہ ایجاد ہماری ہی ہے اور دوسرے ممالک ہم سے سیکھ سکتے ہیں۔ امریکی ہوں یاروسی اورچین والے، اِس فیلڈ میں ہم اُن کودرس دے سکتے ہیں۔
البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایسے کام‘ جیساکہ یہ سٹے آرڈر ہوا ہے‘ عدلیہ نے کرنے ہیں تو حکومت نام کی چیز کس کام کی ہے؟ ہمارے کان تھک گئے ہیں یہ سن سن کرکہ وزیراعظم عمران خان بڑے نیک اور پارسا ہیں، دیانت داری کے ریکارڈ اُنہوں نے قائم کئے ہیں، کرپشن اِن کے نزدیک سے نہیں گزری۔ سابق حکمرانوں سے اِس لحاظ سے مختلف ہیں۔ مان لیا یہ سب کچھ درست ہوگا لیکن اسلام آباد میں زمین اورپلاٹوں کے نام پہ فنکاری اُنہیں نظرنہیں آتی؟ اُنہوں نے کبھی مذکورہ ہاؤسنگ اتھارٹی کا نام نہیں سنا؟ اُنہیں نہیں معلوم کہ فیڈرل سیکرٹریوں کو دو دو پلاٹ ملتے ہیں؟ لینڈ ایکوائزیشن ایکٹ کا ذکراُن کے کانوں میں کبھی نہیں پڑا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکومت کے کام ہونے چاہئیں۔ قانون کے سہارے فنکاری ہورہی ہو تو وزیراعظم اور حکومت کو ایکشن میں آنا چاہئے‘ لیکن یہاں سب نے آنکھوں پہ پٹیاں باندھی ہوئی ہیں اور جہاں تک دماغوں کا تعلق ہے اُن پہ تو باقاعدہ تالے لگے ہوئے ہیں۔ اتھارٹی آپ کے پاس ہے، حکم آپ دے سکتے ہیں، سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے لیکن آپ ہیں کہ عقلیں بھی بند اور ہاتھ پاؤں بھی بندھے ہوئے۔ بس تقریریں کرنا ہے اور وہ بھی روزمرہ کی بنیاد پہ۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ افلاطون بننے کی کوشش نہ ہو رہی ہو۔ بولنا اور فیتے کاٹنا۔ یہی کام رہ گیا ہے۔
خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک نئے دارالحکومت کی جھک مارنی ہی تھی تو ایک مثالی شہر بنتا اور اِس شہر کی ترقی کے حوالے سے ایسے قوانین بنتے کہ اُنہیں کوئی توڑ یا مروڑ نہ سکتا‘ لیکن اب جاکے اسلام آباد کی حالت دیکھ لیں، پھیلتا جا رہا ہے، آبادی حد سے گزر چکی ہے، ٹریفک کا رش ایسا ہے کہ اسلام آباد داخل ہوتے ہی ٹرانسپورٹ کی بھیڑ میں انسان پھنس جاتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ جسے ہم سالڈ ویسٹ یعنی پکا فضلہ کہتے ہیں اِسے تلف کرنے کا کوئی نظام اِس دارالحکومت میں نہیں ہے۔ گندگی اکٹھی کی جاتی ہے اور کسی کونے میں پھینک دی جاتی ہے۔ وہ جگہ بھر جائے تو کوئی دوسری جگہ گندگی کے ڈھیر اکٹھے کرلئے جاتے ہیں۔ میونسپل بس سروس اِس دارالحکومت میں کوئی نہیں۔ شریفوں نے بے بہا دولت لٹا کے ایک میٹروبس سروس بنائی ضرور لیکن شہر کے ایک حصے کو وہ کور کرتی ہے۔ شریفوں کو بس نمائش سے سروکارتھا، دولت کتنی برباد ہو رہی ہے اِن کی پسندیدہ نمائشوں کیلئے اُس کی اِنہیں کوئی پروا نہ تھی۔ لاہور میں بھی انہوں نے یہی کچھ کیا۔ اِن سے کوئی پوچھے کہ لاہور کی کوئی اور ضرورت نہیں تھی کہ آپ نے سب کچھ ایک اورنج لائن ٹرین پہ برباد کر دیا؟
بس ایسی ہی ہماری قومی کہانی ہے، ایک سے ایک نہلا آتا ہے اور اپنی بربادی اور بیوقوفی کا حصہ کرکے چلا جاتا ہے۔ بس شکر اِسی بات کا کرنا چاہئے کہ کبھی کبھی اندھیرے میں کچھ روشنی کی کرن بھی نظر آجاتی ہے۔ مذکورہ فیصلے کو روشنی کی کرن ہی سمجھنا چاہئے۔ اِسے دیکھتے ہوئے خدا اوروںکی بھی ہمت بڑھائے کہ لینڈ مافیا کو اِس ملک میں کچھ تو لگام لگے۔