الیکشن کمیشن اور حکومت کے تقرر کو ہم نے چاٹنا ہے ؟ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہوں یا کوئی اور ذریعہ انتخاب اُس سے چولہے جلنے ہیں یا گاڑیوں میں پٹرول بھر جانا ہے ؟یہ فضول کی باتیں ہیں۔اصل مسائل اور ہیں اور سیاسی میدان میں جو آوازیں اٹھتی ہیں اُن کو سن کے جی چاہتا ہے کہ تمام کرداروں کو کھڑا کرکے اُن سے وہ پوچھ گچھ کی جائے جو ہمارے تھانوں میں ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ مہنگائی اور روپے کی بے توقیری ہے۔ تمام شواہد بتا رہے ہیں کہ اس صورتحال پہ حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔
عوام کی تکالیف کو چھوڑیں۔ کوئی مسیحا ہی آئے جو عوام کی بات کرے۔ روپے کی بے توقیری سے بڑا کوئی ثبوت نہیں یہ بتانے کیلئے کہ معاشی صورتحال کہاں پہنچ چکی ہے۔ حکومت یہ چورن بیچ رہی تھی کہ معاشی ترقی کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے برآمدات بڑھیں گی‘ نوکریاں پیدا ہوں گی۔اس سوچ کے تحت کنسٹرکشن سیکٹر اور انڈسٹری کے سیٹھوں کو مراعات دی گئیں۔اس حکمت عملی کے تحت درآمدات توبڑھ گئیں برآمدات نہ بڑھیں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں چلاگیا۔اب حالت یہ ہے کہ الفاظ کا منجن بیچنے والے وزیر خزانہ شوکت ترین کے پاس بھی کہنے کوکچھ زیادہ نہیں رہا۔حالات بہتر کیا ہونے تھے عوام کے سروں پر پٹرول کا بم گرادیا گیا ہے اور جیسا کہ شروع میں عرض کیا ہر روز ڈالر اوپر چڑھتا ہے اور روپیہ اپنی بے توقیری چھپاتا پھرتا ہے۔
کنسٹرکشن سیکٹر کو اتنی مراعات اور چھوٹ دی گئی ہیں کہ وہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ ملک میں لگتا ہے اور کوئی شعبہ رہ نہیں گیا سوائے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے۔ اس موضوع پہ کچھ مزید نہیں کہنا چاہتا کیونکہ ایک دو کالم لکھ چکا ہوں اور قارئین کو مزید بور نہیں کرنا چاہتا۔ کنسٹرکشن سیٹھ جہاں پھولے نہیں سما رہے ملک کی یہ حالت ہے کہ گندم درآمد کی جا رہی ہے اور وہ بھی ایک گندم کی بڑی فصل کے بعد۔ اس سال گندم کا بمپر کراپ ہوئی تھی‘ تقریباً ستائیس ملین ٹن۔لیکن یہ افلاطون ہیں کہ ان سے حالات سنبھلتے نہیں جس کے نتیجے میں گندم باہر سے خریدی جا رہی ہے۔ چینی کی قیمت بھی پتا نہیں کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ حالیہ پریس کانفرنس میں عزت مآب وزیرخزانہ فرما رہے تھے کہ عالمی منڈیوں میں گندم اور چینی کی قیمتیں پاکستان سے زیادہ ہیں۔ان سے کوئی پوچھے کہ پاکستان جیسے نام نہاد زرعی ملک کو کیا ان دو اشیا کیلئے باہر کی دنیا پہ انحصار کرنا چاہئے؟ ہمارے پاس گندم‘ چینی اور دیگر کھانے پینے کی اشیا وافر مقدار میں ہونی چاہئیں‘ اتنی وافر مقدار میں کہ ہم اپنی عوام کو سستے داموں یہ چیزیں مہیا کرسکیں۔
کمیونسٹ روس میں‘ عالمی منڈیوں میں جو بھی قیمتیں ہوتی تھیں‘روس میں ڈبل روٹی کا ایک لوف تیرہ پیسے پر میسر ہوتا۔ دودھ اور مکھن کی قیمتیں کبھی نہ بڑھتیں۔ عالمی منڈیوں کا ریٹ بھاڑ میں جائے‘ ہمیں کھانے پینے کی اشیا میں خودکفیل ہونا چاہئے۔اور اگر نہیں خودکفیل تو سمجھئے کہ یہاں کی حکمرانی فیل ہو گئی ہے۔پٹرول اور اُس کی مصنوعات بھلے مہنگی ہوں‘ وہ ہم باہر سے خریدتے ہیں۔ ان کی قیمتوں کو عوام تک پہنچانے کیلئے دیگر اقدامات کرنے چاہئیں۔لیکن کھانے پینے کی اشیا ؟اگر یہ مہنگی ہوں تو ہم ووٹ کو عزت دو کا کیا کریں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو کس تالاب میں پھینکیں؟ پی ٹی آئی کی ناکامی تو ہے ہی۔ ان کے ہاں تو نہلوں کا ریوڑ سجا ہوا ہے۔ سوائے فضول باتوں پہ مشتمل پریس کانفرنسوں کے‘ ان کے وزرا کا اور کوئی کام نہیں۔ وزیراعظم تو مکمل خدا کا تحفہ ہیں‘ روزانہ کی بنیاد پہ بولتے ہیں۔ سی این این کو اُنہوں نے بڑا عمدہ انٹرویو دیا۔ اُس انٹرویو کو ہم کیا کریں ؟کیا روپے کے ہچکولے اِس انٹرویو سے سنبھل جائیں گے؟کیا قوم نے باتوں پرہی گزارہ کرنا ہے؟
اِس ساری صورتحال سے ایک بڑا سوال ابھرتا ہے۔ ہم کتنی حکومتیں آزما چکے ہیں؟ دو بڑی پارٹیاں اُن کے کارنامے بھرپور انداز سے بھگت چکے ہیں۔وسیع طبقات عمران خان اور ان کی جماعت کو مسیحا کا درجہ دے بیٹھے تھے۔ قوم کے بیوقوفوں کی ایک خاطر خواہ تعداد نے سمجھ رکھا تھا کہ عمران خان آئیں گے اور پاکستان کی مریخ کی طرف اُڑان شروع ہو جائے گی۔ہم نے مسیحائوں کا حال بھی دیکھ لیا ہے‘ ان کے کارنامے بھی ہمارے سامنے ہیں۔ مان لیا کہ شریفوں اور زرداریوں نے لوٹ مار کی الف لیلوی داستانیں رقم کی تھیں‘ لیکن ان مسیحائوں سے کیا ہواہے؟یہ کہاں کھڑے ہیں؟ تو پھر سوال بنتا ہے کہ اصل مرض کیا ہے؟ پاکستان کے وجود کو کون سی بیماری لاحق ہے کہ جو آتا ہے یا چور نکلتا ہے یا پرلے درجے کا نہلہ۔افغانستان میں تو ہم نے ایک اشرف غنی کو دیکھا۔ طالبان کا ڈر نہ ہوتا تو کبھی نہ بھاگتا‘ اقتدار سے چمٹا رہتا۔ لیکن ہم اپنے قومی منظر پہ نظر دوڑائیں تو سبحان اللہ ہر طرف اشرف غنی ہی نظر آتے ہیں۔ کوئی تو اس ملک کو سنبھالادے۔ کوئی تو مرض کی تشخیص کر سکے۔ اپنے اپنے مفاد کے تحفظ میں ہم سب کتنے تیز ہیں۔ لیکن جسے قومی مفاد کہا جاتا ہے‘ صحیح معنوں میں اُس کا محافظ کہاں سے ڈھونڈ کے لایا جا ئے؟
مانا کہ گزرے حکمرانوں کی بڑی وارداتیں تھیں لیکن تین سالہ تجربہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ جو اب کرسیٔ ٔاقتدار پر براجمان ہیں‘ بڑے ہی پیدل ہیں۔پہلے بتاتے رہے کہ کمریں کسنی ہیں۔ روپے کی قدر میں اتنی کمی لے آئے کہ کیا اشیائے ضروریہ اور کیا اشیائے خاص‘ سب کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہو گئیں۔ دو تین وزرائے خزانہ بدلنے کے بعد قوم کو نوید سنائی گئی کہ راحت کا راستہ معاشی ترقی یا گروتھ میں ہے۔ زرعی ملک ہے تو زراعت پر توجہ دینی چاہئے لیکن یہاں جو بھی آتا ہے نونیا ہو پپلیا یا انصافیا‘ سب کے سب بڑے سیٹھوں کو وٹامن کے ٹیکے لگانے میں لگ جاتے ہیں۔ زراعت کیلئے تسلیاں رہ جاتی ہیں اور پھر گندم‘ چینی‘ دالیں‘ پام آئل جیسی اشیائے خوردنی باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ہر حکومت کے کانوں میں بڑے سرمایہ کاروں کے نمائندے نصیحتیں پھونک رہے ہوتے ہیں۔ ایسی ترکیبات سے اگر پاکستان نے جنوبی کوریابنناتھا تو پھر تو کوئی بات تھی۔ لیکن ملک بیچارہ وہی غربت اور افلاس کا مارا‘ عوام وہی جو وعدوں پہ جینے کی مشقیں کرتے کرتے زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ کیا حکمران پائے ہیں‘ کیا دانشور اور کیا سیاسی زعما۔ تختۂ مشق ملک کو بنایا ہوا ہے۔ اب تو اس حکومت کے پاس کسی نئے تجربے کا وقت نہیں رہا۔ موجودہ سال اپنے اختتام کی طرف تیزی سے جا رہاہے۔ نیا سال چڑھے گا تو الیکشن کا بھو ت سیاسی اُفق پہ نمودار ہونے لگے گا۔ مقدر جس کا بھی چمکے عوام کی حالت کیا بہتر ہوگی ؟
مسئلہ یہاں حکمرانی کا ہے۔ ڈھنگ سے ہم سے یہ فریضہ پورا نہیں ہورہا۔ بہت سی چیزوں کی سمجھ وزیراعظم کو ہوگی لیکن یہ بھی عیاں ہے کہ بہت سی چیزوں کی سمجھ اُنہیں بالکل نہیں۔ ناسمجھی کی لسٹ میں معیشت سرفہرست ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سربراہانِ مملکت معاشی ایکسپرٹ ہوں۔ بڑے بڑے حکمرانوں کو معاشی مسائل کی سمجھ نہیں ہوتی لیکن اُن کے اردگرد لوگ ہوتے ہیں جو اپنے شعبوں میں استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ حکمرانوں کی نالائقیاں تو اپنی جگہ لیکن جو معاشی لوگ ہمیں ملے ہیں وہ بھی اپنے طور پہ کسی نمونے سے کم نہیں۔لہٰذا سوال ہے ہمارا بنے گا کیا؟