باتیں ہمارے ملک میں بہت ہوتی ہیں۔ عام آدمی کو تو چھوڑئیے حکومتیں بھی باتیں ہی کرتی رہتی ہیں۔ یہ کرنا چاہئے، یہ کرنا ہوگا، فلاں چیز کی ضرورت ہے... اِس قسم کی گفتگو تسلسل سے جاری رہتی ہے۔ باتیں کرنا تو عام آدمی کا کام ہے، حکومتوں کا کام ہے کچھ کرنا۔ نصیحت کیلئے ہم خود ہی کافی ہیں۔ حکومتیں کچھ کرنے سے قاصر ہیں تو کم از کم نصیحت اور بے تکی باتوں سے تو پرہیز کریں۔
وزیراعظم نے کیا کمال کی بات کی ہے کہ آبادی یونہی بڑھتی رہی اور کھانے پینے کی چیزوں کی فصلوں میں اضافہ نہ ہوا تو بھوک ہمارا مقدر ہوگی۔ جناب والا، جو فرما گیا یہ تو سب کو پتا ہے۔ ایسی باتیں دہرانے کی ضرورت کیا ہے؟ آپ تو وہاں بیٹھے ہیں جہاں کچھ کرنا چاہئے۔ زراعت کی تباہی کا عمل جو ملک میں جاری ہے اس میں حکومت برابر کے شریک ہے کیونکہ ایک اقدام بھی نہیں کیا گیا ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بڑھوتری کو روکنے کیلئے۔ شہر کے شہر پھیلتے جا رہے ہیں، زرعی زمین رہائشی منصوبو ں کی نذر ہو رہی ہے اور ہمیں زراعتی پروڈکشن بڑھانے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ کچھ تو کہنے اور کرنے کے تضاد میں کمی آنی چاہئے۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ کہیں نہ کہیں تقریر نہ فرما رہے ہوں۔ تقریروں سے ملک بنتے تو ہم باقی دنیا سے آگے ہوتے۔ پلے کوئی چیز ہے تو کچھ کیجیے ورنہ بے مقصد بیانات کا فائدہ نہ آپ کو نہ ہمیں۔
ایک اور خبر کی طرف توجہ ہو۔ سٹیٹ بینک نے فیصلہ کیا ہے کہ درآمدی گاڑیوں کیلئے بینکوں کو پیسہ مہیا نہیں کرنا چاہئے۔ بیس سال سے یہ عمل جاری ہے کہ بینک موٹر گاڑیوں کی فنانسنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ پیسہ تو برباد ہو ہی رہا ہے، سڑکوں اور شاہراہوں پر جو ہم موٹر کاروں کی بھیڑ دیکھتے ہیں وہ اِس آسان فنانسنگ کا نتیجہ ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں امداد کے نام پہ امریکہ سے پیسے آنے لگے تو یہ عمل شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ اب خدا خدا کرکے سٹیٹ بینک کو مکمل ہوش تو نہیں آیا لیکن کچھ ہوش ضرور آیا ہے کہ اِس آسان پیسے پہ کنٹرول کرنا چاہئے۔
یہ بھی اِس لئے کہ ملکی حساب یا جسے آپ کرنٹ اکاؤنٹ کہتے ہیں خطرے کی حدوں تک پہنچ رہا ہے یعنی پانی سروں تک نہ پہنچے تو ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں آتا۔ دھیان دینا چاہئے تھا تو پبلک ٹرانسپورٹ پر‘ بسوں کیلئے شرائط آسان ہوتیں اور موٹر کاروں کیلئے مشکل۔ لیکن بیس سالوں سے نجی کاروں کی سیل کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ نتیجہ اِس پالیسی کا وہ ہے جو ہم شہروں اور شاہراہوں پر دیکھ سکتے ہیں۔ ٹریفک کسی کے قابو میں نہیں رہی۔ جہاں تک آٹو انڈسٹری کا تعلق ہے، یہ لوگ کم تر معیار کی گاڑیاں پاکستان میں بنا رہے ہیں یا یوں کہئے اَسیمبل کررہے ہیں اور خوب پیسے کما رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی ناقص حالت کی وجہ سے جو کوئی موٹر کار پر چڑھ سکتا ہے وہ ایسا کرتا ہے۔ باقی عوام موٹر سائیکلوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ تھوڑی بہتر ہوتی تو اُس میں سب کا بھلا تھا۔
میں سوویت یونین یا ماسکو کا بار بار حوالہ کیا دوں لیکن اچھے وقتوں میں جب وہاں سفارت خانے میں تعینات تھا تو ماسکو کے پبلک ٹرانسپورٹ نظام کو حیرانی سے دیکھتا۔ ڈیزل پر چلنے والی بسیں الگ، بجلی سے چلنے والی بسیں اُن کے ساتھ ساتھ۔ اندرون شہر سفر چھوٹا ہو یا طویل ڈیزل بسوں کا کرایہ پانچ پیسے تھا اور بجلی والی بسوں کا چار پیسے۔ ماسکو کی زیر زمین ریل سروس دنیا کی بہترین سروس تھی۔ اُس کا کرایہ پانچ پیسے تھا۔ اگلے سٹیشن پر اتریں یا آخری سٹیشن پہ‘ وہی پانچ پیسے۔ سڑکوں پر موٹر کاریں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ پورے ماسکو میں پٹرول پمپ چار پانچ سے زیادہ نہ تھے۔ یہ بات میں پھر دُہرا رہا ہوں، سوویت یونین کے دارالحکومت میں اُن وقتوں میں پٹرول پمپ چار پانچ ہی تھے۔ ہمارے جیسے ملک میں نظام ہو تو ایسا ہو۔ یہ موٹرکاروں اور شاپنگ مالوں والا نظام مغربی ممالک میں جچتا ہے۔ ہمارا ترقی کا ماڈل کچھ اور ہونا چاہئے تھا‘ لیکن ہمارے خیالات و تصورات بھی وہ ہیں جو ہمیں مغرب کے ترقی یافتہ ممالک دیتے ہیں۔ اُن کا ہر سبق بغیر سوچے سمجھے ہم اپنا لیتے ہیں۔ اپنی سوچ کوئی ہے نہیں۔
جہاں تک بڑھتی ہوئی آبادی کا تعلق ہے‘ یہ ہمارے ایٹم بم سے زیادہ مہلک بم ہم نے اپنے لیے تیار کرلیا ہے۔ کہاں سے کہاں آبادی پہنچ چکی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ ہماری جوانی کا زمانہ تھا۔ تب پاکستان کی آبادی دس کروڑ تھی‘ آج تیس بتیس سال کے عرصے میں بیس بائیس کروڑ ہوچکی ہے‘ یعنی مجھ جیسے لوگوں کی زندگیوں میں ہماری آبادی ہماری گناہگار آنکھوں کے سامنے ڈبل سے زیادہ ہوچکی ہے اور کسی کو کوئی پروا نہیں۔ بچے پیدا ہو رہے ہیں، شہر کے شہر نئے آباد ہو رہے ہیں، پانی کے ذخائر گرتے جا رہے ہیں، زراعتی زمینیں تباہ ہو رہی ہیں اور ہم اپنے آپ کو ایک اسلامی ملک کہتے ہیں۔ کیا مسلم ملک کا یہ مطلب ہے کہ ہر قسم کی سوچ سے قوم فارغ ہو جائے؟ کوئی ترتیب نہیں، قومی زندگی میں نظم و نسق نام کی چیز رہ نہیں گئی اور مستقبل کا تو کوئی خیال ہی نہیں۔ بس باتیں ہیں اور اِنہی باتوں پہ گزارہ کرنا ہے۔
ایسے میں ہم جیسے لوگ اِن روزمرہ کی تقرریوں پر کیا کان دھریں۔ جو کسی ایک زندگی میں ہوائی باتوں کا کوٹہ ہوتا ہے وہ ہم پُر کرچکے ہیں‘ یعنی باتوں کا کوٹہ ہمارا پورا ہوچکا ہے۔ اِسی لئے بار بار یہی آرزو دل میں اٹھتی ہے کہ فضول کی باتیں بھاڑ میں جائیں۔ ہماری فکر کی دنیا محدود ہوچکی ہے۔ زندگی پرسکون کیسے رہے، ٹینشن کے موضوعات سے ہم کیسے دور رہیں، اور شامیں کس اسلوب سے گزریں، اب ہماری فکر یہاں تک محدود ہے۔ ہاں، یہ خیال افضل ترین رہتا ہے کہ صحت ٹھیک ہو۔ دو وقت کی روٹی ٹھیک سے کھا سکیں اوررات کو نیند ٹھیک سے آئے۔ اب ہماری عمر ستر سے اوپر ہے۔ اِس عمر میں یہ دو چیزیں پوری ہو جائیں تو انسان خوش بخت اور خوش نصیب ہے۔ یہ بھی کہتا چلوں کہ فکر ہمیں زیادہ اِس جہاں کی ہے کیونکہ اِسی میں رہ رہے ہیں۔ آگے جو ہونا ہے یا نہیں ہونا وہ خدا کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم اُس کا کیا جانیں۔ تمام رازِ زندگی سائنس کی دسترس میں نہیں آئے۔ قدرت کی بہت ساری چیزیں یا جسے انگریزی میں phenomena کہتے ہیں سائنس اُنہیں سمجھنے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اِسی لئے سیاروں کی طرف اُڑانیں ہوتی ہیں، مریخ جیسے مقام سے مٹی لانے کی جستجو ہوتی ہے‘ لیکن بہت ساری چیزوں کو نہ سمجھتے ہوئے بھی انسان نے کیا کیا کمال کی تخلیقات کی ہیں۔ جو موسیقی خدا کے چنے ہوئے بندوں نے ترتیب دی ہے وہ کسی کرشمے سے کم نہیں۔ عظیم موسیقی کو آپ سنیں تو ذہن کسی اور کائنات میں چلا جاتا ہے۔ بڑے بڑے گویّے سُر لگائیں تو خدا یاد آتا ہے۔ مصوری کے شاہکار دیکھیں تو انسان اش اش کر اٹھتا ہے۔
المیہ البتہ انسانی تاریخ کا یہ ہے کہ انسانی تخلیقات کے ان عظیم نمونوں کے ہوتے ہوئے بنی نوع انسان ایسی سرگرمیوں میں مبتلا ہے کہ یہ کرہ ارض‘ جو خدا کی دین ہے‘ تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ موسم کی تبدیلیاں ہمارے سامنے ہیں۔ دریاؤں اور سمندروں کی تباہی جو انسان کررہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف انسان کے عظیم کارنامے اور دوسری طرف یہ تباہی کا سامان، یہ ہمارا المیہ ہے‘ اور اِس المیے کا مشاہدہ ہم نہ صرف اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں بلکہ ہمارے وجود محسوس بھی کررہے ہیں۔
اِس لئے جو کوئی کچھ کر سکتا ہے کرے، باتیں بنانا تو آسان ہے۔