جنرل ضیا الحق کی نصیحت آموز باتیں سن سن کر ہمارے کان پک گئے تھے۔جس راہ پہ وہ چلے تھے اُس کیلئے وہ کافی تھے حتیٰ کہ کسی آنے والے کیلئے اُنہوں نے وعظ و نصیحت کے میدا ن میں کچھ چھوڑا نہیں تھا۔اِس لئے حیرانی ہوتی ہے جب ایک اور سربراہ حکومت ضیا الحق بننے کی کوشش کرتے ہیں۔اب یہ بات تقریباً طے ہے کہ عمران خان سے ملک نہیں چل رہا۔بطورِ وزیراعظم اُن کی کمزوریوں کی فہرست اچھائیوں کی فہرست سے کہیں زیادہ ہے۔دھیان اُنہیں کہیں دینا چاہئے تو اپنی کمزور کارکردگی پہ لیکن دیکھ ہم کیا رہے ہیں کہ واعظ و نصیحت میں وہ جنرل ضیا الحق سے بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔
کوئی روز نہیں گزرتا کہ وہ کہیں تقریر نہ جھاڑ رہے ہوں۔جب کوئی سربراہِ حکومت اتنے تقریری مقابلوں میں پڑا رہے تو اُس نے خاک کچھ اور کرنا ہے۔وزیراعظم یا انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں یا تقریر فرما رہے ہوتے ہیں۔ملک صحیح طرح چل نہیں رہا لیکن اُنہیں نہ صرف پاکستان بلکہ اقوام ِ عالم کی اخلاقیات کے بارے میں فکر لاحق ہے۔کبھی اسلام فوبیا پہ بات کررہے ہوں گے ، کبھی ریاستِ مدینہ کا ذکر چھیڑ دیں گے کبھی سیرت کی باتیں کرنے لگیں گے۔اب ربیع الاول کا مہینہ آیا نہیں کہ ایک اتھارٹی قائم کردی گئی ہے۔تفصیل میں جانے سے قاصر ہوں کیونکہ ہم نازک مزاج لوگ ہیں اور بات بات پہ اعتراض اُٹھاتے ہیں۔اُنہیں کون بتائے کہ اگر اس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں تو وہ وعظ و نصیحت ہے۔اُس میں ہم خودکفیل سے بھی کہیں آگے ہیں۔قوم کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ عقل ، دانش اور عمل کی ہے۔باتوں کی ضرورت نہیں اور جو چورن وزیراعظم روزانہ کی بنیاد پہ بیچنے میں لگے ہوئے ہیں وہ باتوں کا ہے۔
جنرل ضیا الحق نے اس قوم کو خوب بیوقوف بنایا اور بیوقوف بنانے میں اُنہوں نے اسلام کا نام جس طریقے سے استعمال کیا وہ ہم جانتے ہیں۔لیکن اتنا کہنا پڑے گا کہ لاکھ کمزوریوں کے باوجود حکمرانی کے گُر وہ جانتے تھے۔اُن کی ترجیحات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن حکومت کرنے کا سلیقہ وہ جانتے تھے۔وعظ و نصیحت تو اُنہوں نے چونے کے طور پہ استعمال کیا۔آمر تھے اور ڈنڈے سے حکومت چلائی لیکن آنکھوں میں دُھول ڈالنے کیلئے اسلام کا نام استعمال کرتے تھے اور بڑی خوبصورتی سے کرتے تھے۔اُن کی اسلامائزیشن کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ وہ قومی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔مسلمان تو ہم پہلے بھی تھے لیکن مذہبی اصطلاحیں اور مذہبی رسومات جس طرح سے روزمرہ زندگی میں سما گئیں وہ جنرل ضیاالحق کی اسلامائزیشن پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔مثالیں کیا دوں،ان کا تذکرہ اتنا آسان نہیں کیونکہ جیسے اوپر عرض کیا کہ ہم بات بات پہ بپھر جاتے ہیں۔ہمارے جیسے معاشرے میں مذہب کے نام پہ کوئی اقدام اٹھایا جائے تو پھراُس کا واپس ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایک مثال میں دینا چاہوں گا ، ہماری جوانی کے زمانے میں ہم ضرورت پڑنے پہ خدا حافظ کہا کرتے تھے۔ آج کل کے نوجوانوں کو دیکھ لیں، اللہ حافظ کی اصطلاح عام ہو چکی ہے۔ یہ اس لئے کہ جنرل صاحب کے دور میں یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ خدا فارسی لفظ ہے اور اللہ حافظ بہتر اصطلاح ہے۔
ایک بات کرنے کی اگر مجھے اجازت ہو، ہمیں یہ تو پتا ہے کہ منٹوپارک لاہور میں مسلم لیگ کے مارچ 1940ء میں تاریخی جلسے کی صدارت کس نے کی۔ظاہر ہے صدارت قائداعظم نے کی تھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ قراردادِ پاکستان پیش کس نے کی۔ وہ بنگال کے مایہ ناز لیڈر اے کے فضل الحق تھے۔کون کون اکابرین شامل تھے وہ بھی ہمیں معلوم ہے۔لیکن آ ج تک یہ کہیں نہیں پڑھا کہ اُس جلسے میں تلاوت کس نے کی۔ یہ خیال ویسے ہی ذہن میں آیا۔
بہرحال بات جنرل ضیاالحق کی ہو رہی تھی۔یہ عرض کیا تھا کہ اپنی تمام تر فنکاری کے ساتھ ساتھ وہ کم از کم حکمرانی جانتے تھے۔یہ جو صاحب اب نازل ہوئے ہیں ان کی حکمرانی کے حوالے سے کارکردگی واجبی سے زیادہ نہیں لیکن خطرہ یہ ہے کہ وعظ و نصیحت میں یہ کہیں جنرل مرحوم سے آگے نہ نکل جائیں۔یہ میںا حتیاط استعمال کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق سے آگے نکل چکے ہیں۔جنرل صاحب الفاظ کا استعمال ناپ تول سے کرتے تھے، تقریر بھی موقع مناسبت سے ہوتی تھی۔ یہ جو مبلغ ِاعظم قوم کے نصیب میں اب آئے ہیں یہ روزانہ کی بنیاد پہ وعظ ونصیحت کے جوہر دکھا رہے ہیں۔لیکن اگر سمجھ رہے ہیں کہ ان کی تبلیغ کا ذرا برابر اثر بھی ستائی ہوئی عوام پہ ہو رہا ہے تو یہ اُن کی بھول ہے۔عوام کے دکھ درد اور ہیں۔ چیخ و پکار ہے تو مہنگائی کے حوالے سے ہے۔معاشی ماہرین جو بھی کہیں کہ عالمی منڈیوں میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو اس کا لامحالہ اثر ہم پہ ہونا ہے۔ ایسی باتوں سے کسی کا کیا مداوہ ہونا ہے؟ لیکن موجودہ صاحب ہیں کہ بولے ہی جاتے ہیں۔شام کو خبریں دیکھئے یا صبح اخبار پڑھئے‘ کوئی دن نہیں جاتا جب یہ کچھ فرما نہ رہے ہوں۔اور زیادہ تر تبلیغ ہی کررہے ہوتے ہیں۔
قوم کیا چاہتی ہے؟ کہ اُس کی حالت بدلے۔ حکمران ہیں کہ اور تو اُن سے کچھ ہوتا نہیں ہمارے اخلاقیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ سب سے بڑی بے حیائی تو امیروں کا تکبر اور لاچاروں کی لاچاری ہے۔یہ اونچ نیچ کا فرق حکمرانوں کو نظر نہیں آتا۔خدارا چونکئے نہیں، دلیل کے طور پہ کہہ رہا ہوں کہ آج کل ایک خاص محلول کی بوتل اٹھارہ ہزار روپے میں مل رہی ہے اور ایسی نجی تقاریب ہوتی ہیں کہ اس نرخ پہ خریدے ہوئے سامان کی بھرمار ہوتی ہے۔ ذہن میں رہے کہ خاندان کے خاند ان ہیں جو اٹھارہ ہزار سے کم پہ مہینے میں گزارہ کرتے ہیں۔پاکستان کے آج کے معاشرے میں جس خاندان کی ماہانہ اٹھارہ ہزار آمدن ہو وہ بھی ایک لحاظ سے خوش قسمت ہے کیونکہ عوام کی ایک پوری کھیپ ہے جس کی دسترس سے اِتنی آمدن بھی باہر ہے۔ریاست مدینہ کا پرچار کرنے والے لاؤڈ سپیکروں کو اِس قسم کی حقیقتیں نظر نہیں آتیں؟لیکن قوم کی اخلاقیات درست کرنے کی تڑپ اُنہیں ستائے رکھتی ہے۔
جنابِ والا! وعظ و نصیحت کرنے والوں کی یہاں کوئی کمی نہیں۔ مسجدیں ہر کونے میں قائم ہیں اور باقاعدہ حضرات ہیں جنہوں نے منبر ومحراب کے فرائض اٹھا رکھے ہیں۔ آپ اگر اس مسند پہ ووٹوں یا کسی اور حرکت کی بدولت براجمان ہیں تو آپ کے فرائض کچھ اور بنتے ہیں۔ آپ کو حکومت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اُسے نبھائیے۔ تبلیغ کیلئے باقی لوگ بہت ہیں۔ آپ نے یہ در دِ سر اپنے ذمہ کیوں لیا ہوا ہے؟ اپنا کام نبھایا نہ جا رہا ہو لیکن ہمیں نصیحت کرتے رہنا، یہ تو زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہے۔ قوم کے گناہ بہت ہوں گے لیکن آ پ کے ہاتھوں اس سزا کی شاید وہ مستحق نہ ہو۔