ہلڑ کہاں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے یہ مت پوچھئے کیونکہ ہم دیکھ تو سب کچھ رہے ہیں لیکن زیادہ کہہ نہیں سکتے البتہ ہلڑ کی خبروں پر پابندی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ کمزوریِ ارادہ کی وجہ سے حالات وہاں پہنچ چکے ہیں کہ کچھ کہنے کو جی بھی نہیں کرتا۔ ایک تو حالات دوسرا وزراء کے تبصرے۔ حکومتی عہدیدار کم لگتے ہیں اور کسی سٹیج ڈرامے کے کامیڈین زیادہ۔ ایک وزیر کچھ کہتا ہے دوسرا کچھ اور، پھر پہلا اپنی کی ہوئی بات کی تردید کرتا ہے۔ ریاست کی رِٹ، یہ تو ایسی اصطلاح بن چکی ہے کہ کوئی استعمال کرے تو اس کی مرمت کرنے کو دل چاہتا ہے۔
آگے بڑھنے والوں کو روکنے کے لیے خندقیں کھودی گئی ہیں۔ اِتنی خندقیں کہ شاید 65ء اور 71ء کی جنگوں میں نہ کھودی گئی ہوں۔ اگلوں نے پولیس پر دھاوے بولے ہیں، سیدھی فائرنگ تک گئے ہیں، پنجاب پولیس کا بھرکس نکال دیا ہے لیکن حکومت نام کی چیز ہے کہ اب بھی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔ درست قدم اٹھایا گیا کہ رینجرز کو بلا لیا نہیں تو جو رُسوائی پنجاب پولیس کی ہو چکی ہے اُس کے بعد قیاس نہیں کیا جا سکتا تھا کہ موقع آنے پہ میدان میں کھڑی رہے۔ اب پنجاب پولیس طبلچی کے فرائض انجام دے گی، پہلی لائن میں رینجرز کھڑے ہوں گے۔
جو ہو رہا ہے وہ تماشہ ہے لیکن یہاں تک پہنچانے والے خود حکمران ہیں اور وہ جو پیچھے سے ڈوریں ہلاتے ہیں‘ یہ اُن کا کارنامہ ہے۔ شروع میں جب سٹینڈ لینا چاہئے تھا تب ایسا نہ کیا گیا۔ مذاکرات پر مذاکرات ہی ہوتے رہے اور ہر بار مطالبات مانے گئے اور گھٹنے ٹکتے رہے۔ اگلوں نے پھر شیر ہی ہونا تھا اور اُن کے حوصلے بڑھنے تھے۔ اِس حکومت میں جب احتجاج والوں نے پہلا احتجاج کیا تو حکام اِتنے بوکھلا اُٹھے کہ موٹروے بند کر دی۔ شکر ہے اِس بار ایسا نہیں کیا، جی ٹی روڈ پر خندقوں تک ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ اِس پہلے احتجاج کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ جب موٹروے بند ہوئی تو لاہور جانے کیلئے درمیان کی سڑکوں پر سفر کرنا پڑا۔ کلرکہار سے چوآ سیدن شاہ اور پھر پنڈ دادنخان، وہاں سے منڈی بہاؤالدین اور رینگتے رینگتے گوجرانوالہ۔ وہاں سے پھر نو گھنٹے کی مسافت کے بعد شاہدرہ پہنچے۔ کیا تماشہ اس طویل سفر میں دیکھا۔ احتجاجیوں کا کہیں بیس کا ٹولہ تھا، کہیں تیس چالیس کا۔ اِس سے زیادہ نہیں لیکن خدا گواہ ہے پورے راستے میں حکومت نام کی چیز نظر نہیں آئی۔ کوئی مجسٹریٹ یا دوسرا افسر حتیٰ کہ ایک پولیس والا دیکھنے کو نہیں ملا۔ لگتا تھا زمین حکومت کو نگل گئی ہے۔ کوئی سٹینڈ لینے والا ہوتا تو احتجاج پہ بآسانی قابو کیا جا سکتا تھا‘ لیکن جب ارادہ نہ ہو تو ہٹلر کی فوج کیوں نہ آپ کے استعمال میں ہو آپ کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ آگے یہی بزدار والی حکومت تھی جس نے قسم کھا رکھی تھی کہ سامنے نظر نہیں آنا اور پیچھے ڈور ہلانے والے جو اپنی حکمت عملیوں میں مصروف تھے۔
ایسی جوانمردی کا مظاہرہ ایک بار نہیں بار بار ہوا۔ بانیِ احتجاج اِس دنیا سے چلے گئے لیکن جو تحریک پیچھے چھوڑ گئے زور پکڑتی گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ نہتے پولیس والوں پہ سیدھی گولی چلتی ہے اور ریاست کی رِٹ کا مفہوم یہی رہ گیا ہے۔ حکومت کے بڑے توپچیوں سے کوئی پوچھے کہ سفیروں کے انخلا تک بات کیسے پہنچی۔ پہلے دن سے ہی مؤقف واضح ہونا چاہئے تھا کہ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ جس پر کوئی بات نہیں ہو سکتی‘ لیکن عجیب لیت و لعل سے کام لیا گیا اور احتجاجیوں سے معاہدہ ہوا کہ مطالبے کو قومی اسمبلی کے سامنے رکھا جائے گا۔ یہ ایک ایسا لایعنی فیصلہ تھا کہ انسان توپچیوں کی عقل پر دنگ رہ جاتا ہے‘ لیکن ایسا ہوا اور اگلے یہ کہنے کی پوزیشن میں آ گئے کہ آپ نے تو خود معاہدہ کیا تھا‘ اب اُس کا پاس رکھیں۔
تاریخ ہماری بتاتی ہے کہ ریاستوں کا کام حکمتوں سے چلتا ہے لیکن تاریخ کا یہ سبق بھی ہے کہ بار بار کی بزدلی سے ریاستوں کا کام نہیں چلتا۔ ایم کیو ایم کا سامنا بروقت نہ کیا گیا۔ اُن کے کرتوتوں پر آنکھیں بند کی گئیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنی حکومت قائم کرلی جہاں اُس کا حکم چلتا تھا اور ریاست کی رِٹ مذاق بن کررہ گئی تھی۔ ایم کیو ایم نے مخالفین کے سروں میں گولیاں داغیں، بوری بند لاشوں کی کہانی رقم کی، انسانی جسموں پر ڈرل مشینوں کے استعمال کو متعارف کرایا لیکن دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بے بسی اور لاچاری کا نمونہ بنی رہی۔ سوات میں بھی یہی کچھ ہوا۔ بات ایک ایف ایم ریڈیو سٹیشن سے شروع ہوئی۔ ملا فضل اللہ نے جو چاہا اُس ریڈیو سٹیشن سے کہتا رہا اور روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہاں بھی ملا فضل اللہ اور اُس کے ساتھیوں نے اپنی ریاست قائم کرلی، پھر فوجی آپریشن کرنا پڑا حالات کو قابو میں لانے کیلئے۔ قبائلی علاقوں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ کمانڈر نیک محمد سے معاہدہ ہوا اور اُس کے ہر مطالبے کو مانا گیا۔ ڈرون حملے میں نیک محمد تو مارا گیا لیکن ٹی ٹی پی اِتنی طاقتور ہوتی گئی کہ پورے فاٹا میں تقریباً اُس کی ریاست قائم ہو گئی۔ یہی نہیں ٹی ٹی پی نے پورے ملک میں اپنی دہشت گردی پھیلائی۔ پانی سر تک پہنچا تو ریاست نام کی چیز کو کچھ ہوش آیا۔ پھر پوری ایک جنگ لڑنی پڑی ٹی ٹی پی کو شکست دینے کیلئے۔ کہنے کو تو ہمارے ہتھیار بھاری رہے لیکن اب بھی وہاں مکمل امن قائم نہیں ہوا اور ٹی ٹی پی کی کارروائیاں جاری ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہوش ہمیں تب ہی آتا ہے‘ جب حالات سر تک پہنچ جائیں۔ یہی کچھ اب ہو رہا ہے۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ ریاست کے خلاف بغاوت کس چیز کو کہتے ہیں؟ پولیس کا ہر فرد آئی جی سے لے کر کانسٹیبل تک ریاست کا نمائندہ ہے۔ پولیس پر فائرنگ کا مطلب ہے کہ آپ ریاست کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔ اِس نکتے پر کون سی مصلحت ہو سکتی ہے؟ لیکن حکومتی توپچی ہیں کہ ایسی دو رُخی باتیں کرتے ہیں کہ کنفیوژن پھیلتا ہے۔ کتنے دنوں سے جی ٹی روڈ کا ایک اہم حصہ بند ہے۔ جہاں جہاں سے احتجاج گزرتا ہے عام زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ پھر اِن سے کوئی پوچھے کہ اب آپ کی کون سی ڈیمانڈ پوری نہیں ہوئی۔ آپ پولیس پہ حملہ آور ہوئے، فائرنگ کی، پولیس والے مرے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ آپ کے لوگو ں پہ پرچے ہوئے تو پرچے واپس لینے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ آپ کے ورکرز رہا ہونے لگے۔ یعنی آپ کے طاقت کے مظاہرے کے بعد بھی حکومت نے لاچاری کو ہی حکمت جانا‘ لیکن آپ ہیں کہ پھر بھی راضی نہیں۔ آپ کے لیڈروں کی کوئی تقریریں تو سنے۔ عوامی جذبات کو ابھارنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی‘ لیکن آپ کو پھر بھی کچھ نہیں کہا جا رہا۔ آپ سے منتیں ترلے کئے جا رہے ہیں کہ خدارا اب بس کریں‘ لیکن آپ بضد ہیں اِس بات پر جس کی یہ حکومت کیا کوئی حکومت بھی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ڈھیلی ریاست، لاچاری کی پیکر ریاست، لیکن آپ مجبور کر رہے ہیں کہ ریاست وہ راستہ اپنائے جو کراچی، سوات اور فاٹا میں اپنایا گیا تھا۔ کچھ تو اِس ملک پہ رحم کیجئے۔