"AYA" (space) message & send to 7575

تنگ حالات اور بے بس حکمران

حالات جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ طاقت ہو تو ہر جگہ نظر آتی ہے، کمزوری ہو تو اُس کے نشانات بھی ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ایل پی والا ہنگامہ ہم نے دیکھ لیا۔ ہر کسی نے یہ بھی دیکھا کہ حکومت کتنے پانی میں ہے، کتنی اُس کی طاقت ہے اور کتنی اُس کی کمزوری۔ حکومت ایک محاذ پہ بے بس نظر آئے تو کسی اور محاذ پہ اُس کا مؤثر ہونا اِتنا آسان نہیں ہوتا لہٰذا جو حکومت ٹی ایل پی کے سامنے بے بس تھی وہ مہنگائی کے معاملے میں کیسے مؤثر ثابت ہو سکتی ہے؟ سوال صلاحیت کا ہے۔ جب صلاحیت محدود ہو اور آپ کی نالائقی ہر موڑ پہ عیاں ہو تو اجتماعی کارکردگی کیسے اچھی ہو سکتی ہے؟
سینہ کوبی کا کوئی فائدہ نہیں لیکن ایک بات تو قوم جان چکی کہ یہ حکومت بس ویسے ہی ہے۔ معیشت کے معاملے میں تو بالکل نہلے ثابت ہوئے ہیں۔ ہر چیز ڈنڈے سے نہیں چلائی جا سکتی لیکن سمجھ بوجھ بھی کسی چیز کا نام ہے۔ پہلے دن سے عمران خان اور اُن کی ٹیم‘ دونوں ثابت کر رہے ہیں کہ معیشت کے مسائل ان کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ چینی کی قیمت اِن کی معاشی سمجھ کا محاورہ بن چکی ہے۔ یہ قیمت اب کہاں جا پہنچی ہے۔ چینی کی ملیں کتنی ہوں گی؟ معیشت کی سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کو کنٹرول کرنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن اِس ایک آئٹم چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنا اِتنا مشکل نہیں لیکن اِن کی دسترس سے یہ بات بڑی لگتی ہے۔
شوگر مافیا کی اصطلاح عام ہو چکی ہے لیکن یہ مافیا کن لوگوں پہ مشتمل ہے؟ چند بڑی اسامیاں ہیں، بڑے بڑے مگرمچھ۔ اِن پہ ہاتھ ڈالنا کون سی مشکل بات ہے؟ لیکن اگر آپ ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو پھر کم از کم اپنی تقریریں کم کریں اور اپنی بڑھکوں سے اجتناب کریں۔ ایوب خان کے وقت میں چینی کی قیمت چار آنے بڑھی تھی۔ سوا روپے فی سیر سے ڈیڑھ روپے ہو گئی تھی اور عوامی ردِ عمل اِتنا شدید اٹھا کہ حکومت ہل کے رہ گئی تھی۔ اب تو تاریخی ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں اور موجودہ حکومت کی بے بسی کی کوئی انتہا نہیں رہی‘ لیکن یہ لوگ بالکل ہی نا سمجھ نکلے ہیں۔ بنتے اکڑ خان ہیں، لیکن نہ سمجھ ہے نہ ہمت۔ نو دس بڑے مگرمچھ ہیں۔ شروع کریں اپنی کابینہ سے اور رائے ونڈ سے ہوتے ہوئے ساحلِ سمندر تک جائیں۔ سب اندر ہوں تاوقتیکہ چینی کی قیمت کسی کنٹرول میں آئے‘ لیکن ایسی حکمتِ عملی کے لیے حوصلہ چاہئے جو اِن لوگوں کے پاس سِرے سے نہیں۔
خدا کی پناہ، گندم کی فصل کے بارے میں کیا پالیسی اپنانی چاہئے‘ یہ اِن کی سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان نے جنوبی کوریا یا ہانگ کانگ کیا بننا ہے‘ اِن الف لیلوی کہانیوں کو چھوڑیئے، کھانے پینے کی چیزوں میں خود کفیل ہو جائیے یہی بڑی بات ہے‘ لیکن عجیب ملک ہے، کہنے کو زرعی ملک لیکن آدھی سے زیادہ کھانے پینے کی چیزیں باہر سے آ رہی ہیں۔ معاشی حالت خاک سے پھر ٹھیک ہونی ہے۔ بہر حال بنیادی بات یہ ہے کہ نالائقی ہو تو ہر محاذ پر اور ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ یہاں یہی کچھ ہو رہا ہے، ٹی ایل پی کے معاملے سے لے کر مہنگائی کے مسئلے تک اِن لوگوں کی گرفت میں کچھ نہیں۔
اب معلوم ہوا ہے‘ تحریک طالبان پاکستان سے طالبان حکومت کی توسط سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ مذاکرات کا سن کے تو خوشی ہونی چاہئے لیکن اِن لوگوں کو جانتے ہوئے ڈر سا لگ گیا ہے کہ اب کون سا نیا کَٹا کھلنے جا رہا ہے۔ اگر تحریک لبیک والے اپنی بات پر ڈٹے رہنے کا ہنر رکھتے ہیں تو ٹی ٹی پی والے گولیاں کھیلنے والے تو نہیں۔ حکومتِ پاکستان سے معاملات طے کرتے وقت پتا نہیں کن کن مطالبات پر اصرار کریں۔ اور موجودہ حکومت کو جانتے ہوئے وہ پتا نہیں کیا کیا بات مان جائے۔ ایک بات تو طے ہے، ٹی ٹی پی کے لوگوں نے کچھ دیا تو اُس کے عوض بہت کچھ لینے کی استدعا کریں گے۔ گھاٹے کے سودے پہلے بھی ہم کر چکے ہیں مزید نہ کرنے پڑ جائیں۔
اِن سب حالات کو دیکھتے ہوئے دل ڈوب سا جاتا ہے۔ ہم سے معاملات کیوں نہیں سلجھ رہے؟ ہماری قسمت میں ایسے حکمران کیوں لکھے ہوئے ہیں؟ دھڑکا اِس بات کا بھی ہے کہ سب متبادل ہم آزما چکے ہیں، اب آزمانے کو کچھ رہا نہیں۔ ہماری بے بسی کو دیکھ کے جن کے منہ کو خون لگ چکا ہے‘ اُن کے عزائم مضبوط ہو رہے ہیں۔ اِس لیے بھی کہ جہاں ہمارے دفاعی ادارے مضبوط ہیں حکمرانی کمزور ہے۔ اِس مخمصے کا حل کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ اگلے الیکشن دور نہیں لیکن اِن سے کیا نکلے گا؟ سندھ کی حکمرانی اومنی گروپ کے مبینہ دوستوں کے حصے میں پھر سے آئی تو کیا یہ نتیجہ تسلی بخش ہو گا؟ اور اگر پنجاب کے منصب دار تبدیل ہوتے ہیں اور ن لیگ کی اگلی پود حکمرانی کی طرف قدم بڑھاتی ہے تو کیا یہ حوصلہ افزا بات ہو گی؟ افق پہ کچھ دیکھیں تو قومیں امیدیں لگاتی ہیں‘ لیکن جب سب کچھ آزمایا جا چکا ہو اور مزید متبادل کی گنجائش نہ رہ گئی ہو تو پھر بے چاری قوم کس سے اپنی امیدیں لگائے؟
موجودہ حکومت متبادل والی حکومت ہے۔ قوم کے مختلف طبقات یہ سوچ بیٹھے تھے کہ پرانی آزمائی ہوئی جماعتوں کے متبادل عمران خان ہیں۔ وہ اب نووارد نہیں رہے۔ آزمائے جا چکے ہیں اور قوم نے تخمینہ لگا لیا ہے کہ وہ اور اُن کی ٹیم کتنی صلاحیتوں کی مالک ہے۔ اپنی تاریخ میں پاکستان تو متبادلوں کی تلاش میں ہی رہا ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ کون سا متبادل رہ گیا ہے یا یہ کہ آگے کیا ہونے کو ہے۔
ڈر تو ایک اور بھی لگا ہوا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ سیاسی طاقت تو اُن ہاتھوں میں ہے جنہوں نے حالیہ احتجاج کا عَلم اٹھایا اور جن کے سامنے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اِس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے کہ آنے والے وقت میں یہی لوگ متبادل کے طور پہ اُبھریں گے؟ شاید یہ مفروضہ ہی ہو لیکن ایسے مفروضوں سے دل میں خوف اٹھتا ہے۔ عوام کا کیا ہے؟ عوام کی اکثریت کو مروجہ سیاسی پارٹیوں نے کیا دیا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ نئی باتیں کی تھیں۔ کچھ اصطلاحوں کو اُنہوں نے متعارف کرایا‘ لیکن بھٹو کے بعد پچھلے سینتالیس سالوں میں عوام کے حق میں کون سا انقلابی طوفان اٹھا ہے؟ قیادتیں قوم کو متعدد نصیب ہوئیں لیکن اِن قیادتوں کے اکابرین نے فقط اپنا الو ہی سیدھا کیا۔ اِس ریکارڈ کے پیش نظر عوام حق بجانب ہوں گے اگر روایتی پارٹیوں کو چھوڑ کر وہ اُن نعروں میں کشش دیکھیں جو ٹی ایل پی کی نشانیاں ہیں۔ لمبے جلوس تو اِن لوگوں نے نکالے ہیں‘ اور انتخابات کو ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے۔ نعرے والوں کے حق میں عوام کا جھکاؤ بڑھتا نہ جائے۔ یہ خدشہ بھی ہو سکتا ہے کہ مذہبی سوچ رکھنے والے جوق در جوق اِس جھنڈے تلے جمع ہوتے جائیں۔
یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہوائیں کس جانب چل رہی ہیں۔ نیا پاکستان عمران خان نے کیا بنانا تھا۔ ہمارے سامنے ایک اور پاکستان بنتا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں