سوویت یونین کے ٹوٹنے کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ 1985ء میں میخائل گورباچوف سوویت یونین کے سربراہ بنے تو اُن سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ خیال تھا کہ وہ نئی سوچ رکھتے ہیں اور جن اِصلاحات کی سوویت یونین کو ضرورت ہے وہ نافذ کر سکیں گے‘ لیکن گورباچوف نے جو اقدامات کیے‘ ایسے تھے جن کے نتائج سمجھنے سے وہ قاصر تھے۔ معاشی میدان میں کچھ ایسا کیا گیا کہ سوویت یونین کی معاشی حالت‘ جو پہلے بھی اِتنی اچھی نہ تھی‘ ابتر ہوتی چلی گئی۔ افراطِ زر بڑھ گیا اور جہاں ایک طبقہ بہت امیر ہو گیا آبادی کی اکثریت کی حالت خراب ہوتی گئی۔
سیاسی محاذ پہ وہ جمہوریت لانا چاہتے تھے جبکہ سوویت یونین اِس چیز کیلئے تیار نہ تھا۔ سوویت یونین میں اقتدار کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی کا تسلط تھا۔ سیاسی اقدامات وہ کیے گئے جن سے معاشرے میں افراتفری کا ایک سماں پیدا ہونے لگا۔ اُس سے کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول کمزور ہو گیا۔ ایک طرف معاشی اَبتری اور دوسری طرف سیاسی افراتفری، اِس ملاپ سے سوویت یونین غیرمستحکم ہونے لگا۔ سوویت یونین سپر پاور تھا اور فوجی طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے برابر تھا‘ لیکن گورباچوف کے اقدامات سے ملک کمزور ہو گیا۔ بہت سے حلقوں میں اب تک یہ خیال ہے کہ اسلحے کی دوڑ کی وجہ سے سوویت یونین مارا گیا۔ یہ تاثر غلط ہے۔ سوویت یونین کے اسلحے کی انڈسٹری خاطر خواہ بنیادوں پہ استوار تھی اور پیسے کمانے کی پوزیشن میں تھی۔ اصل کمزوری گورباچوف کی نام نہاد اصلاحات تھیں جن سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی جسے گورباچوف کی حکومت کنٹرول نہ کر سکی۔ 1991ء میں گورباچوف کی جب چھٹی ہوئی تو بہت سے روسی کہنے لگے کہ شکر ہے اِس ہوا سے بھرے ہوئے غبارے سے نجات ملی۔
ہوا سے بھرے ہوئے غبارے کا مطلب کیا ہے؟ جب یہ اصطلاح اشخاص پہ فِٹ کی جائے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو باتیں ہی کرتا ہے اور سمجھ بوجھ سے عاری ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی بھی ملک کو کوئی گورباچوف نصیب ہو لیکن پاکستان کو بھی غبارے والا مرض لاحق ہے۔ ملک کا لیڈر‘ جو حالات کی وجہ سے قوم کے حصے میں آیا ہے‘ تین سال سے باتیں ہی کر رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پہ کچھ نہ کچھ فلسفہ قوم کو سنایا جاتا ہے۔ معیشت کی حالت اچھی نہ تھی لیکن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ناسمجھی میں پیسے کی گردش زیادہ ہوگئی ہے جس سے افراطِ زر اِتنا بڑھ چکا ہے کہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہا۔ تین سال سے ایک رَٹ قوم سن رہی ہے کہ کرپشن نے ملک کو تباہ کیا۔ کچھ کرنے کی صلاحیت ہے نہیں‘ بس موقع بے موقع کرپشن کی کہانی قوم کو سنا دی جاتی ہے۔ پنجاب کو دیکھیں یا خیبر پختونخوا کو یا ایک نظر وفاقی کابینہ پہ ڈالی جائے تو لگتا یوں ہے کہ نہلوں کا ایک ٹولا حکومت کر رہا ہے۔ پہلے ہمیں ون پیج کا سنایا جاتا تھا کہ ادارے اِس حکومت کے پیچھے ہیں۔ اب لگتا ہے ون پیج تو کسی ردی کی ٹوکری میں چلا گیا ہے۔ ایک حد تک اداروں سے بھی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اور جیسا کہ ٹی ایل پی والے معاملے میں قوم دیکھ چکی ہے سیاسی حالات پہ بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں‘ اور اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے قانون کی شکل میں ایک ایسا فروعی محاذ کھول دیا گیا ہے جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی۔ جو مسائل ہیں توجہ اُن پہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ فضول کے اور مسائل پیدا کئے جائیں لیکن حکومت یہی کر رہی ہے۔
اِس قانون کو پاس کرانے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تھا لیکن اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا جب عندیہ یہ ملا کہ حکومت کے اتحادی، ق لیگ اور سندھ سے جی ڈی اے، اِس قانون کے حق میں نہیں۔ عجیب منطق ہے اِس حکومت کی۔ جب مسائل سے گھرے ہوئے ہیں تو جو نظام اور الیکشن کا طریقہ کار ہے اُسے چلانے کی کوشش کریں لیکن اِن لوگوں نے ضد بنا لی ہے کہ الیکشن کے نئے طریقے کا تجربہ ضرور کرنا ہے۔ نیت اِتنی صاف بھی نہیں۔ کوئی سروے کر لیں‘ پتا چلے گا کہ مہنگائی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے مقبولیت کے حوالے سے حکومت کا گِراف بہت نیچے جا چکا ہے۔ اِس تناظر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا نسخہ بدنیتی پہ مبنی دکھائی دیتا ہے کہ جو نتائج مروجہ الیکشن طریقے سے حاصل نہ ہو سکیں وہ مقصد شاید اِن مشینوں سے حاصل ہو جائے۔ کم از کم عام آدمی یہی سمجھے گا۔
ٹی ایل پی والے معاملے میں حکومت کی سوچ اور تھی اور اداروں کی اور۔ حکومت اِس بات پہ آ گئی تھی کہ طاقت کا استعمال کیا جائے۔ ادارے اپنے سر پہ یہ ذمہ داری کیوں لیتے؟ اِس لئے اداروں نے دوسری رائے دی اور حضرت مفتی منیب الرحمن قبلہ کو کراچی سے بلوایا گیا تاکہ ٹی ایل پی کو کسی راستے پہ لایا جا سکے۔ اپنے تک اداروں کی رائے درست تھی۔ جب حکومت خود کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو ادارے عوام پہ گولی کیوں چلائیں؟ سویلین اداروں کی اہمیت تو رہی نہیں۔ پنجاب پولیس کی حالت کیا ہو چکی ہے وہ ہم نے دیکھ لی۔ اِس وقت برطانوی فوج کی تعداد لگ بھگ اَسی ہزار ہے۔ پنجاب پولیس کی تعداد اِس سے دُگنی ہے۔ لیکن پنجاب پولیس ٹی ایل پی کے سامنے بے بس تھی۔ اِسی لئے اداروں کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی جس سے حکومت کی کمزوری عیاں ہوتی ہے۔
اِن حالات میں تو یہی کہا جائے گا کہ حکومت کی کشتی لہروں پہ چل رہی ہے لیکن لہروں کے رحم و کرم پر ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے نا کہ اوپر پائلٹ کوئی نہیں اور کشتی کو چلانے والا کوئی نہیں۔ کتنی دیر یہ صورتحال رہتی ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ انتخابات کو کچھ عرصہ باقی ہے لیکن اِتنا ضرور ہے کہ عوام توبہ توبہ کر رہے ہیں۔ اِس سب کے اوپر وہ معاملہ جو اگلے روز سپریم کورٹ میں ہوا۔ وزیر اعظم عدالت کے حکم پر حاضر تو ہوئے لیکن کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ اپنی روایتی تقریر کرنے کی کوشش کی لیکن عدالت تقریر سننے کے موڈ میں نہ تھی۔ وزیر اعظم ایک چیز کہہ سکتے تھے کہ اگر آپ سانحہ پشاور کے حوالے سے کچھ چاہتے ہیں تو حکومت کو تحریراً بتلایا جائے کہ کون سے اقدامات کئے جائیں۔ ایسا کچھ نہ کہا گیا اور وزیر اعظم اچھا خاصا سن کے واپس آ گئے۔
ایسی طَلبیاں ایک نشانی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب حکومتیں ڈانواں ڈول ہو چکی ہوں تو اُن کے ساتھ ایسے حادثات رونما ہونے لگتے ہیں۔ جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے قانون کا تعلق ہے یہ قضیہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ سے اِس کی منظوری ہو نہیں سکتی کیونکہ سیاسی حالات حکومت کیلئے خراب ہو چکے ہیں اور مجوزہ قانون بھی متنازع ہو چکا ہے۔ قانون کا مسودہ واپس لیا جاتا ہے تو اِس میں بھی حکومت کی سبکی ہے۔
جس سرکس کو ہم دیکھ رہے ہیں اُس کے حمایتی اب تک یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ آج نہیں تو کل کرشموں کا دور شروع ہو جائے گا‘ اور خان صاحب کے کارنامے سامنے آنے لگیں گے‘ اُن کے دلوں میں بھی امید کے چراغ اب بجھ چکے ہیں۔ مخالف تو خلاف تھے ہی لیکن حمایتیوں کے حوصلے بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ کسی پی ٹی آئی والے سے بات کر کے دیکھ لیں، یہی پیغام ملے گا۔