یوں تو گزرے وقتوں کی سوویت یونین کے ٹوٹ جانے سے خاطر خواہ واقفیت ہے لیکن آج کل ایک کتاب کا مطالعہ ہے جس سے وہ واقعات ذہن میں تازہ ہو رہے ہیں۔ کتاب کا نام ہے: سوویت یونین کا زوال۔ خاصی ریسرچ اِس کتاب میں کی گئی ہے اور اِس کے مصنف ایک روسی سکالر ولاڈِسلاو زُوبوک ہیں۔ پڑھ رہا ہوں اور پڑھ کے ڈر بھی لگتا ہے کہ دنیا کا دوسرا طاقتور ترین ملک تباہی کے دہانے پہ کیسے پہنچایا گیا۔
مسائل کس ملک میں نہیں، امریکہ کو بھی مختلف مسائل کا سامنا ہے لیکن سوویت یونین کی تباہی اور ریخت کسی مسائل کے مجموعے کا نتیجہ نہ تھا بلکہ یوں کہیے کہ سوویت یونین کے تب کے سربراہ میخائل گورباچوف کے ذریعے سوویت یونین نے خود کشی کا فیصلہ کیا۔ امریکی حیران رہ گئے تھے اور اُن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ گورباچوف اپنے ملک کے ساتھ کیا کررہا ہے۔ داستانِ ریخت پڑھتے ہوئے قاری کو بھی بمشکل یقین آتا ہے کہ جو پڑھ رہا ہے وہ مبنی برحقیقت ہے۔ گورباچوف نے ایسے ایسے لایعنی اور بے تُکے اقدامات کیے جن کا کوئی جواز آج تک نہیں پیش ہو سکتا۔ اقدامات سے بڑا عجوبہ یہ ہے کہ تباہی کا کام جب جاری تھا تو مخالفت کرنے والا یا روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ حکمران کمیونسٹ پارٹی کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کچھ کر نہ سکی اور کچھ کرنے کی پوزیشن میں پارٹی نہیں تھی کیونکہ جلد اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ گورباچوف کے اقدامات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
کچھ دن پہلے بھی گورباچوف کے بارے میں لکھ چکا ہوں تو سوال اُٹھتا ہے کہ پھر کیوں لکھ رہا ہوں؟ اِس لئے کہ جیسے کتاب پڑھ کے ڈر لگ جاتا ہے پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کے دل میں کپکپی لگ جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ معاشی اصلاحات کے نام پر کیا کیا کچھ اِس ملک کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ موجودہ گورنر سٹیٹ بینک ہیں کون؟ اِنہیں لانے کی مجبوری کیا تھی؟ ڈالر کی نسبت روپے کو کہاں گرا دیا گیا ہے؟ کل ہی ایک انگریزی معاصر میں لبنان کی حالت پر ایک مضمون پڑھ رہا تھاکہ کچھ دہائیاں پہلے لبنان کو مشرق کا پیرس کہا جاتا تھا اور آج یوں ہے کہ جیسے لبنان معاشی طور پہ پگھل چکا ہے۔ بجلی کی سپلائی میں لمبا لمبا تعطل پیدا ہوتا ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے کیلئے تیل نہیں۔ مہنگائی ایسی ہے کہ پاکستانیوں کو پتا چلے تو اپنے غم بھول جائیں۔ لبنان اِس حالت کو کیسے پہنچا ہے؟ ناقص حکمرانی کی وجہ سے۔ مضمون میں وہاں کے سٹیٹ بینک کے گورنر کا حوالہ ہے کہ کیسے اُس کے اقدامات نے معاشی تباہی میں اضافہ کیا۔ لبنان تو لبنان رہا پاکستان کن ہاتھوں میں آچکا ہے؟ جیسے یہاں کے سٹیٹ بینک کے گورنر کا پوچھا جاسکتا ہے کہ کون لایا اور یہ کہاں سے آیا‘ موجودہ حکومت کے بارے میں بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ کیسے اقتدار میں آئے؟ یہ بات تو طے ہے کہ بیساکھیوں اور سہاروں کے بغیر پچھلے انتخابات ہوتے تو یہ لوگ اقتدار کے قریب نہ پھٹک سکتے۔ پس پردہ جو کچھ ہو سکتا تھا وہ سب کچھ کیا گیا پی ٹی آئی کی کامیابی کیلئے ۔ اِس کام میں اتنی سرگرمی دکھائی گئی کہ انسان حیران رہ جاتاہے کہ طرف داری اِتنی بھی کی جا سکتی ہے؟
اب سننے میں ایک اور انوکھی کہانی آرہی ہے کہ اِن مجنوؤں کو لانے والے پچھتاوے کا شکار ہیں۔ پچھتاوا کس بات کا؟ اِن مجنوؤں کا آپ کو اندازہ نہیں تھاکہ کس قابل ہیں؟ سب آپ کا جب کیا ہوا ہے تو پھر جو ہو رہا ہے اُسے بھگتیں۔ پہلے اِس ملک کے ساتھ کم تماشے ہو چکے ہیں؟ قومی مفاد اور ملکی سالمیت کے نام پر کون کون سی واردات یہاں نہیں ڈالی گئی؟ ہر بار جب گھوڑے دوڑائے گئے تو جواز پیش کیا گیا کہ ملک خطرے میں ہے، سیاست دان اِسے تباہ کررہے ہیں اور گھڑ سوار ہی ملک کو بچا سکتے ہیں۔ یہ جو نمونے معرضِ وجود میں آئے‘ اِن کے لانے کے پیچھے بھی یہی جواز پیش کیا گیا کہ سیاست دان کرپٹ ہیں، ملک کو لوٹ لیا اور ملکی بچاؤ کی خاطر اِن نہلوں کو لانا قومی ضرورت بن چکی ہے۔ جو چوری کھانے والا اِس ملک میں ہے، ریٹائرڈ افسر، مڈل کلاسیئے، قیمتی ڈرائنگ روموں کو سجانے والے، صوفوں پہ بیٹھ کے ملک کی اصلاح کرنے والے، سب کے سب اِن نہلوں کے دیوانے بن گئے۔ یہ کہانی عام کی گئی کہ ملک کو نجات دہندہ کی ضرورت ہے اور یہ جن کے ڈھول ہم پیٹ رہے ہیں یہی نجات دہندہ ہیں۔ سوویت یونین کا گورباچوف نے وہ کیا جو ہٹلر کی فوجیں نہ کر سکیں تھیں۔ تین سال میں یہاں بھی پاکستان اور اِس کی معیشت کے ساتھ وہ کیا گیا جو دشمن نہ کر سکیں۔
ملاحظہ تو ہو کہ ملک کن مسائل سے دوچار ہے اور اِن نجات دہندوں کو کیا پڑی ہے۔ معیشت کی فکر نہیں، ابھی سے اگلا الیکشن سنوارنا چاہتے ہیں۔ اِسی لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا خبط اِن کے ذہنوں پر سوار ہے۔ یہاں کے ووٹوں کی صحیح طرح گنتی نہیں ہوتی لیکن یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں۔ باہر کے پاکستانی رجسٹرڈ کیسے ہوں گے؟ ووٹ کا حق کیسے استعمال کریں گے؟ اُن ووٹوں کی گنتی کیسے ہوگی؟ ابھی تک تو یہ نہیں پتا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں واقعتاً آنے والے انتخابات میں استعمال ہو سکیں گی یا نہیں۔ غیر ملکی پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کا پتا نہیں لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ دونوں اقدامات ہو سکیں گے پھر اِتنا تو سوچئے کہ ایسے انتخابات کو مانے گا کون؟ دھاندلی کا الزام ہر الیکشن کے بعد لگتا ہے لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ہوا اور کسی طریقے سے بھی غیرملکی پاکستانیوں کے ووٹوں کی گنتی ہو جائے تو دھاندلی کے الزامات ایسے لگیں گے کہ ماضی کے شور شرابے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔
دہشت گردی کی لپیٹ میں پاکستان آیا تو دل میں خوف کی لہر اُٹھتی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بہت دیر کی گئی، ریاستی ادارے فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں‘ لیکن جب شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا تو دلوں کو تسلی ہوئی کہ جو کارروائی ہونی چاہئے تھی وہ ہو رہی ہے‘ اور پھر اُس آپریشن میں‘ جو خطرے سے خالی نہ تھا‘ بہت کامیابیاں بھی نصیب ہوئیں۔ القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کو مجبوراً پاکستان کے علاقے چھوڑنے پڑے۔ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی‘ لیکن جہاں یہ کامیابیاں مل رہی تھیں قومی سیاست ہماری بگڑ رہی تھی اور جو استحکام ملکی حالات میں پیدا ہونا چاہئے تھا اُس سے ہم محروم رہے۔ نواز شریف کی حکومت کو جانا پڑا۔ کچھ تو اُن کی اپنی کمزوریاں تھیں کچھ پسِ پردہ ایسا عمل شروع کیا گیا جس سے وہ حکومت کمزور ہوتی گئی۔ انتخابات کا موسم آیا تو پھر وہ سیاسی آپریشن شروع کیا گیا جس کا مقصد اِن مجنوؤں کو اقتدار میں لانا تھا۔ اور یہ جب سے آئے پاکستان کی حالت وہ ہوتی گئی جو اب ہمارے سامنے ہے۔
تشخیص تو ہو گئی اور اِس تشخیص پر ہمارے سب حکیم لقمان متفق ہیں‘ لیکن مرض کا علاج کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتا رہا اور شاید کوئی بتانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔