بری اور ڈرا دینے والی خبروں سے میڈیا بھرا رہتا ہے لیکن ہماری خوش قسمتی کہ بری خبروں کا ہم پہ کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ڈالر وغیرہ کا ریٹ، پٹرول کی مہنگائی، روزمرہ کی اشیاء کا مہنگا ہونا، اِن سب چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اِس لئے کہ مدتوں پہلے اِس نتیجے پہ پہنچے کہ یہاں حالات سدھرنے نہیں اور بطور قوم ہم نے چبلیں مارتے رہنا ہے۔ اِس رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اجتماعی طور پہ ہم سے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوتا۔
کتنی حکومتیں آئیں جنرل ضیاء الحق کے فضول کے قانون کو ہاتھ نہیں لگا سکیں۔ وہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی جستجو، وہی امیروں اور دوسروں میں بڑھتا ہوا فرق۔ جو قوم تعلیم کا میدان نہ سنوار سکے اور جسے صحتِ عامہ کی فکر نہ ہو اُس نے اور خاک کرنا ہے۔ قوم کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ جن موضوعات کے بارے میں سوچنا چاہئے اور پھر فکر مند ہونا چاہئے وہ سوالات ہمارے ذہنوں میں آتے ہی نہیں۔ ذرا غور تو کیجئے کہ تمام دنیا میں ہمارا واحد ملک ہے جس میں سرکاری محکمے پراپرٹی اور زمین کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں اور کسی کو کوئی پروا نہیں۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پہ کبھی بحث نہیں ہوتی لیکن محکمے اپنے کام سے ہٹ کر عجب عجب طریقوں سے اِس کاروبار میں لگے ہوئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قوم کو پارسائی کا درس دیا جاتا ہے لیکن جو کام نہیں کرنا چاہئے توبہ ہے کہ اُس سے کوئی اجتناب کرے۔
سوال یہ ہے کہ جب معاشرے کی بنیاد ہی غلط طریقے سے ڈالی گئی ہو وہاں ٹھیک کام کیا ہو گا؟ قوم کی توانائیاں کہاں صرف ہونی چاہئیں اور کہاں صرف ہو رہی ہیں، اِس بات کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ اور اگر یہی صورت حال ہے تو انفرادی طور پہ ہمیں اِتنا فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ جنرل ضیاء الحق کا ایک پسندیدہ جملہ تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اگر مطلق العنان حاکم‘ جس کے اشارے پہ سب کچھ ہو سکتا تھا‘ یہ کہہ رہا تھا تو ہم جیسے کس گنتی یا قطار میں؟ اِس لئے ٹھیک ہی کیا کہ فکر کرنا چھوڑ دیا۔
اگلے روز ایک فوٹو دیکھ رہا تھا نیو یارک کے ٹائمز سکوائر کی۔ فوٹو دیکھ کے دل میں خیال آیا کہ کیا مزے دار جگہ ہے، گھومنے کا مزہ تو یہاں آئے۔ اب مجھے آپ بتائیے کہ پاکستان کا کون سا شہر ہے جس کا ایک محلہ بھی ہو جس میں گھومنے کا دل کرے؟ بہت عرصے تک اسلام آباد میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ آج کی نسبت جب اسلام آباد چھوٹا شہر تھا تو شہر میں سبزے کی بھرمار بھلی لگتی تھی‘ لیکن جو اِس شہر کا ہم نے حشر کر دیا ہے اب جانے کا وہاں دل نہیں کرتا۔ سپر مارکیٹ کے قریب جو دوائیوں کی دکانیں ہیں جہاں بڑا رش رہتا ہے اُس علاقے میں تو اب جانے سے گھِن آتی ہے۔ مختلف چیزوں کے بارے میں ہمارا اسلوب بہت کم ہے۔ جب چنگ چی رکشہ آئے تھے تو ایسے آئے کہ اِنہوں ملک کو تقریباً ٹیک اوور کر لیا۔ جنرل مشرف کے دور میں آسان پیسہ آیا تو بینکوں نے آسان پیسہ کاروں کے لیے مہیا کرنا شروع کر دیا۔ بڑے شہروں کے کسی بینک میں جانا ہوتا تو دروازے کے ساتھ پہلے کاؤنٹر پہ ایک دو سمارٹ قسم کی خواتین ہوتیں جو کار فنانس پہ لگی ہوتیں۔ جس نے نہیں بھی کار لینا ہوتی تھی وہ بھی کاغذوں پہ دستخط کر جاتا اور پہلی قسط ادا ہو جاتی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر ملک کو پہلے چنگ چی رکشوں نے ٹیک اوور کیا تو دوبارہ ٹیک اوور موٹر کاروں نے کر لیا ہے۔ اگر شہر بے ہنگم ہو گئے ہیں تو اِس میں کوئی عجوبہ نہیں۔ لاہور جیسا شہر‘ جو آج کل سموگ کی لپیٹ میں ہے‘ اُس کا یہ حشر ایسے ہی تو نہیں ہوا۔ جب غیر ضروری ٹرانسپورٹ کی مقدار اِتنی بڑھ جائے تو پھر وہی ہونا ہے جو لاہور کے ساتھ ہو رہا ہے۔
اب بتایئے اِس موسم میں کون احمق ہے جو لاہور جانے کا ارادہ باندھے؟ ضرورت کی چیزیں ہیں جو ہم صرف وہاں سے منگواتے ہیں، اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ لیکن اب اپنے ڈرائیور کو کہتے ہیں کہ میاں ایک رات وہاں رہو اور دوسرے دن فلاں سامان لے آنا۔ وہ بادامی باغ سے چکوال والی بس پہ بیٹھتا ہے اور بلکسر انٹر چینج پہ اُتر جاتا ہے۔ وہاں سے گاؤں آ جاتا ہے۔ دوسری ضرورت ہماری وہ ہے جس کا ذکر مشہور بھارتی مصنف اور جرنلسٹ سردار خوشونت سنگھ کیا کرتے تھے کہ اچھی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ جب آپ ایک عمر کو پہنچیں تو ریگولر بنیاد پہ جسم کو دبانے کا اہتمام ہو۔ میں جان بوجھ کے مساج کا نام نہیں لے رہا کیونکہ یہاں تو یہ حالت بن چکی ہے کہ معصومانہ لفظ کا استعمال بھی ہو تو یار دوستوں کے ذہن پتا نہیں کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی معاشرہ ہمارا وہاں تک جا چکا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات کا غلط مطلب نکالنا ہمارے لیے لازم ہو چکا ہے۔ بہرحال اشارہ صحت کدوں کی طرف ہے کہ صحت کی خاطر وہاں جانا اچھا لگتا ہے۔ لیکن لاہور کی حالت وہ ہو چکی ہے کہ اب اُس سے بھی اجتناب کرنا پڑ رہا ہے۔ صبح ورزش ضرور ہوتی ہے۔ چھوٹی سی روٹین اپنے لیے بنائی ہوئی ہے جس میں چالیس ڈنٹ یا پُش اَپس کا شمار بھی ہوتا ہے۔ سموگ کی وجہ سے لاہور کے صحت کدوں سے ہم باز آئے۔ اب اِنہی پُش اَپس پہ گزارہ ہو رہا ہے۔
سوچئے تو سہی کس خوبصورتی سے قومی ایئرلائن ہم نے تباہ کر دی۔ ریلوے نظام کے ساتھ وہ کیا جو کوئی دشمن فوج نہ کر سکے۔ ایسے میں کس چیز کی پھر فکر کریں؟ چین کے دوستوں نے کوئی مہربانی کی تو شاید نیا ریلوے نظام معرضِ وجود میں آ جائے۔ ہم پہ رہے تو ریلوے نظام کی جو فاتحہ پڑھی جا چکا ہے وہی صورت حال رہے گی۔ ہمارا پرابلم یہ بھی ہو چکا ہے کہ جہاں مرزا غالب، جگر مراد آبادی یا دوسرے شعراء حضرات کئی چیزوں کا ذکر ایک بار نہیں تواتر سے کر سکتے تھے ہم وہ الفاظ بھی استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ڈر رہتا ہے کہ شیوخ و زاہد‘ جن کی کوئی کمی اِس معاشرے میں نہیں‘ برا منا جائیں گے‘ لہٰذا جن جگہوں کے دروازے 1977ء کے ہنگام بند ہوئے اور کھلنے کا نام نہیں لے رہے اُن کا ہم ذکر نہیں کر سکتے‘ لیکن اِتنی بات تو کہی جا سکتی ہے کہ اُن دروازوں کا بند ہونا بہت سے قومی المیوں میں ایک المیہ ضرور ہے۔
اِس لئے آرام سے بیٹھے ہیں گاؤں میں۔ لاہور میں سموگ ہو گی لیکن یہاں تو سردیوں کی دھوپ ایسی ہے کہ سارا دن سینکتے رہیں اور جی نہ بھرے۔ آس پاس کے گھروں سے دیسی انڈے مل جاتے ہیں۔ ایک مہربان ہیں جو وقتاً فوقتاً دیسی گھی پہنچا دیتے ہیں۔ مالٹوں اور کینوئوں کا رنگ بدل چکا ہے۔کچھ دنوں بعد اِن میں صحیح مٹھاس آ جائے گی۔ باقی ماندہ سردیوں میں اِنہی کا جوس چلے گا۔
جہاں تک شاموں کا تعلق ہے... چھوڑیئے اِس ذکر کو۔ شاموں کا ذکر صحیح انداز میں نہیں ہو سکتا۔ اِدھر اُدھر کی بات کرنی پڑے گی۔ ذکرِ جاناں بھی شاعر حضرات اچھا کرتے ہیں۔ یہ موضوع اُنہی کے لیے رہنے دیتے ہیں۔