راشٹریا سوائم سیوک سَنگھ یا آر ایس ایس بھارتیا جنتا پارٹی‘ جو کہ ہندوستان کی حکمران جماعت ہے‘ کی روحانی پیشوا ہے۔ ہندو ریاست کا نظریہ آر ایس ایس کا ہے اور اُسے عملی جامہ حکمران بی جے پی پہنا رہی ہے۔آر ایس ایس کافلسفہ ہے کہ ہندوستان خالصتاً ہندو ریاست ہونا چاہئے ۔اس کے تصورِ ہندوستان میں تمام برصغیر اور افغانستان آتا ہے ۔ اس تصور کی بنیادپہ وہ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے اُن کے پیروکار تو اُن کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن ہندوستان کی بہت سی آبادی ہے جو آر ایس ایس کی باتوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔
کچھ دن پہلے آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھگوت نے ایک تقریب میں کہا کہ تقسیم ِ ہند کے درد کا علاج یہ ہے کہ وہ تقسیم ختم ہو۔ایسی باتیں آر ایس ایس والے 1947ء سے کرتے آرہے ہیں ۔ یہ بھی واضح رہے کہ آر ایس ایس کی دشمنی مسلمانوں سے تو ہے ہی لیکن اُن کی دشمنی اُن ہندو لیڈروں سے بھی ہے جنہوں نے تقسیم ِ ہند کو قبول کیا تھا۔ گاندھی جی کو گولی کسی مسلمان نے نہیں ماری تھی بلکہ اُن کا قاتل آر ایس ایس کا ایک ورکر نتھو رام گوڈسے تھا ۔اور اب تک نتھو رام گوڈسے کو آر ایس ایس والے ایک ہیرو کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے کہ آر ایس ایس کس فلسفے کی علمبردار ہے‘ اُن کی باتوں پہ سیخ پا ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔کم از کم ہمارے ملک میں اُن کی باتوں کوسنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی پاکستانی کہے کہ سبز پرچم لال قلعہ دہلی پہ لہرانا چاہئے اور ہندوستان کے لوگ اس بات پہ سیخ پا ہو جائیں۔یعنی فضول کی باتوں کو تو بس ایک بھینی سی مسکراہٹ کے ساتھ اگنور یا درگرز کرنا چاہئے۔یہی عقل مندی کا تقاضا ہے۔
لیکن داد دیجئے ہمارے دفترخارجہ کو‘ جس نے موہن بھگوت کی تقسیم ِ ہند کے بیان کو اتنا سنجیدگی سے لیا۔ہماری طرف سے باقاعدہ سرکاری ردِ عمل آیا کہ ہندوستان کو زمینی حقائق تسلیم کرنے چاہئیں اور پاکستان کے ساتھ پُرامن طور پہ رہنے کا سبق سیکھنا چاہئے۔ ہمارے ان عقل مندوں سے کوئی پوچھے کہ ایسی بات کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ پاکستان ایک زمینی حقیقت ہے‘ یا نہیں ؟پاکستان کو کسی آر ایس ایس کا سرٹیفکیٹ تو نہیں چاہئے۔پاکستان 1947ء میں معرضِ وجودمیں آیا تھا اور آج تک قائم ہے۔ کانگریس پارٹی تقسیم ِ ہند کے فیصلے کی حصہ دار تھی۔ 1971ء کا سانحہ ضرور ہوا لیکن وہ ایک الگ کہانی ہے۔ 1998ء میں تب کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اپنے دورہ ٔلاہور میں اقبال پارک آئے یعنی وہ جگہ جہاں 1940ء میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔ اُس وقت پاکستان میں بڑا شور اُٹھا تھا کہ لو جی واجپائی کے اقبال پارک آنے سے ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرلیا ہے۔اس سے زیادہ فضول بات کیا ہوسکتی ہے؟ واجپائی صاحب آئے تو اُنہوں نے بہت اچھا کیا لیکن پاکستان کے وجود کو اُن کے اقرار نامے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پتا نہیں ہم کیوں ایسی فضول باتوں میں پڑے رہتے ہیں۔
اُس دورے کے دوران جماعت اسلامی نے لاہور میں بھرپور احتجاج کیا ۔ شہباز شریف چیف منسٹر تھے ‘ اُن کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس موقع پر لاہور پولیس نے ان کے ورکروں کی خوب تواضع کی۔ جماعت والوں سے کوئی پوچھے کہ آپ کس بنا پر احتجاج کررہے تھے؟ بھارت کا وزیراعظم ‘ واجپائی ہوں یا کوئی اور ‘ پاکستان آئیں تو احتجاج کا جواز کیا بنتا ہے؟ ہندوستانی جنرل مشرف کو معرکۂ کارگل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ جوسازگار فضا واجپائی صاحب کے دورے کے بعد قائم ہوئی تھی‘ معرکہ کارگل نے اُس فضا کو تباہ کردیا۔ واجپائی صاحب نے تو یہ کہا تھا کہ ہماری پیٹھ میں معرکہ کارگل نے چھرا گھونپ دیا ہے۔اس کے باوجود جب جنرل مشرف برسرِ اقتدار آئے تو 2000ء میں آگرہ سَمٹ کے لیے ہندوستان گئے‘ اُن کی آمد پہ کسی نے احتجاج نہ کیا ۔
میں بھی اُس وقت آگرہ گیا تھا ‘ایک نجی بھارتی چینل ‘ این ڈی ٹی وی‘ کی دعوت پر ۔سربراہ اجلاس کے دوران صبح سے شام تک ہم بطورتجزیہ کار ٹی وی پہ بیٹھے ہوتے۔ پورا ہندوستان اُس کوریج کو دیکھ رہا تھااور یہ پہلا موقع تھا کہ گنے چنے پاکستانی صحافیوں کو پورے انڈیا کے سامعین کے سامنے بات کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ بڑے بڑے ہندوستانی سیاست دان اور تجزیہ کار ہمارے سامنے بیٹھ کر ہماری باتوں کو سن رہے ہوتے۔ہمیں بہت گرم جوشی سے ویلکم کیا گیا تھااور کسی نفرت کا شائبہ تک ماحول میں نہ تھا۔ یہ سب کچھ بیان اس لئے کررہا ہوں کہ فضول کے جنونی اگر بارڈر کے اُس پار ہیں تو اِس طرف بھی اُن کی کوئی کمی نہیں۔
بہرحال بات ہو رہی ہے دفترِ خارجہ کے ردِ عمل کی ۔ اُنہیں کون بتائے کہ ہر بات پہ چیختے چلاتے نہیں اور کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کسی وائیڈبال کی طرح بس جانے دینا چاہئے۔ملاحظہ ہو کہ کچھ دنوں پہلے چین نے ایک ایسے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا ہے جس سے امریکی فیصلہ ساز اور ملٹری سربراہان ہل کے رہ گئے ہیں۔ اس میزائل نے آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے دنیا کا چکر لگایا اور پھر دوران فلائٹ اس میزائل سے ایک چھوٹا میزائل نکلا اور اپنے ٹارگٹ کی طرف گیا۔ امریکہ ایسی ٹیکنالو جی تک نہیں پہنچااور وہاں یہ فکر پیدا ہو گئی ہے کہ چین ہم سے کئی چیزوں میں آگے نکل رہا ہے۔کوئی اور ملک ہوتا تو پتا نہیں کیا ڈھول پیٹتا لیکن چین کا ردِ عمل صرف یہ تھا کہ یہ خبریں غلط ہیں اور ہم نے محض روٹین کا ایک تجربہ کیا ہے۔ ہم ہیں کہ آئے روزیہ کہتے ہیں کہ ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ ایسے ہے تو اچھی بات ہے لیکن پہلوانوں کی طرح تواتر سے چھاتی پہ ہاتھ مارنے کی کیا ضرورت ہے؟اسرائیل بھی ایٹمی قوت ہے اور دنیا یہ جانتی بھی ہے لیکن اسرائیل میں اتفاقِ رائے پایاجاتا ہے کہ ایٹمی موضوعات پہ کبھی کوئی بات نہیں کرنی۔وہ کبھی نہیں کہتے کہ ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ ہاں! جنگیں ہوں تو ایسا ثابت کرتے ہیں کہ واقعی اُن کا دفاع مضبوط ہے لیکن بات بات پہ وہاں چھاتی پہ ہاتھ نہیں مارے جاتے۔
کچھ ہم میں ٹھہراؤ آجانا چاہئے لیکن جلد جذبات میں مغلوب ہو جاتے ہیں۔ 1998ء میں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو یہاں دوڑ لگ گئی کہ ہم نے بھی جوابی دھماکے کرنے ہیں۔ عذر یہ دیا گیا کہ ایل کے ایڈوانی نے ایک دو بیانات دیے ہیں جن سے پاکستانی قوم کا مورال بری طرح متاثر ہوا ہے۔اگر ہمارے مورال نے باتوں سے ہی اتنا متاثر ہونا ہے تو بہتر ہے کہ مورال کا ذکر ہی نہ کیا جائے۔اُس موقع پر کچھ تحمل دکھاتے ‘ دنیا کو ہماری دہلیز پہ آنے دیتے ۔ دنیا کو پتا نہ تھا کہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت ہے؟ لیکن نہیں ‘ جذبات میں بہہ کے جوابی دھماکے کرڈالے۔کوئی پوچھے تو سہی کہ ایسا کرنے سے ہمیں حاصل کیا ہوا؟کشکول ہمارا کیا ٹوٹ گیا ہے ؟کیا ہم ترقی یافتہ ہو گئے ہیں؟