"AYA" (space) message & send to 7575

ماحولِ جہالت کو فروغ کہاں سے ملا؟

اس میں کیا شک ہے کہ اسلام یا کوئی اور مذہب قتل و بربریت کی تلقین نہیں کرتا۔ دنیا میں موجودہ مذاہب میں کوئی بھی ایسی تلقین نہیں کرتا، نہ بدھ مت نہ ہندو ازم نہ یہود و نصاریٰ۔ یہ تو اِن مذاہب کے پیروکاروں پہ انحصار ہے کہ وہ اپنے مذاہب پہ کون سی تشریح پہنا دیتے ہیں اور مذہب کے پرچار کی وجہ سے اپنے معاشروں میں کیسا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ ہندو مذہب نہیں کہتا کہ مسلمانوں کو پکڑ کے ٹانگ دو لیکن ہندوستان میں جہاں جہالت کارفرما ہے ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔ یہودی مذہب نہیں کہتا کہ فلسطینیوں پہ ظلم کرو لیکن جسے ہم زائیونزم (Zionism) کہتے ہیں اُس نظریے کے تابع ریاستِ اسرائیل نے فلسطینیوں پہ ظلم کئے ہیں۔ اسلام تشدد کی راہ نہیں سکھاتا لیکن اِس سے کوئی انکار ہے کہ مسلم قومیت کے نام پہ بننے والی ریاست میں مذہب کا نام لے کے ظلم و بربریت کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں؟ تحریک طالبان پاکستان بھی اسلام کا نام لیتی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس کا نظریہ اسلامی ریاست کا قیام ہے لیکن اِس تنظیم نے چرچوں پہ حملے کئے ہیں اور مسجدوں اور امام بارگاہوں پر بھی۔ بات تو ماحول کی ہے کہ مذہب کے نام پر انسان کیسا ماحول پیدا کرتا ہے اور اُس ماحول کے زیر اثر کس قسم کا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
ہماری اکثریت 1947ء میں بھی مسلم عقیدہ رکھنے والوں پر مشتمل تھی۔ فرقے تھے‘ مختلف مسالک تھے۔ مسجدیں آباد تھیں اور امام بارگاہیں بھی۔ آج کی نسبت ہندو آبادی زیادہ تھی۔ کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں خاطر خواہ کرسچین آبادیاں تھیں‘ لیکن اِس قسم کی فرقہ واریت نہیں تھی جو بعد میں مملکتِ خداداد میں پروان چڑھی۔ خاص مہینوں میں کہیں کہیں توتکرار ہو جاتی ہو گی‘ لیکن یہ بندوق اور بمبوں والی زبان مذہب کے حوالے سے کبھی استعمال نہ ہوتی۔ استعمال تو دور کی بات ہے ایسا تصور بھی تب نہ تھا‘ لیکن نام نہاد افغان جہاد بھی مذہب کے نام پہ لڑا گیا اور اُس کے نتیجے میں جو قتل و غارت پاکستان میں ہوئی وہ بھی اسلام کے نام پہ ہوئی۔ ظاہر ہے قصور کسی مذہب کا نہیں بنتا بلکہ اُس کے پیروکاروں کا ہے کہ مذہب کو بطور ہتھیار وہ کس انداز سے استعمال کر رہے ہیں۔
کسی مسلم معاشرے میں مقامِ رسالت نہ متنازع رہا ہے نہ کسی خطرے سے دوچار لیکن پاکستان کو دیکھیں اور یہاں کے بعض اکابرین کے فرمودات کو سامنے رکھیں تو لگتا یوں ہے کہ نعوذ باللہ مقامِ رسالت کسی خطرے میں ہے۔ ہم جیسے گناہگاروں کو کبھی ختمِ نبوت پہ شک نہیں ہوا۔ ہم جیسوں کا ایمان کسی مدرسے میں ترتیب نہیں پایا۔ ہمارا اسلام ماں کے دودھ اور ماں کی آواز سے ہمیں ملا‘ اور ہمارا اسلام روح و جسم کا ایسا ہی حصہ ہے جیسا کہ سانس کا لینا یا رگوں میں خون کا دوڑنا۔ یعنی بغیر سوچے ہوئے یہ ہمارے وجود کا حصہ ہے‘ لیکن یہاں آئے روز کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں جس سے تاثر پھیلتا ہے کہ نعوذ باللہ مقامِ پیغمبری کو خطرہ لاحق ہے۔ اِن حرکتوں سے کیا ہوتا ہے؟ فتنہ اور شر پیدا ہوتا ہے۔ سادہ لوگ فضول باتوں کا اثر لیتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے سلمان تاثیر کے معاملے میں دیکھا سادہ ذہن راہِ تشدد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یہ افسانوں کی باتیں نہیں یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہوا ہے۔
یہاں کبھی تصور بھی نہ تھا کہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب کوئی ہو سکتا ہے۔ کسی قانون کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے قاعدے قانون میں توہینِ مذہب جرم بنتا تھا اور یہ قانون انگریزوں کے زمانے میں رائج ہوا لیکن توہینِ رسالت کا کوئی خاص قانون نافذ نہیں تھا اور وجہ اُس کی یہ تھی کہ ایسی ضرورت ہی کبھی محسوس نہ کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق آئے تو سب کچھ بدل گیا۔ اور تو اُن کے پلے کچھ تھا نہیں لیکن اُنہوں نے اپنا منشور اسلام کو بنا لیا یعنی جو معاشرہ پہلے ہی مسلمان تھا اُس کو دوبارہ مسلمان بنانے کی سعی اُنہوں نے شروع کر لی۔ جو بے معنی شوشے مذہب کے نام پہ چھوڑے جا سکتے تھے اُنہوں نے ایسا کیا۔ ایسے سطحی شوشوں کی ایک لمبی فہرست ترتیب دی جا سکتی ہے لیکن ہر اقدام کا ذکر کریں تو کوئی برا نہ منا جائے۔ اِن اقدامات میں توہین کے حوالے سے ایک شِق قانون میں ڈال دی گئی‘ یعنی جو مسئلہ پاکستانی معاشرے میں سرے سے تھا ہی نہیں ضیا صاحب نے اُس مسئلے کو ایک تحفے کے طور پر قوم کو عطا کر دیا اور اِس شق یا قانون کے نرغے میں کون آئے؟ معاشرے کے مظلوم ترین طبقات کے لوگ۔ غریب عیسائیوں پہ ظلم ڈھائے گئے اور ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن میں غریب ترین مسلمان اِس قانون کا نشانہ بنے۔ عموماً یہ دیکھا گیا کہ کسی گلی محلے میں رنجش ذاتی نوعیت کی ہے لیکن الزام لگا دیا گیا کہ مذہب یا مقدس ہستیوں کی توہین کا ارتکاب ہوا ہے۔ جان چھڑانے کیلئے بغیر تحقیق مقدمات درج ہو جاتے، کان بند کرکے گرفتاریوں کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ سالہا سال ایسے لاچار و مظلوم ملزمان جیلوں میں سڑتے رہتے۔ ضمانت کا سوال پیدا نہ ہوتا کیونکہ منصفین بھی مصلحت کی راہ اپناتے۔ جہاں تک وکلا صاحبان کا تعلق ہے وہ ہر ایسے واقعہ کے بعد نعرے لگانے میں سب سے آگے ہوتے۔ ایک عدد ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی نے جرأت دکھا کے توہین کے ملزمان کی وکالت کا بیڑہ اٹھایا تو اُس کو قتل کر دیا گیا۔
پچھلے سالوں میں ماحول یہاں ایسا بنا کہ قصور میں کرسچین میاں بیوی کو اینٹوں کے بھٹے کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ سینٹ جوزف کالونی لاہور‘ جہاں زیادہ تر عیسائی آباد تھے‘ پر حملہ ہوا۔ گوجرہ میں عیسائیوں پہ حملہ ہوا، ایسا ہی واقعہ گوجرانوالہ میں ہوا۔ گننے لگ جائیں تو خاصے کاغذ بھر جائیں۔ کچھ دن پہلے ہی اپنا ذہنی توازن کھوئے ہوئے ایک شخص پر توہین کا الزام چارسدہ میں لگا اور اُس کی پاداش میں مشتعل ہجوم نے دو پولیس سٹیشن اور دو پولیس چوکیاں جلا ڈالیں۔ سلمان تاثیرکی کہانی تو ایسی ہے کہ مفصل ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کے قتل کے بعد ایک پوری سیاسی مہم نے جنم لیا۔ ایک روز میں ہی اِس مہم نے طاقت نہ پکڑی لیکن جو نعرے لگتے رہے اور ایک پورا بیانیہ تیار ہوا تو مہم مضبوط ہوتی گئی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ درپردہ اِس مہم کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ ایک دو واقعات پر مہم نے احتجاج کا روپ دھارا تو ریاست یا قانون نافذ کرنے والے ادارے پیچھے ہٹتے رہے اور جوں جوں ریاست پیچھے ہوئی مہم چلانے والوں کے حوصلے بڑھے۔ پچھلے دنوں میں تو حد ہی ہو گئی، احتجاج کرنے والے لاہور سے شروع ہوئے اور پولیس پسپائی اختیار کرتی گئی۔ پولیس کے جوان مارے گئے، اُن پہ تشدد کیا گیا، پنجاب کی سب سے مصروف شاہراہ کو ہفتوں بند رکھا گیا‘ لیکن احتجاج کو روکنے کے بجائے حکومت نے اِسی بات کو بہتر سمجھا کہ احتجاج کرنے والی جماعت کے تمام مطالبات مان لئے جائیں۔
سیالکوٹ کا واقعہ کسی خلا میں رونما نہیں ہوا۔ جنہوں نے ظلم ڈھایا اُنہوں نے اثر ارد گرد کے ماحول سے لیا۔ یہ نہیں کہ اُن کا جرم نہیں بنتا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے کا جرم بھی بنتا ہے یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں