یا مزید خراب ہونا ہے۔ بہتری کا خیال ذہن سے نکال لیں۔ بہتری تو تب ہو کہ اِس اونچ نیچ کے نظام کو تبدیل کیا جائے لیکن ریاستِ پاکستان میں بنیادی تبدیلی کی خواہاں کوئی بڑی سیاسی پارٹی نہیں۔ نون لیگ، پی پی پی یا پی ٹی آئی سب کی سب کا مطمح نظر یہ ہے کہ نظام ایسا ہی رہے۔ ہاں ہماری سیاست میں شوشے چھوڑے جاتے ہیں، مساوات اور اسلام کے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن در حقیقت ایک ہی سیاسی نقطۂ نظر کے لوگ ایک ہی سوشل بیک گراؤنڈ کے لوگ سیاسی میدان کی اونچی پوزیشنوں پر بیٹھے ہیں۔ عوام بھی ووٹ اِنہی کو دیتے ہیں۔ ایک استحصالی گروہ سے لوگ تنگ آتے ہیں تو دوسرے استحصالی گروہ کی گود میں جا کودتے ہیں۔ لیڈروں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے، نعرے لگاتے ہلکان ہو جائیں گے لیکن استحصالی گروہوں کے نرغے سے باہر نہیں آئیں گے۔ فرشتوں نے آ کے تو نظام ٹھیک نہیں کرنا۔
عوام میں اور خواہشات ہوں گی تبدیلی کی خواہش مر چکی ہے۔ بس آٹا مناسب داموں ملے، چینی‘ پتی اور مضرِ صحت خوردنی تیل مناسب قیمتوں پہ دستیاب ہوں اور بجلی کے بل بہت زیادہ نہ ہوں۔ عوام کے بیشتر حصے کی خواہشات اِن چیزوں تک محدود ہو چکی ہیں۔ سیاست میں بھی وہ چاہ نہیں رہی، تبدیلی تو دور کی بات ہے‘ لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ تبدیلی کی خواہش رکھنے والے گروہ ضرور ہیں اور اُن کی طرف خیال جائے تو دل و دماغ لرز جاتے ہیں۔ تحریک طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) بنیادی تبدیلی چاہتی ہے۔ مدرسے والے تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں۔ سیاسی افق پہ نمودار ہونے والی نئی سیاسی اور مذہبی قوت، ٹی ایل پی، تبدیلی کی خواہش رکھتی ہے‘ لیکن جو تبدیلی کا خواب اِن گروہوں کا ہے پاکستان کی بیشتر آبادی ہضم کر سکتی ہے؟ خیال البتہ یہ بھی آتا ہے کہ ہم اِتنے بگڑ چکے ہیں کہ ہمارا علاج یہی ہے کہ مغربی سرحد پر ٹی ٹی پی زور پکڑے اور پنجاب میں ٹی ایل پی اپنا رنگ دکھائے۔ پھر سمجھ لگے گی ہمیں کہ ہماری حالت کیا ہے اور ہمارے ساتھ ہونے والا کیا ہے۔
مڈل کلاسیئے اور برگر فیملیوں والے اِس بات پہ مضطرب رہتے ہیں کہ انتہا پسندی کے مظاہر جب اِتنی گھناؤنی صورت اختیار کر چکے ہیں تو انتہا پسندی کو سخت ہاتھوں سے کچلا کیوں نہیں جاتا؟ اِس لیے کچلا نہیں جاتا کہ اوپر کے طبقات انتہا پسندی کے اثرات کو محسوس ہی نہیں کرتے۔ معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے اوپر کے طبقات بے نیاز ہیں۔ شہروں میں اُن کی علیحدہ بستیاں ہیں۔ دروازوں پہ غریب علاقوں سے آئے چوکیدار کھڑے ہوتے ہیں۔ واجبی سی تنخواہ پہ رات بھر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں اُن کے بچوں کے سکول علیحدہ ہیں۔ یہاں کے سکولوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو اِن میں سے بہت سے باہر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں چلے جاتے ہیں۔ فیملیوں میں سے کچھ لوگ باہر آباد ہیں۔ بچے بھی جب پڑھ جاتے ہیں تو اُن میں سے بہت سے دیار غیر رہ جاتے ہیں۔ اوپر کے طبقات کے ہسپتال الگ ہیں۔ اِن کے آنے جانے کا بندوبست الگ ہے۔ پٹرول کی قیمت جتنی بڑھتی جائے اِنہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ بڑے شہروں میں ایسے ریسٹورنٹ ہیں جہاں فیملی کھانا کھانے جائے تو دس بارہ یا بیس ہزار لگ جاتے ہیں۔ امیر لوگوں کے ماتھوں پر شکن تک نہیں آتی۔
حالیہ دنوں میں لاہور سے شروع ہونے والا جو احتجاج تھا‘ اُس کی تپش اوپر کے طبقات نے کہاں محسوس کی ہو گی۔ لاہور کے جس علاقے میں ٹی ایل پی کا مرکز واقع ہے وہاں گھروں میں انگریزی بولنے والے طبقات کا جانا ہی نہیں ہوتا۔ جنہیں پوش علاقے کہتے ہیں اُن میں رہنے والے کہاں یتیم خانہ چوک یا اُس سے ملحقہ علاقوں میں جاتے ہیں؟ احتجاج کرنے والے شاہدرہ سے ہوتے ہوئے براستہ جی ٹی روڈ وزیر آباد کی طرف آئے۔ آج کل جنہیں ہم بڑے لوگ کہہ سکتے ہیں وہ اِس راستے کا استعمال نہیں کرتے۔ دورانِ احتجاج وزیر آباد والا چناب کا پل بند رہا ہو گا لیکن لاہور کے پوش علاقوں میں رہنے والوں کو اِس سے کیا فرق پڑا ہو گا۔ ہمارا معاشرہ بری طرح بٹ چکا ہے۔ ایک پاکستان خواص کا ہے ایک عوام کا اور اِن دونوں میں کوئی میل نہیں۔ اسلام آباد اور لاہور کا سفر بذریعہ موٹر وے یا ہوائی جہاز ہوتا ہے۔ ریل گاڑیوں میں کیا ہو رہا ہے یا جی ٹی روڈ پر کیسے حالات ہیں بہت سے پاکستانیوں کا اِس سے کوئی سروکار نہیں۔ حکومتوں کو پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ حکومتیں خوش ہوتی ہیں کہ جو افورڈ کر سکتے ہیں موٹر کاریں خریدتے ہیں۔ وزرائے خزانہ بھی ہمارے نصیب میں ایسے آتے ہیں جو پھولے نہیں سماتے جب ملک میں موٹر کاروں کی تعداد بڑھ جائے یا عوام نے سیل فون پکڑے ہوں۔ اُن کے سامنے یہ ترقی کی نشانیاں ہیں۔
ایسے میں مستقبل کے بارے میں فکر کرنا چھوڑ دینا چاہئے۔ فکر اُس بات کی کریں جو آپ کی دسترس میں ہو۔ ملک کس بگاڑ کی راہ پر چل رہا ہے یہ بات بیشتر عوام کی دسترس سے باہر ہے۔ سیاسی لحاظ سے عوام کا کام صرف ووٹ دینا رہ گیا ہے۔ محض ووٹ کے استعمال سے کہاں نظام بدلتے ہیں۔ انقلاب اور لانگ مارچوں کی بات ہم کتنی آسانی سے کر دیتے ہیں۔ کچھ تو مطالعہ کر لیں کہ جہاں انقلاب آئے وہاں کیا کچھ نہیں برداشت کرنا پڑا۔
سیاسی اجارہ داریاں طاقت ور ہیں، لیڈر جو چاہیں اپنی جماعتوں میں کر سکتے ہیں۔ نوکر شاہی کے پاس طاقت ہے لیکن اِس طاقت کا کوئی تعلق عوام سے نہیں۔ ادارے اور محکمے طاقت ور ہیں۔ اپنے دائروں میں اپنی مرضی کرتے ہیں۔ عوام کے حق میں آواز اٹھنے والی کوئی نہیں۔ ہمارا معاشرہ منجمد ہو چکا ہے۔ ایسی بند صورت حال میں کچھ نئی قسم کی حرکت ہو رہی ہے تو وہ ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی طرف سے۔ عرض کر چکا ہوں کہ یہ سوچ کر دل میں خوف سا اٹھتا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اکابرین ملت اِس ملک کو کہاں تک لے آئے ہیں۔
اِسی لئے اِس نتیجے پہ پہنچنا آسان ہے کہ فکر کرنا فضول کی کارروائی ہے۔ اپنے حال میں مست رہنا ہی عقل مندی کا تقاضا ہے۔ صحت کا خیال رکھو، ٹینشن سے دور رہو اور فکر کرنی بھی ہو تو اپنی شاموں کے بارے میں کرنی چاہئے۔ شام ٹھیک گزر جائے، کھانے کو غذا صاف ملے اور جو شغل ہو سکے وہ انسان کرے، اِسی میں خوش رہنا چاہئے۔ جو سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کا مطمح نظر یہی ہوتا ہے کہ بس اپنی چوہدراہٹ قائم ہو، رعب وغیرہ ہو، اور جائز و نا جائز طریقے سے وسائل ہاتھ آئیں۔ عوام بھی اِن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے سیاستدانوں کے در پر حاضریاں دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ الیکشن آئیں تو ایک ماحول سا بن جاتا ہے کہ اِس کو ووٹ دینا ہے یا فلاں کو۔ سیاست دان بھی ایسے دغاباز ہو چکے ہیں کہ رہتے محلوں میں ہیں اور نعرے انقلاب کے لگاتے ہیں۔ داد دینی چاہئے اِن کی ہمت کو۔
ٹی ٹی پی افق پر ابھر رہی ہے۔ ٹی ایل پی اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ جہاں تک ریاست کی طاقت ہے وہ بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔