71ء کی جنگ کے یہی دن تھے۔ چھتیس لائٹ جس میں میں تب کپتان تھا لاہور کور کا حصہ تھی۔ یونٹ کی ایک بیٹری وزیر آباد پل کے تحفظ پہ مامور تھی۔ وہی پل جہاں خندقیں کھودنا پڑی تھیں ٹی ایل پی کی ایڈوانس روکنے کے لیے۔ ایک بیٹری راوی پل کے گرد تعینات تھی۔ تیسری سلیمانکی ہیڈورکس پر۔ چوتھی یعنی وہ بیٹری جس میں میں تھا بی آر بی کینال اور دریائے راوی کا جہاں میلاپ ہوتا ہے اُس پر ایک ہیڈ ورکس ہے جس کا نام سائفن ہے۔ سائفن اِس لئے کہ بی آر بی کینال کو اُس پوائنٹ پر دریائے راوی کے نیچے سے گزارا گیا ہے۔ چوتھی بیٹری ہماری وہاں تھی۔ دورانِ جنگ ضرورت محسوس کی گئی کہ طیارہ شکن گنوں کا ایک موبائل کالم ہونا چاہئے جو ضرورت پڑنے پر جگہ جگہ جا سکے۔ ہماری بیٹری میں سے آٹھ گنیں نکالی گئیں اور اُن کی کمانڈ مجھے سونپی گئی۔
دوسری طرف سے ہوائی جہازوں کا حملہ ہوتا اور کسی پل یا ریلوے لائن کو نقصان پہنچتا تو ہمارا موبائل کالم وہاں بھیجا جاتا۔ ایک روز مجھے کور ہیڈ کوارٹر بلایا گیا اور یہ کہا گیا کہ سلیمانکی ہیڈ ورکس کے قریب سے دریائے ستلج عبور کرکے ہندوستانی علاقے پہ حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ جہاں سے حملہ ہونا ہے اُس جگہ طیارہ شکن توپوں کی ضرورت ہو گی۔ ہم وہاں چل پڑے۔ کھلی جیپ میں ساری رات سفر کیا اور کہیں صبح اُس جگہ پر پہنچے۔ وہاں اطلاع ملی کہ حملے کی سکیم رہ گئی ہے۔ حکم ملا کہ پتوکی کی طرف جانا ہے۔ ہندوستانی طیاروں کے حملے سے ریلوے لائن کا ایک چھوٹا پل تباہ ہو گیا تھا اور اُس کی مرمت کی جا رہی تھی۔ وہی پورے رات کا سفر، کھلی جیپ اور دسمبر کی کڑاکے کی سردی۔ صبح پل کے قریب پہنچے۔ ہماری آمد کو دیکھ کر کسی قریب کے دیہات سے لوگ آنے لگے۔ سروں پہ اُنہوں نے تین چار گرم دودھ کے مٹکے اٹھائے ہوئے تھے اور ساتھ وہ کیک رس بھی لائے تھے۔ اُن کے آنے کا ہم نے شکر ادا کیا کیونکہ مسلسل سفر کی وجہ سے اُس وقت تک ہمارا راشن ختم ہوچکا تھا۔ میری افسری دیکھ کر میرے لیے پراٹھے اور آملیٹ تیار کئے گئے۔
بیشتر دن ہم وہاں رہے، یہ شاید جنگ کا آخری دن تھا۔ ڈھاکہ پر ہندوستانی فوج کا قبضہ ہو چکا تھا۔ وہیں ریلوے پل کے پاس میں نے جنرل یحییٰ کی تقریر سنی جس میں نیم مدہوش آواز میں اُنہوں نے اِس عزم کا اظہار کیا کہ گو ڈھاکہ میں شکست ہو چکی ہے جنگ جاری رہے گی اور ہم لڑتے رہیں گے۔ پل کا کام ختم ہوا تو حکم ملا کہ اب اِس بات کی تیاری ہو رہی ہے کہ ہندوستانی علاقے پہ حملہ لاہور کے شمال میں دریائے راوی کو عبور کرکے ہوگا۔ جہاں پہ فوجوں نے دریائے راوی کو عبور کرنا تھا وہاں ہماری گنوں نے تعینات ہونا تھا۔ صورتحال عجیب تھی۔ ایک طرف یہ خبریں کہ مشرقی محاذ پر شکست ہو چکی ہے اور پھر یہ آرڈر کہ حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ہماری گنوں کا قافلہ پھر سے چل پڑا۔ راستے میں خبر ملی کے شام اِتنے بجے جنگ بندی ہوگی۔ میں نے یونٹ کو فون کیا کہ جنگ بندی ہو رہی ہے تو حملہ کیسا؟ اور حملہ نہیں تو ہمارے قافلے کا وہاں جانے کا مطلب کیا؟ جواب آیا کہ جو آرڈر ملا ہے اُسی پر عمل کرو۔ پھر رختِ سفر باندھا اور کہیں اندھیرے میں اُس جگہ پہنچے۔ جنگ بندی سے پہلے خوب گولہ باری دونوں اطراف سے ہو رہی تھی۔ کئی روز بعد اُس رات میں آرام کی نیند سویا۔ صبح آرڈر ملا کے والٹن ایئر پورٹ پر جانا ہے‘ وہی ایئر پورٹ جس کی اب تباہی کی تیاری ہو رہی ہے۔
باقی یونٹ تو اپنے ٹھکانوں پر تھی، واحد میں اور میری گنوں کا قافلہ لاہور کے قریب تھا۔ ایک دو روز آرام کیا اور پھر یوں ہوتا کہ شام ڈھلے ہم لاہور کو نکل جاتے۔ تب بلیک آؤٹ تھا یعنی گھپ اندھیرا۔ گاڑیاں بھی چلتیں تو مدھم لائٹوں سے۔ یونٹ کے افسر سارے آگے تھے، کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل کاکڑ بھی کہیں آگے تھے۔ ہم اپنے بادشاہ آپ تھے، نہ کسی سے کچھ پوچھنا نہ کسی کو کچھ کہنا۔ وہ جو سردیوں کا ایک مہینہ گزرا اُس کی یاد آج بھی آتی ہے تو دل تڑپ سا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں سے شناسائی ہوئی ایک عدد دوستی بنی۔ والٹن ایئرپورٹ کے ایک کمرے پر ہمارا قبضہ تھا۔ ایک دفعہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ساتھ ہمارے ایک ایئر فورس کے آفیسر رہتے تھے۔ نہایت بھلے انسان تھے، ہم سے سینئر لیکن ہماری بے تکلفی کی دوستی ہو گئی۔ اپنے کرتب کرنے سے ہم کہاں باز آتے تھے اور اُن کو دیکھ کر ہمارے ایئر فورس کے ساتھی ہنسے بغیر نہ رہتے تھے۔
وہ زمانہ لاہور ہوٹل واقع میکلوڈ روڈ کے عروج کا زمانہ تھا۔ بڑے لوگ آتے تو فلیٹیز میں ٹھہرتے۔ باہر کے اضلاع سے سفید پوشوں کا ٹھکانہ لاہور ہوٹل ہوتا۔ کون سی رونق تھی جو اُس وقت لاہور میں دستیاب نہ تھی۔ آج کے نوجوانوں سے میں اِن چیزوں کا ذکر کرتا ہوں تو اُن کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں اور وہ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوا کرتا تھا؟ شام ڈھلے لاہور ہوٹل کے سامنے چند ایک میزبان کھڑے ہوتے تھے۔ آج کی زبان میں شاید اُنہیں ٹوریسٹ گائیڈ کہا جائے گا۔ آپ کی ٹیکسی رکتی تو میزبانوں میں سے ایک قریب آتا اور نہایت مؤدبانہ انداز سے پوچھتا کہ کیا خواہش ہے کیا درکار ہے؟ میزبان اگلی سیٹ پہ بیٹھ جاتے اور پھر راستہ بتاتے کہ یہاں سے مڑنا ہے یہاں سے سیدھا جانا ہے۔ اُن دنوں سمن آباد بھی آباد ہوا کرتا تھا۔ اُس کی اپنی ایک رونق تھی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج کی نسبت سب کچھ بڑے مہذبانہ انداز میں ہوا کرتا تھا۔ سلجھی ہوئی گفتگو کوئی اونچی آواز نہیں، کوئی زیادہ حساب کتاب بھی نہیں۔ زمانہ اور تھا، اُس کے اپنے وضع کردہ اصول تھے۔ بہرحال شام کی اِن آوارہ گردیوں کی وجہ سے ہماری دوستی شمشاد سے ہوئی۔ میرا مطلب غلط نہ لیا جائے، شمشاد مرد حضرات اور خواتین دونوں کا نام ہو سکتا ہے۔ شمشاد کا انداز اپنا تھا۔ رات گئے کمرے کے دروازے پہ دستک ہوتی اور پھر وہ چھوٹا سا کمرہ یوں سمجھئے جگمگا اُٹھتا۔ یاد رہے کہ اُس وقت والٹن ایئر پورٹ شہر سے دور سمجھا جاتا تھا یعنی آنے والے کا آنا سخت اندھیرے میں سے ہوتا۔
پھر ایک منحوس دن ہمیں بارڈر پر بلا لیا گیا اور ہمارے دلکش دن ختم ہو گئے۔ آج تک اِس بات کا افسوس ہے کہ بارڈر پر ہم چلے گئے اور اپنا کوئی پتا کسی کے ہاتھ نہ چھوڑ گئے۔ غیر موجودگی میں ہمارے دوست ایک دو بار آئے اور مایوس لوٹے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ رفاقت کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور کوئی پتا نہ چلا کہ اُن اداس شاموں کا ہمارا دوست کہاں گم ہو گیا ہے۔ ارمانوں سے بھری ہوئی زندگی ہماری رہی ہے۔ آج بھی کچھ یاد آتا ہے تو کلیجے میں درد سا محسوس ہوتا ہے‘ لیکن سب ارمانوں میں اُن اداس شاموں سے وابستہ اِس ارمان کی یاد آج بھی دل کو ستاتی ہے۔ بہت کچھ بھلا دیا اِن یادوں کو بھلا نہ سکے۔