خیبر پختونخوا میں جو ہوا ہے وہ اُس حشر کا ٹریلر ہے جو پی ٹی آئی کے ساتھ ملک بھر میں ہونا ہے۔ وجہ ایک ہی ہے کہ مخلوقِ خدا اِن کی نا لائقیوں سے تنگ آ چکی ہے۔ موقع ملا تو عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اِن کا یہی حشر یا اِس سے بد تر پنجاب میں ہو گا جب یہاں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔
سیاسی سے زیادہ یہ ایک نفسیاتی مار ہے جو پی ٹی آئی کو پڑی ہے۔ جیسے گدھیں ایک مردہ لاش کو نوچتی ہیں اب سے لے کر اگلے انتخابات تک پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ یہی کچھ ہونے والا ہے۔ نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اِس حکومت کو سنجیدگی سے لینا عوام کے بیشتر حصہ نے چھوڑ دیا تھا‘ لیکن جو کچھ خیبر پختونخوا میں ہو چکا ہے اور جو تین ماہ میں پنجاب میں ہونے والا ہے۔ اُسے یوں سمجھئے کہ حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔ نتائج قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔ معاشی حالات نے سنبھلنا نہیں۔ صورت حال بد سے بد تر ہوتی جائے گی اور یہ فنکار جو اقتدار میں بیٹھے ہیں قوم کو اپنی تقریریں ہی سناتے رہیں گے۔
بڑا سوال البتہ اِن فضول کے فنکاروں کی نا لائقی کا نہیں بلکہ اُن عاملوں کی کوتاہ بینی کا ہے جو اِنہیں اقتدار میں لے کر آئے۔ عاملوں نے سمجھ رکھا تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل یہی مسیحا ہیں۔ پلے کچھ تھا نہیں سوائے بڑھکوں اور دھمکیوں کے۔ اِنہی سے اب تک گزارہ کیا جاتا رہا ہے۔ پہلے دن سے لے کر آج تک نہ لہجہ بدلا ہے نہ گفتگو کا متن، وہی کرپشن کی رَٹ، اُسی عزم کا اظہار کہ لٹیروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ کام دھیلے کا نہیں، سمجھ اُس سے بھی کم لیکن روزانہ کی بنیاد پر فضول کی تقریریں۔ آخر یہ ناٹک کب تک چلنا تھا۔ اِن عقل مندوں کے ساتھ ظلم تو سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کا حکم نہ دیتی تو حشر کا میدان کے پی میں کہاں سے سجتا اور پی ٹی آئی یہ دن جو اِس پہ آن پڑا ہے کیسے دیکھتی۔
عامل بھی اپنا سر پکڑ کے بیٹھے ہوں گے۔ یہ سوچ ضرور گردش کر رہی ہو گی کہ اب کیا کریں، اب کس کو لائیں، کس گھوڑے پہ ہاتھ رکھیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سب کچھ آزمایا جا چکا ہے۔ قوم جمہوریت کا پاکستانی برانڈ بھگت چکی ہے۔ قوم نے طاقت ور صدر اور جذبے سے سرشار شاہ سوار دیکھے ہیں۔ جمہوریت اور آمریت کے تمام تجربات یہاں ہو چکے ہیں۔ کوئی سود مند ثابت نہیں ہوا، مرض کی شدت بڑھتی ہی گئی۔ اب ایک چیز رہ گئی ہے، مولوی صاحبان کی حکومت۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں صوبہ سرحد میں مذہبی جماعتوں پہ مشتمل حکومت کا ایک تجربہ کیا گیا تھا لیکن وہ نامکمل تھا۔ آدھی طالبان سوچ تو پاکستانی معاشر ے کی پہلے سے ہے۔ یہی رہ گیا ہے کہ مکمل طالبان سوچ کا تسلط مملکت پہ کر دیا جائے۔ ہوش ٹھکانے آ جائیں سب کے۔ عاملوں کو بھی سمجھ آ جائے کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں اور جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں اُن کی بھی خوب تربیت ہو جائے۔
معاشروں کو تباہ ہوتے ہم نے دیکھا ہے، بلکہ قریب سے دیکھا ہے۔ آج کے پاکستانی نوجوان سوچ نہیں سکتے کہ افغانستان کا معاشرہ کیسے ہوا کرتا تھا، کابل کتنا خوبصورت شہر تھا۔ دنیا بھر کے سیاح افغانستان کا رخ کرتے تھے۔ ہِپی قسم کے لوگ مہینوں کابل میں قیام کرتے تھے۔ اُس زمانے کے ہِپی چرس کا شوق رکھتے تھے اور اُس زمانے کے کابل میں چرس آسانی سے دستیاب ہوا کرتی تھی۔ کابل میں خواتین مغربی لباس زیبِ تن کرتی تھیں اور یہ گناہ گار آنکھیں اِس بات کی گواہی دے سکتی ہیں کہ خواتین مغربی لباس میں بازاروں میں گھومتیں اور اُن کی طرف کسی کی دوسری نگاہ نہ جاتی۔ افغان قبائلی بھی بازاروں میں گھومتے اور فیشن ایبل لڑکیاں بھی اور یہ نارمل سمجھا جاتا تھا۔ سب سے بڑا ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل تھا اور اُس میں کیا رونق ہوا کرتی تھی۔ دو عدد اٹالین ریستوران کابل میں چلتے تھے جن کی بہت گاہکی تھی۔ اُن میں افغانستان میں کشید سامانِ راحت دستیاب ہوتا تھا۔ یہ مناظر ہماری آنکھوں نے دیکھے اور پھر اُس پُر سکون معاشرے پر کسی کی نگاہِ بد پڑی اور سب کچھ برباد ہوتا چلا گیا۔ مغرب زدہ اشرافیہ کو افغانستان سے بھاگنا پڑا۔ روسی فوج آ گئی حالات کو سنبھالا دینے کے لیے لیکن حالات نہ سنبھلے۔ پھر نام نہاد مجاہدین افغانستان کے وارث بن گئے اور اُن کی حرکات ایسی رہیں کہ اُن کے مد مقابل طالبان تحریک کھڑی ہو گئی۔ باقی کہانی ہمارے سامنے ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی آسمانی ضمانت نہیں ہوتی کہ حالات ایسے ہی رہیں گے۔ ایران میں بھی سب کچھ ایسے ہی ہل کے رہ گیا تھا۔ کیا طمطراق محمد رضا شاہ پہلوی بادشاہت کا تھا‘ لیکن جب گئی اُس کے نشانات باقی نہ رہے‘ اور وہاں بھی مولوی اقتدار پہ قابض ہو گئے۔ جیسے افغانستان کی اشرافیہ بھاگی ایران میں بھی یہی کچھ ہوا۔ آج اُس اشرافیہ کی باقیات تمام مغربی ممالک میں بکھری پڑی ہیں۔
لازم نہیں کہ یہی کچھ پاکستان میں ہو گا لیکن حالات کی بتدریج خرابی سے دل میں خوف ضرور اُٹھتا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ جب سب تجربات ناکام ہو چکے ہیں تو آنے والے کون سے تجربات ہوں گے؟ کتنے اور ٹوپی ڈرامے ہماری تقدیر میں لکھے ہوئے ہیں؟ افغانستان میں پہلا اور بد تر گناہ سردار داؤد کا تھا جنہوں نے اپنے کزن بادشاہ ظاہر شاہ کے خلاف بغاوت کے بیج بوئے۔ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اُس بغاوت کی ضرورت کیا تھی۔ ایران کی بادشاہت میں اِتنا گھمنڈ آ چکا تھا کہ انتقام آسمانوں سے نازل ہوا۔ ہمارے ہاں پرابلم عاملوں کی سمجھ کا ہے۔ ہر چیز میں ہاتھ ڈالنا ہے اور ہر چیز کرنے کے بعد یہ ثابت کرنا ہے کہ سمجھ ادھوری اور نا مکمل تھی۔ لیکن پھر بھی اعتقاد یہ ہے کہ ہماری سمجھ سب سے بھاری ہے۔ ابھی تک اِس مرض کا علاج نہیں ڈھونڈا جا سکا۔
اگلے انتخابات تک ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ اِتنی بھر پور نالائقی کو پاکستانی عوام دوام نہیں بخش سکتی۔ اِن کا جانا تو ٹھہرا ہے لیکن اِس ڈیڑھ سال کے دورانیے میں پاکستان اِسی فالج زدہ حالت میں رہے گا۔ نہ اِن سے جان چھوٹے گی کیونکہ ان کا اقتدار آئینی حیثیت رکھتا ہے، نہ قوم آگے کی طرف کوئی حرکت دکھا سکے گی کیونکہ کسی قسم کی مثبت حرکت اِن کے بس کی بات نہیں۔ یہی لکھا ہے تو اِسے کون جھٹلا سکتا ہے۔ اگر چوہتر سال یوں ہی گئے تو اِس تخمینے میں ایک یا ڈیڑھ سال کے اضافے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پھر دیکھتے ہیں کون سا مداری ناٹک کرنے قوم کے سامنے آتا ہے۔ سیاست سے بیزاری کسی خلا میں نہیں ہوئی۔ بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ شروع میں ظاہر ہے امیدیں باندھتے تھے، بڑی گہری امیدیں‘ لیکن بہت کچھ جاننے کے بعد نتیجہ عیاں تھا کہ اِس دھرتی پر امیدیں باندھنا بے کار کام ہے۔ جن کی دیہاڑیاں لگی ہوئی ہیں خوش نصیب ہیں اور عقل مند وہ ہیں جو اپنی شاموں کا خیال رکھتے ہیں۔