یوں تو ایک سیاسی جماعت کا وہ رعب و دبدبہ نہیں رہا جو ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا‘ وہ زمانہ جب اُن کے ڈنڈوں کی دھاک بیشتر تعلیمی اداروں پہ بیٹھی ہوئی تھی‘ لیکن داد دینا پڑے گی ایک بات پہ کہ وہ جماعت یا اُس کا طلبہ ونگ اب تک ڈٹا ہوا ہے۔ نئے سال کی شام آنے کو ہوتی ہے تو خاص طور پہ لاہور میں اس ونگ کی طرف سے ایک بیان جاری ہو جاتا ہے کہ نئے سال کی شام کوئی غیر اسلامی حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔ غیر اسلامی حرکت سے مراد نئے سال کی شام کا شغل میلہ ہے۔ دسمبر ختم ہونے کو ہے اور ایسا اعلان ابھی تک نہیں آیا لیکن سابقہ ریکارڈ کو دیکھ کے امید لگائی جا سکتی ہے کہ اِس قسم کی تنبیہ ضرور آئے گی۔ ویسے دیکھا جائے تو ایسے اعلانات کی ہمارے ملک میں اب ضرورت نہیں رہی۔ بڑے ہوٹلوں والے سیانے لوگ ہوتے ہیں، وہ کہاں یہ رِسک لے سکتے ہیں کہ نئے سال کی شام کو ایسا ماحول بنے جس کی وجہ سے جذبے سے سرشار نوجوان ہاتھ میں ڈنڈے لہرائے ہوٹل پہ دھاوا بول دیں۔
کرسمس یا نئے سال کی شام کی تقریبات میں ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ ایسا ماحول بغیر لوازمات کے پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا لوازمات کا بندوبست ہونا ضروری ہے۔ لوازمات کو تو چھوڑ ہی دیجئے، وہ تو کب سے شجر ممنوعہ قرار دیئے جا چکے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے کچھ لوگ ضروری سمجھتے ہیں کہ سہمے ہوئے ہوٹل والوں کو پھر سے خبردار کر دیا جائے۔ غالباً اعتقاد کا معنی یہاں تک محدود ہو کے رہ گیا ہے کہ کسی قسم کے موج میلہ کی جسارت نہ کی جائے۔ معاشرے میں باقی جو ہو رہا ہے وہ ہوتا رہے اُس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ معاشرے میں موجود برائیوں کی فہرست بنائی جائے تو لمبی ہو جائے گی لیکن ٹھیکیدارانِ اخلاقیات کو اِن برائیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ لوٹ مار ہو ہر قسم کی بد دیانتی ہو رہی ہو اُس پہ دھیان نہیں جائے گا۔ بس کوئی مسکرانے یا ہنسنے کی کوشش نہ کرے۔
نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک خاص قسم کا معاشرہ ہم نے بنا ڈالا ہے۔ اِس معاشرے کا خاص تقاضا یہ ہے کہ منافقت بھرپور انداز سے ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ جن کے پاس مال منتر کی کمی نہیں وہ شغل کرنے سے نہیں رہتے البتہ ماحول کو دیکھتے ہوئے اُن پہ یہ احتیاط لازم ہو جاتی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے بند دروازوں کے پیچھے کیا جائے۔ جہاں نئے سال کی شام بڑے ہوٹل تقریباً ویرانی کا منظر پیش کرتے ہیں شہروں کے امیر علاقوں میں بند دروازوں کے پیچھے نیو اِیئر نائٹ کی پارٹیوں کی کمی نہیں ہوتی۔ ہر چیز دستیاب ہوتی ہے۔ کس کس چیز کا نام لیا جائے۔ اِن اشیاء کی قیمتوں کے بارے میں سنیں تو ہوش اڑ جائیں۔ ظاہر ہے مال دولت والے ہی یہ سب کچھ افورڈ کر سکتے ہیں۔ باقی گناہ گاروں کو تو حب الوطنی کا سہارا لینا پڑتا ہے یعنی میڈ اِن پاکستان پہ ہی تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ بہر حال نیو ایئر نائٹ کی عیاشی ایک محدود سے طبقے کے لئے ہے۔ اس نیکی سے بھرپور معاشرے نے عوام کی اکثریت کو نیو ایئر نائٹ جیسے چُلبلوں کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ دیگر ممالک میں صورت حال ذرا مختلف ہے۔ ہر طبقے کے لوگ نیو ایئر نائٹ مناتے ہیں۔ یہ ہمارا کمال ہے کہ بہت سی چیزیں ہم نے نیچے طبقات کی دسترس سے دور رکھ دی ہیں۔
ہم جیسوں نے وہ پرانا پاکستان دیکھا تھا جو اب یادوں سے اوجھل ہو چکا ہے۔ ہماری عمر کے لوگ جب اُس پاکستان کی بات کرتے ہیں تو آج کے نوجوان عجیب نظروں سے ایسی گفتگو سنتے ہیں۔ پاکستان میں امیر اور غریب تب بھی تھے، امیری تھی تو غربت بھی تھی، لیکن کیا امیر اور کیا غریب کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے تھے۔ آج کا پاکستان تو یوں لگتا ہے صرف امیروں کے لئے ہے۔ شغل میلے کا اہتمام ہر ایک کے بس کی بات نہیں رہی۔ حساب تو یہاں درج کرنا ممکن نہیں کہ فلاں چیز پہ کتنا خرچہ آئے گا، ہوٹل کے کمروں پہ کیا اخراجات آ سکتے ہیں اور اوپر سے چھاپوں کا ڈر۔ یہ کیا اصطلاح ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں کہ فلاں کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ ایسے خوش نصیبوں کے لئے نہ خرچے کی فکر نہ پولیس کے چھاپوں کا ڈر۔ ریاست قائم تو ہوئی اسلام کے نام پر لیکن جس قسم کی اونچ نیچ یہاں پائی جاتی ہے اور جو گہری ہو رہی ہے وہ کسی تصورِ انصاف پہ پوری نہیں اترتی۔
بہرحال کیا کیا جائے، معاشرہ ایسے بن چکا ہے اور گزارہ اِسی کے ساتھ کرنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کے پاس سب کچھ ہے اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ کرسمس سے لے کر نیو ایئر شام تک اِس نیکی والے ملک کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ پاکستانی دلوں میں جب ایسی سرکشی پیدا ہوتی ہے تو عموماً دبئی نظروں کے سامنے آتا ہے‘ اور دبئی بھی کیا خوب جگہ بن چکی ہے۔ یہ ہمارے پرانے پاکستان کی طرح ہے، امیروں کے لئے سب کچھ اور جو اِتنے امیر نہیں یعنی جن کے وسائل قدرے محدود ہیں‘ اُن کا بھی خوب گزارہ چل جاتا ہے۔ اِس بات کا بھی اقرار ضروری ہے کہ دبئی کی جو ثقافت بن چکی ہے‘ اُس میں پاکستانیوں کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔ اہلِ ثقافت جن کا تعلق لاہور جیسے شہر سے ہے یا اُن مخصوص علاقوں سے جن کی ایک زمانے میں خاصی شہرت ہوا کرتی تھی اُن میں سے بہت سے لو گ موقع ملتے ہی فنونِ لطیفہ کے حوالے سے دبئی کا رخ کرتے ہیں۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، جس فنونِ لطیفہ کے میدان کا ذکر ہو رہا ہے اِس میں کام کرنا اِتنا آسان نہیں۔ بھرپور محنت درکار ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے دیہاتوں میں پھیری والے آتے ہیں، پھیری لگائی اور کچھ پیسے کمائے، دبئی جانے والے بھی یوں سمجھئے پھیری لگانے جاتے ہیں۔ محنت کی، پیسہ کمایا اور پھر واپس آ گئے۔
کوئی ہم سے پوچھے کہ اگر دبئی میں سب کچھ ہو سکتا ہے، دنیا جہاں کے سیاح وہاں آتے ہیں، دنیا کا پیسہ دبئی میں لگتا ہے اور ساتھ ہی میدانِ ثقافت بھی ہر لحاظ سے آباد ہے، ہمیں کس جانور نے کاٹا ہے کہ اِن سب چیزوں سے محروم ہیں۔ معیشت ہر لحاظ سے زبوں حالی کا شکار ہے، مانگے کے پیسوں پہ ہم جی رہے ہیں اور ساتھ ہی ہم نے ایک گھٹن والا معاشرہ قائم کر لیا ہے۔ سچ پوچھئے یہ سب کچھ سمجھ سے بالا تر ہے۔ جس قسم کی محنت اِس معاشرے میں ہونی چاہئے وہ یہاں نظر نہیں آتی اور شغل کی تو بات ہی نہ کیجئے۔ اُس کا تصور ہی اِس دھرتی سے غائب ہو چکا ہے۔
اب اِس خبر کا ملاحظہ کیجئے، چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار نے اعلان فرمایا ہے کہ گلبرگ کے سنٹر سے ڈی ایچ اے تک سگنل فری راہ داری بنے گی جس پہ لاگت آٹھ ارب روپے آئے گی۔ اندازہ لگایئے کہ جو علاقے پہلے ہی پوش سمجھے جاتے ہیں اُن کے لئے مزید آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ باقی لاہور بھاڑ میں جائے، بس امیروں کے علاقے ٹھیک ہونے چاہئیں۔ پہلے تو سڑکوں کو موٹر کاروں سے بھر دیا ہے۔ اور پھر اِن کار والوں کی آسانیوں کے لئے خرچے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارا تصورِ ڈویلپمنٹ ہے۔