ویسے تو ہمارے وزیر اعظم کے بہت سے انقلابی اقدامات ہیں لیکن اِن میں نمایاں رحمت للعالمین اتھارٹی کا قیام ہے۔ اِس اتھارٹی کے بننے سے یہ امید پیدا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے گوناگوں مسائل کا حل نکل آئے گا۔ یوں تو اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے اور یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ مفتیانِ دین کی کمی ہمارے معاشرے میں نہیں۔ علمائے کرام اور شیخ العظام کی تعداد اپنی جگہ خاصی ہے اور ان کا اِتنی تعداد میں موجود ہونا قوم کے لئے کسی غنیمت سے کم نہیں‘ لیکن جہاں اسلامی نظریاتی کونسل اور علمائے کرام کی اپنی افادیت ہے رحمت للعالمین اتھارٹی کا قیام ان سے بڑھ چڑھ کے ہے۔
نیا سال شروع ہوتے ہی اِس اتھارٹی کے تحت اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ظاہر ہے وزیر اعظم تو موجود تھے ہی لیکن ساتھ ہی اتھارٹی کی دعوت پہ دنیا کے چاروں کونوں سے بڑے بڑے ناموں کو بلایا گیا تھا۔ ہماری لا علمی ہی سمجھئے کہ اِن ناموں کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں رکھتے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ لا علمی اِتنی زیادہ ہے کہ یہ نام پہلے کبھی سنے نہ تھے لیکن اخبارات میں جو اِس کانفرنس کے حوالے سے رپورٹیں شائع ہوئی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب کے سب بڑے اسلامی سکالرز ہیں۔ جو باتیں کانفرنس میں سامنے آئیں اُن سے ہم جیسے بھٹکے انسانوں کی اصلاح اور راہنمائی کا سامان بہت ملتا ہے۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے وہی کچھ کہا جو روزانہ کی بنیاد پہ پچھلے تین ساڑھے تین سال سے کہہ رہے ہیں کہ مسلم دنیا کا بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے ایک اور چیز کہی کہ دوسرا بڑا مسئلہ جنسی جرائم کا ہے۔ اُن کے مطابق ایسے جرائم پاکستان جیسے معاشرے میں بڑھ رہے ہیں۔
دیگر سکالرز نے انٹرنیٹ اور اُس کے اثرات پہ خاصی روشنی ڈالی۔ اُن کے مطابق انٹرنیٹ پہ جو مواد مہیا ہو جاتا ہے اُس کا منفی اثر نوجوان ذہنوں پہ پڑتا ہے جس سے منفی رجحانات جنم لیتے ہیں۔ اِن ممتاز سکالرز کی رائے یہی تھی کہ انٹرنیٹ سے پیدا شدہ ذہنی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ باتیں سبق آموز ہیں اور اِن سے انکار ممکن نہیں۔
ایک مخمصہ البتہ یہ ہے کہ جہاں انٹرنیٹ پہ بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو ملتا ہو گا۔ تاثر تو ہمیں یہی ملتا ہے کہ انٹرنیٹ کے مواد کے بارے میں ہم گناہگاروں سے زیادہ کانفرنس میں بلائے گئے مہمانانِ گرامی جانتے ہیں‘ یعنی انٹرنیٹ پہ موجود چیزوں کے بارے میں اُن کی نالج ہم سے بہت وسیع لگتی ہے۔ یہ اُن کے صاحبِ علم ہونے کی نشانی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم اپنے آپ کو پھر کمزور ہی سمجھیں گے۔ ظاہر ہے انٹرنیٹ پہ بہت غلط مواد بھی ملتا ہے لیکن اپنی تمام تر دیگر غلط کاریوں کے باوجود اُس قسم کا مواد دیکھنے کو کبھی جی نہیں چاہا۔ یہ جسے پورنوگرافی کہتے ہیں یقین مانیے دل میں یہ شوق کبھی نہیں پالا۔ معاشرہ صحت مند ہو، تعلیمی نظام اچھا ہو، تو ایسی چیزوں پہ خود بخود کنٹرول ہو جاتا ہے۔ باہر کی درسگاہوں میں نوجوانوں کیلئے تفریح کا سامان بہت ملتا ہے۔ یہ ہم ہیں کہ گزارہ انٹرنیٹ پہ کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک بے راہروی کا تعلق ہے بے حد افسوس و ندامت سے کہنا پڑتا ہے کہ اُسے ڈھونڈنے کی تمنا دل میں ہمیشہ رہی‘ لیکن ہمارا تو رونا ہی یہ ہے کہ جتنی بے راہروی ایک صحت مند معاشرے میں ہونی چاہئے اُس کا تو ستیاناس ہم نے کر دیا ہے۔ نیک اور پارسا بننے کے چکر میں معاشرے کو ہم نے ایک نفسیاتی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔ اس کے باوجود کہ تاریخِ انسانی بتاتی ہے کہ کسی نہ کسی حد تک بے راہروی انسانی معاشروں اور انسانی تہذیب کا حصہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ عقل مند معاشرے بے راہروی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش نہیں کرتے‘ یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔ مہذب معاشروں میں اِس کے بجائے بے راہروی کی روشوں کو ممکن حد تک کنٹرول یا ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ چین‘ جاپان‘ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے بیشتر ممالک میں جن حرکات کو ہم بے راہروی کے زُمرے میں سمجھتے ہیں وہ بھرپور طریقے سے موجود ہیں‘ لیکن یہ کوشش رہتی ہے کہ یہ سب کچھ کسی ڈسپلن یا پابندی کے دائرے میں رہے۔ مثال کے طور پہ دبئی میں کیا کچھ نہیں ہوتا، سب کچھ چلتا ہے، لیکن قوانین ایسے ہیں کہ آپ آپے سے باہر نہ ہوں اور سڑکوں پہ تماشا نہ لگائیں۔ یورپ امریکہ میں ہر چیز ہو گی لیکن کسی دائرے میں۔ اور جہاں جسے ہم بے راہروی کہہ سکتے ہیں موجود ہے‘ ساتھ ہی ساتھ اُن معاشروں میں تعلیم اور ریسرچ بھی ہے اور سائنسی ترقی کے ایسے کرشمے ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یعنی اُن معاشروں میں ایک صحت مند توازن دیکھا جا سکتا ہے، علم و کتب بھی طاؤس و رباب بھی۔
ہمارا مسئلہ الٹا ہے، نیکی اور پارسائی کی باتیں بہت، ہمہ وقت کوشش یہ کہ معاشرے بالکل پاک صاف ہو جائیں جو کہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اللہ کے خاص بندوں کو چھوڑ کے عام انسانوں کے تشکیل کردہ معاشروں میں تمام نیکیوں کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حد تک برائی کا ہونا ایک قدرتی امر سمجھا جاتا ہے۔ ان پارسائی کے ڈھنڈوروں کی افادیت دیکھ لیجئے کہ ہمارے معاشروں کا شمار دنیا کی پچھلی صفوں میں ہوتا ہے۔ تعلیم میں پیچھے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے، عقل اور سمجھ میں پیچھے، وعظ و نصیحت میں سب سے آگے۔ اپنا کام ہوتا نہیں دنیا کی اصلاح کی فکر رہتی ہے کہ دنیا میں خرابی کیا ہے اور خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم پاکستان کی ہمت کو البتہ داد دینا پڑتی ہے۔ حکمرانی کے زمرے میں خاصی ناکامی، ناسمجھی ایسی کہ شریکِ سفر بھی شرمندہ لیکن نصیحت کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔
غور سے دیکھا جائے تو اصل گناہ بے راہروی نہیں کہ وہ تو انسانی مزاج کا حصہ ہے، اصل گناہ بے حیائی ہے اور مجاہدین ملت سے لے کر ٹھیکیداران حب الوطنی تک کیلئے انکار کرنا مشکل ہوگا کہ ہمارے ہاں تمام تر خوبیوں کے ہمراہ بے حیائی بھی حد درجے کی ہے۔ بے حیائی وہ نہیں جس کا ذکر رقص کی محفلوں یا مے خانوں کے حوالے سے عموماً کیا جاتا ہے بلکہ وہ جو زیادہ سنگین نوعیت کی ہے۔ رشوت لیتے ہوئے کسی کو یہاں شرم آتی ہے؟ قومی وسائل پہ ڈاکہ ڈالنے سے کسی کا ہاتھ رکا ہے؟ جھوٹ، فریب، دوغلا پن، دھوکہ دہی ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔ ریاست کی تمام پالیسیاں ایسی ہوں جن سے مراعات یافتہ طبقات کی مراعات بڑھیں اور نچلے طبقات کی لاچاری میں اضافہ ہو، ملت کی اِس سمت سے کسی کو کبھی کوئی پریشانی ہوئی ہے؟ پاکستان کو چھوٹی موٹی بے راہروی نے نہیں اِس بڑی اور اصل بے حیائی نے مارا ہے اور یہ بے حیائی تب سے ہے جب انٹرنیٹ کا کوئی وجود نہ تھا۔ پاکستانی مرض انٹرنیٹ کی ایجاد نہیں ہمارا اپنا تخلیق کردہ ہے۔
شیخ و زاہد کا کمال ہے کہ چھوٹی وارداتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ مسئلہ تو اِس قوم کا بڑی وارداتوں کا ہے۔ اُس طرف کسی کا دھیان جاتا نہیں۔ براہِ کرم ہمارے اخلاق کو رہنے دیجئے۔ قوم کے بارے میں سوچئے، اس کا حلیہ کیا کر دیا ہے۔ کانفرنس بلانی ہے تو قوم کی نجات کے بارے میں بلوائیے۔