افغان طالبان ہمیں حقیقت پسندی کا سبق سکھا رہے ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت کی طرح وہ بھی پاک افغا ن سرحد پہ باڑ لگانے کے خلاف ہیں۔ پرانی حکومت نے تو صرف زبانی کلامی مخالفت کی تھی‘ طالبان لڑائی جھگڑے تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک دو مقامات پہ ناخوشگوار واقعات ہو چکے ہیں۔ پاکستان مسئلے کو اچھالنا نہیں چاہتا تھا، لہٰذا یہاں سے یہی کہا گیا کہ افغان طالبان سے رجوع کر کے بات چیت سے مسئلے کو حل کیا جائے گا‘ لیکن طالبان کا مؤقف سخت رہا اور وزیرِ دفاع سے لے کر ذبیح اللہ مجاہد تک‘ جو طالبان کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں‘ سب نے سخت لہجے میں باڑ لگانے کی مخالفت کی اور دیرینہ افغان مؤقف دہرایا کہ یہ باڑ قبیلوں اور خاندانوں کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ اِن واقعات کے بعد پاکستان نے بھی سخت مؤقف اپنایا ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے اِس بات کا اعادہ کیا ہے کہ باڑ تقریباً 94 فیصد مکمل ہو چکی ہے اور اِس پہ کام جاری رہے گا۔
اِس سارے قصے میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، شروع دن سے یعنی سن 47ء سے کسی افغان حکومت نے پاک افغان سرحد‘ جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہاجاتا ہے‘ کو تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان کا مؤقف یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن ایک مصنوعی بارڈر ہے جسے انگریز راج نے افغانستان پہ زبردستی مسلط کیا۔ حیرانی اگر ہے تو پاکستانی مؤقف پہ ہونی چاہئے۔ پہلے افغان مجاہدین اور پھر طالبان کے ہم سب سے بڑے ٹھیکے دار اور ہمدرد بنے رہے ہیں۔ اپنے آپ کو نقصان پہنچا کے ہم نے اُن کی مدد کی۔ جہاد کے ڈھول اِتنے افغانوں نے نہیں پیٹے ہوں گے جتنے کہ ہم نے۔ اپنے مسائل نے حل کیا ہونا تھا اُن کی نزاکت اور سنگینی بڑھتی ہی رہی لیکن پاکستان کے فیصلہ ساز اور شاہسوار اِس خواب خرگوش میں مبتلا رہے کہ ہم اسلام کا جھنڈا نہ صرف افغانستان بلکہ وسطی ایشیا میں بھی گاڑنے جا رہے ہیں۔ روسی فوج آئی تو ہم نے افغانوں کے لئے سرحد کیا اپنے دل و دروازے بھی کھول دیئے۔ آٹومیٹک اسلحہ یہاں کہاں ہوتا تھا۔ ہم تو بارہ بور سات ایم ایم اور تھری ناٹ تھری بندوقوں پہ گزارہ کرتے تھے۔ افغان جہاد کے سبب ہم کلاشنکوف اور دیگر ایسے ہتھیاروں سے آشنا ہوئے۔ ہیروئن جیسی موذی لعنت پاکستان کے شہروں اور قصبوں میں عام پائی جانے لگی۔ افغان پناہ گزین آئے اور آج تک تیس لاکھ یا اُس سے زائد ہماری دھرتی پہ آباد ہیں۔ جب جنگیں ہوتی ہیں تو پناہ گزین آتے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے شامی باشندوں نے بحیثیت پناہ گزین ترکی کا رخ کیا‘ لہٰذا یہاں افغانوں کا آنا کوئی انوکھی بات نہیں‘ لیکن جہاں ایران نے افغانوں کو مخصوص کیمپوں میں رکھا‘ ہم نے اُنہیں کھلی چھٹی دی کہ کاروبار کریں، جہاں جانا ہے جائیں، ٹرک چلانے ہیں تو افغان نمبر پلیٹوں سے ایسا کریں اور بڑے بڑے کیمپ بھی بنے جہاں آج تک خاصی آبادی افغانوں کی موجود ہے۔
ہمارے فیصلہ سازوں کی بھول البتہ یہ تھی کہ وہ سمجھ بیٹھے کہ اس کے بعد افغان دلوں میں ہمارے لئے نرم گوشہ پیدا ہو گا۔ کچھ خوابوں میں بسنے والے یہاں تک سمجھ بیٹھے کہ مجاہدین یا طالبان پاک افغان سرحد کی حیثیت کو تسلیم کر لیں گے۔ افغان طالبان‘ جن کے لئے ہم مرے جا رہے تھے‘ نے اب ہمیں سیاست میں ایک سبق سکھایا ہے کہ جسے قومی مفاد کہتے ہیں وہ ہمدردی یا پیار محبت سے بدلا نہیں جاتا۔ ہم نے افغانوں کی امداد کی تو ٹھیک کیا، شاید کرنی چاہئے تھی، لیکن یہ دل میں بھول نہیں بٹھانی چاہئے تھی کہ شکر گزاری میں کوئی بھی افغان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کر لے گا۔ حیرانی کے بجائے ہمیں اِتنی سمجھ ہونی چاہئے تھی کہ افغان طالبان کا سرحدی باڑ کے بارے میں یہی مؤقف ہو گا جس کا بھرپور اظہار وہ کر رہے ہیں۔
اِس صورت حال میں ہمارا ردِ عمل کیا ہونا چاہئے؟ ایک یہ کہ ہمارے مؤقف میں کوئی لچک کی گنجائش پیدا نہ ہو۔ سرحد پہ اُن کی طرف سے شرارت ہو تو یہ نہیں کہ ہم توپیں کھول دیں لیکن مناسب جواب ہماری طرف سے ضرور آئے۔ دوسرا یہ کہ لگ بھگ چالیس سال سے جو ہم افغانوں کے مامے اور چاچے بننے کی کوشش میں رہے ہیں یہ نادانی اب بند ہونی چاہئے۔ اشتعال میں نہ آئیں نہ اشتعال دلائیں لیکن کوئی ضرور ت نہیں ہے کہ دنیا کے سامنے ہم افغان طالبان کے وکیل بنے پھریں۔ عمران خان، شاہ محمود قریشی اورعساکر کو اب افغان بخار سے نکلنا چاہئے۔ ہم اس بات کے ٹھیکیدار نہ بنیں کہ دنیا کو کہتے پھریں کہ افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے۔ باہر کی دنیا یہ فیصلہ اپنے سے کرے اور جب کرتی ہے تو ہم بھی ساتھ اُس فیصلے کے ہولیں۔ یہ جو لاؤڈ سپیکر اٹھا کے ہم دوسرے ممالک کو طالبان کے حق میں قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں‘ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔
جیسے ہم پاکستانیوں نے پاکستانی رہنا ہے افغانوں نے افغان رہنا ہے۔ ہم نے اُن کیلئے جو کیا وہ کیا لیکن وہ افغان ہی رہیں گے۔ تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی والا معاملہ دیکھ لیں۔ ہمارے فیصلہ ساز سمجھ رہے تھے کہ طالبان ہماری امداد سے اِتنے متاثر ہوں گے کہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کریں گے اور پاکستان کے خلاف اُسے کام نہیں کرنے دیں گے۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف کچھ نہیں کیا اور نہ کریں گے۔ ہماری عقل و سمجھ قائم رہے تو ہمیں اِس امر کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ طالبان ٹی ٹی پی کو ہمارے خلاف ایک پریشر کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کی سوچ ایک ہے، اِن کا نظریہ ایک ہے۔ دونوں کا رہبر و راہنما مرحوم ملا عمر ہے۔ ہم پھر کس بھول میں ہیں؟ یہ جو ہم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے چکر میں پڑے رہے‘ یہ اول درجے کی ناسمجھی تھی۔ کیا ہم ٹی ٹی پی کے عزائم سے اِتنے بے خبر ہیں ؟ ٹی ٹی پی کا مطمح نظر یہ ہے کہ ساری سابقہ قبائلی ایجنسیاں یعنی فاٹا پاکستان سے الگ ہو جائے اور فاٹا پر اُن کا جھنڈا لہرائے۔ اگر یہ اُن کے عزائم ہیں تو ان کے ساتھ مذاکرات میں ہم کیا حاصل کرنے جا رہے تھے؟ کیا ہمارے پردھان سمجھ رہے تھے کہ ٹی ٹی پی ریاست پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دے گی اور پاکستان کا قومی ترانہ سن کے ٹی ٹی پی کے اکابرین اپنی جگہوں پہ کھڑے ہو جائیں گے؟
کچھ تاریخ سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے۔ چین اور ویتنام کی ہزار سالہ پرانی دشمنی ہے۔ ویت نام کی امریکہ مخالف جنگ میں چین نے ویت نام کی بھرپور امداد کی۔ چینی سپاہ ویت نام کی وردیاں پہن کے میدانِ جنگ میں اترے۔ امریکہ کی فوجیں واپس گئیں تو ویت نام اور چین کی تاریخی دشمنی پھر سے سلگنے لگی۔ 1978ء میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ جنگ کی نوبت یہاں نہ آئے لیکن پرانی دشمنی دلوں میں زندہ ہے۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ٹی ٹی پی کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گی اور افغان طالبان جو کہیں اُن کی ہمدردیاں ٹی ٹی پی کے ساتھ رہیں گی‘ لہٰذا ہمیں آنکھوں پہ پٹیاں نہیں باندھنی چاہئیں۔ ہتھیاروں کا جواب ہتھیاروں سے ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی لڑائی ہے جس سے ہم جان نہیں چھڑا سکتے۔