1952ء کی فلم آسمان میں یہ سی ایچ آتما کا گانا ہے 'کچھ سمجھ نہیں آئے موہے اِس دنیا کی بات‘۔ سنگیت او پی نیّر کا ہے۔ گانا لا جواب ہے‘ لیکن اِس کا ذکر اِس لیے ہو رہا ہے کہ پاکستان کے حالات پہ فِٹ بیٹھتا ہے۔ ہمارے ساتھ کیا ہوا، ہم کہاں پہنچ چکے ہیں اور آگے کیا ہونے کو ہے‘ اس بارے میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ اِتنا تو واضح ہے کہ یہ پی ٹی آئی والا تجربہ مکمل طور پہ ناکام ہو کے رہ گیا ہے۔ اب تو آثار نظر آتے ہیں کہ یہ تجربہ کرانے والے پیچھے بیٹھے ماسٹرز بھی پریشان ہیں، اُنہیں بھی نہیں سمجھ آ رہی کہ کیا ہوا ہے اور اگر ناکامی ہے تو اِس کا حل کیا ہے۔
ایک بات ماننا پڑے گی کہ ہمارا معیار سوچ اِتنا اونچا نہیں اور جن ماسٹرز کا ذکر کیا ہے انہیں اپنی سمجھ اور قابلیت پہ ناز تو بہت ہو گا لیکن تاریخ پاکستان ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی کچھ نیا کرنے کی کوشش کی گئی ملک و قوم کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ 2018ء سے پہلے ان لوگوں نے اپنے آپ کو قائل کیا ہوا تھا کہ ملک برباد ہو چلا ہے‘ اب نئے آدمیوں کو آگے لانا پڑے گا۔ نئے آدمی کون تھے؟ یہ پی ٹی آئی والے تھے۔ ماسٹرز اِن پی ٹی آئی والوں کو لبادہِ مسیحائی میں دیکھنے لگے۔ تب سمجھا یہی جا رہا تھا کہ مسیحا موجود ہیں اِنہیں بس لانے کی دیر ہے اور پاکستان ترقی اور خوش حالی کے راستے پہ پڑ جائے گا۔ اِس وہم میں صرف ماسٹرز ہی مبتلا نہیں تھے۔ پاکستان کے مڈل کلاسیئے اور جو ڈرائنگ روموں میں ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں‘ وہ بھی اسی مرض میں مبتلا تھے۔ جنہیں ہم یوتھیے کہہ سکتے ہیں اور ملک کی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو بھی یہی عارضہ لاحق تھا۔
پرانوں کی تعریف مقصود نہیں۔ وہ جو تھے‘ وہ تھے اِس بات پہ بحث کیا کرنی۔ کہنے کو تو ہم یہ کہتے تھکتے نہیں کہ اِس ملک پہ اللہ کی خاص مہربانی ہے۔ اپنی حد تک یہ بات یقیناً درست ہو گی لیکن تقدیر تو اِس قوم کی ایسی بنی کہ اِسے شریفوں اور زرداریوں جیسے حکمران ملے۔ بہرحال اِنہی حکمرانوں کی وجہ سے ماسٹرز لوگوں کی پریشانی اٹھی اور وہ جوہرِ مسیحائی ڈھونڈنے نکلے۔ اُنہیں اِتنی داد تو دینا پڑتی ہے کہ پرانوں سے اُنہوں نے چھٹکارا حاصل کیا اور جن سے کرشمات کی توقعات تھیں وہ براجمانِ اقتدار بنا دیئے گئے‘ لیکن اُس کے بعد جو شروع ہوا وہ تاریخِ پاکستان میں ایک انوکھا باب سمجھا جائے گا۔ نکمے اِس ملک نے بہت دیکھے ہیں لیکن یہ جو لائے گئے اِنہوں نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اِنہوں نے کرنا کیا تھا، معاملات کی بنیادی سمجھ اِن کو نہ تھی۔ معیشت کی حالت اِتنی اچھی نہ تھی جب یہ آئے لیکن مزید تباہی سے تو بچایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے البتہ اپنی قابلیت کے بنا پہ معیشت کا وہ حال کیا جو شاید افسانوں میں بھی نہ ملے۔ معیشت ایک طرف رہی باقی معاملات کی بھی کچھ زیادہ سمجھ نہیں تھی۔ تین چار سال سے کرپشن کے موضوع پہ مبنی ہم ایک ہی ریکارڈ سن رہے ہیں کہ کرپشن ملکوں کو تباہ کر دیتی ہے اور میں کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا۔
لاہور کے جس کلب میں ہمارا آنا جانا رہتا ہے وہاں کی بیکری سے نکل رہے تھے کہ ایک سابقہ اعلیٰ افسر نے گھیر لیا۔ پورا دکھڑا رونے لگے جس کا مفہوم یہ تھا کہ لانے والوں سے بھول ہو گئی اور اب اِنہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کرنا ہے۔ سر ہلاتے اُن کا رونا سنتا رہا۔ اُنہوں نے ایک بات کہی کہ نیشنل ڈیفنس کالج میں پڑھایا جاتا ہے کہ اگر آپ کا جنگی منصوبہ یا پلان غلط ہو جائے تو سبق یہ ہے کہ اُس میں ترمیم کرنی چاہئے۔ یہاں پہ جنگی پلان تو تیار ہو گیا، مسیحا بھی ڈھونڈ لیا گیا لیکن پلان غلط ہو گیا۔ اب ترمیم نہیں ہو پا رہی کیونکہ کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ کرنا کیا چاہئے۔
اِس لئے پاکستان کے حالات گردش میں ہیں۔ ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ کیا ہو گیا ہے، ہمیں یہ نہیں معلوم کہ آگے کو کیا کرنا ہے۔ مہرے تو وہی ہیں جو شطرنج کی بساط پہ موجود ہیں۔ سارے آزمائے ہوئے ہیں، یہ جو لائے گئے یہ نئے تھے انہیں بھی اب ہم بھگت چکے ہیں۔ انتخابات کو ایک سال سے کچھ زائد عرصہ رہ گیا ہے۔ ووٹ تو ڈلیں گے، کوئی جیتے گا کوئی ہارے گا لیکن پاکستانی قوم کے سامنے چوائس کیا ہے؟ دو چیزیں اِس وقت پاکستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک کورونا کی بیماری دوسری بیزاریٔ سیاست۔ یہ دوسرا مرض خلا میں پیدا نہیں ہوا۔ کوئی امید ہو تو تجسسِ سیاست پیدا ہو۔ امید زیادہ نہ تھی لیکن رہی سہی امید کو یہ جو موجودہ ہیں اِنہوں نے ختم کر دیا ہے۔ قوموں کی تقدیر کے فیصلے ہونے ہوتے ہیں تو ذہنوں میں تصورات اُٹھتے ہیں، دلوں میں اُمنگیں پیدا ہوتی ہیں، ہاتھ پاؤں کی جنبش تیز ہو جاتی ہے۔ یہاں کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے؟
ہم مختلف ادوار سے گزرے ہیں۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو ہم نے سمجھا ایک نئی صبح کا آغاز ہونے والا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت سے ہم مایوس نہ ہوئے، ہم نے سمجھا کہ جمہوریت کا سورج طلوع ہو گا تو پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار آئے تو ہم سمجھے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا اور ملکی حالات میں بہتری آئے گی۔ کچھ امیدیں جنرل مشرف سے لگائیں کہ کرنا چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ وکلاء تحریک اُٹھی تو ہم سمجھے کہ حقیقی معنوں میں کچھ تبدیلی آنے والی ہے۔ اِن مسیحائوں سے ہمیں امید نہ تھی لیکن بہتوں کو تھی اور اُن کا حال بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ بیماری کے آثار ٹھیک نہ ہوں تو مرض کی تہہ تک جانا پڑتا ہے۔ ہم سے معاملات ٹھیک نہیں چل رہے۔ حکمران طبقات کہہ لیں یا اشرافیہ کہہ لیں‘ اُن کی وہ صلاحیت نہیں جو ہونی چاہئے۔ سوچ نہیں، آنے والے وقتوں کا کوئی تصور نہیں، ایسے اشخاص نہیں جنہیں دیکھ کے کہا جا سکے کہ یہ آئیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ حسبِ توفیق بیشتر لوگ لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ جس کا جتنا ہاتھ چلتا ہے استعمال ہوتا ہے۔ خرابی کہاں تھی، کس میں تھی؟ جہاں قوم کی تعمیر ہونی چاہئے تھی ہمارے کانوں میں نظریات کا درس سنایا گیا۔ نظریے میں تو مکمل ہو گئے اُس کے بعد ہم سے کچھ نہ ہوا‘ اور چیزوں کو تو چھوڑیئے اب تک یہ نہیں یہاں طے پایا کہ سمتِ کاروان ماسٹرز نے طے کرنی ہے یا اُن کے لائے ہوئے بندوں نے۔ فضول کی کشمکش جاری رہتی ہے اور نتیجہ کچھ اخذ نہیں ہوتا۔
74 برسوں میں یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ کس قسم کا ملک بننا ہے۔ یہاں ترجیحات کیا ہونی ہیں؟ ترقی کے خد و خال کون سے ہونے چاہئیں؟ دبئی، ترکی اور ملائیشیا جیسے ممالک ہمیں اچھے لگتے ہیں لیکن کوئی پاکستانی بیماری ہے کہ اُن کی تقلیدکرنے سے قاصر رہتے ہیں۔