دانشورانِ کرام کو رہنے دیجئے وہ تو اپنی بھول بھلیوں میں لگے رہتے ہیں لیکن دکھی دل رکھنے والے انسان پوچھتے ہیں یہ سیالکوٹ اور خانیوال جیسے واقعات کیسے رونما ہو جاتے ہیں۔ عجیب بات ہے۔ جہالت کوٹ کوٹ کے اِس معاشرے میں پھیلائی گئی ہے۔ عقل کی بات یہاں ہو نہیں سکتی۔ ہر معاملہ یہاں حساس ہے، اِس لئے اس پہ بات نہ کریں۔ جہاں جہالت معاشرے کا مزاج بن جائے اُس کے کوئی نتائج برآمد نہ ہوں گے؟
پاکستان دو حصوں میں بٹا ہوا ملک ہے۔ ایک حصہ اُن کا جو نسبتاً اچھی تعلیم سے آراستہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ آسودہ حالات میں رہتے ہیں، اپنی اولادوں کو اچھے سکولوں میں بھیج سکتے ہیں۔ انگریزیاں بولتے ہیں حتیٰ کہ گھروں میں انگریزیاں چلتی ہیں۔ یہ جو کبھی کبھار لٹریری فیسٹیول ہوتے ہیں وہاں جا کے دیکھا تو جائے کس قسم کے لڑکے لڑکیاں اور مرد و خواتین‘ آتے ہیں۔ یہ ماڈرن قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ عموماً لبرل اور سیکولر ہوا کرتی ہے۔ اِن کے لئے وہ حساس قدغنیں نہیں ہوتیں جو باقی پاکستانی معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ تو ہوا ایک پاکستان۔
دوسرا پاکستان وہ ہے جو اکثریت پہ مبنی ہے۔ اِس پاکستان کے لوگ یا تو سکولوں میں گئے نہیں ہوتے اور اگر گئے بھی ہوں تو اُنہوں نے اردو میڈیم تعلیم حاصل کی ہوئی ہوتی ہے۔ میں قطعاً نہیں کہہ رہا کہ یہ تعلیم ناقص ہے لیکن عمومی طور پہ ہمارے دیہاتوں، قصبوں اور بڑے شہروں کے پس ماندہ علاقوں میں جو لوگ بستے ہیں اُن کی سوچ وہ نہیں ہوتی جو لٹریری فیسٹیولوں میں جاتے ہوئے لوگوں کی عموماً پائی جاتی ہے۔ کم از کم پاکستانی اکثریت کی سوچ لبرل اور سیکولر ہرگز نہیں۔ ہمیشہ سے ہی یہ ایک پس ماندہ ذہن رکھنے والا معاشرہ تھا لیکن جنرل ضیاء الحق کی مہربانی کہ انہوں نے اِس معاشرے پہ ایسے اثرات چھوڑے کہ رجعت پسندی کی چھاپ معاشرے کی سوچ پر پڑ گئی۔ ایک معاشرہ جو پروگریسو سوچ کبھی نہ رکھتا تھا اِسے پیچھے کی طرف اور دھکیل دیا گیا۔
یہ اگر ہمارے معاشرے کی کیفیت بن چکی ہے تو سیالکوٹ اور خانیوال کے واقعات پر حیرانی کس بات کی ہے؟ نعروں پہ یہ معاشرہ چل رہا ہے۔ کسی نے آواز دے دی کہ فلاں چیز کی توہین ہو گئی ہے تو بغیر سوچے ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے اور جو فضول بات ذہن میں آئے وہ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ جس پہ توہین کا الزام لگتا ہے ممکن ہے کہ اس کی دماغی حالت درست نہ ہو۔ ممکن ہے ارد گرد کے لوگ جانتے ہوں کہ فلاں کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ جذبات سے بپھرے ہوئے ہجوم کو ایسی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جہالت کے مارے لوگوں نے اپنا کام دکھانا ہوتا ہے۔ ایک دو واقعات ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ بس یہ ہو گئے اور معاشرے کا یہ ٹرینڈ نہیں ہے‘ لیکن یہاں تو ایک پورا سلسلہ ایسے واقعات کا ہے۔ گننے لگیں تو صفحہ ختم ہو جائے۔ جہالت کے ساتھ ساتھ خود غرضی بھی چل رہی ہوتی ہے۔ ذاتی رنجش مٹانے کے لئے توہین کا الزام لگ جاتا ہے اور ایسا ہو جائے تو پوری ریاستی مشینری بے بس ہو جاتی ہے۔ پولیس والے جان چھڑانے کیلئے فوراً سے پہلے پرچے کا اندراج کر دیتے ہیں۔ معاملہ نظامِ عدل کے سامنے پیش ہو تو آنکھ بند کر کے فیصلے سنا دیئے جاتے ہیں۔ موت کی کوٹھری میں سال گزر جاتے ہیں اور کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
یہاں بات ہم سیالکوٹ اور خانیوال کی کر رہے ہیں، یہ حالیہ واقعات ہیں۔ کیا ہم قصور کے اُس بھٹے کو بھول گئے محض الزام کی بنا پر جس کی آگ میں ایک عیسائی جوڑے کو پھینک دیا گیا تھا؟ سینٹ جوزف کالونی لاہور کا واقعہ ذہنوں سے اوجھل ہو گیا ہے جب پوری ایک کالونی پہ دھاوا بولا گیا تھا؟ بے شمار ایسے واقعات ہیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اور یہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قصہ کیا تھا؟ اُس کا گناہ کیا تھا؟ اُس نے صرف یہ کہا تھا کہ فلاں قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ یہ روش درست ہونی چاہئے۔ یہ ضرور سلمان تاثیر کا قصور بنتا تھا کہ آسیہ بی بی کو شیخوپورہ جیل میں ملنے گیا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے نچلے طبقات ہیں اور کئی تو بالکل پسے ہوئے طبقات ہیں جن کی معاشرے میں کوئی وقعت یا حیثیت نہیں۔ آسیہ بی بی اِن پسے ہوئے طبقات میں سے تھی اور معاشرے کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گئی۔ سلمان تاثیر قتل ہو گیا لیکن پھر وہی بات کہ معاملہ حساس ہے، اِس پہ زیادہ بات کرنا مناسب نہیں۔ جب ایسا معاشرہ تشکیل پا چکا ہو تو پھر حیرانی کس بات کی کہ فلاں پاگل شخص کو لٹکا دیا گیا یا فلاں سری لنکن منیجر کا حشر کیا گیا۔ ایٹم بم تو ہم نے بنا لیا کچھ معاشرے کو بھی ٹھیک کر دیتے۔ کچھ کوشش تو ہوتی کہ تھوڑی سی عقل بھی معاشرے میں آ جائے۔
یہ فخر کی بات نہیں کہ آج کا ہندوستان اُن راستوں پہ چل رہا ہے جن کو روشن ہم نے کیا؟ ہندوستان کے شروع کے حکمران ایسے نہ تھے۔ وہ تو سیکولراز م کی بات کرتے تھے مذہبی انتہا پسندی کی نہیں‘ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی کے تابع ہندوستان بھی اپنے اصل کو لوٹ رہا ہے۔ اور ہم پاکستانی تو غالباً داد کے مستحق ہیں‘ کرناٹکا کی مسلمان لڑکی مسکان ہمیں نظر آتی ہے لیکن یہاں جو غریب و لاچار ہجوموں کے اشتعال کا نشانہ بنتے ہیں وہ ہمیں نظر نہیں آتے۔ جہالت کے تحت معاشرے کا ہنگامہ پن ہمیں بالکل نظر نہیں آتا۔
رونا تو اِس بات پہ ہونا چاہئے کہ جہالت کی شاہراہوں پہ ہم اِتنا آگے جا چکے ہیں کہ واپس مڑنا محال لگتا ہے۔ واپس لوٹنے کی امید تو تب پیدا ہو جب کوئی ہمت و عقل کی بات کرنے کے لئے تیار ہو۔ ہم نے تو دیکھا ہے کہ کوئی ہجوم یا ہجومی کیفیت سے پیدا شدہ سیاسی جماعت نعرہ لگاتی ہے تو عوام کو چھوڑیئے، اِس کا ایک حصہ تو جذبات میں بہنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے، حکومتِ وقت تک گھٹنے ٹیکنے کے لئے آمادہ ہو جاتی ہے۔ کیوں نہ پولیس فورس کو نشان عبرت بنا دیا جائے، صحیح معنوں میں اُس کی ٹھکائی ہو، لیکن کسی سے کچھ پوچھا نہیں جاتا۔ آخری فتح ہجوم کی ہوتی ہے۔ تو پھر سیالکوٹ اور خانیوال جیسے واقعات رونما کیوں نہ ہوں؟ معاشرے کا ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے، عوام کا مزاج ایسا بن چکا ہے، کہ کوئی جذباتی نعرہ لگا تو ریاستی مشینری پیچھے جانے میں عافیت سمجھتی ہے اور عقل سے عاری لوگوں کے ہاتھوں میں حالات کا کنٹرول آ جاتا ہے۔ یہ افسانوی باتیں نہیں، ایسی کیفیت ہم متعدد بار دیکھ چکے ہیں۔
داد کے مستحق پھر دو امر ہیں۔ ایک معاشرے کی جہالت اور دوسری حاکموں کی کم عقلی اور بزدلی۔ حاکم کیا ہیں، ہوتا تو اُن سے کچھ نہیں لیکن ہمارے سامنے ناٹک کرتے پھرتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ فضول کی باتیں۔ ایک اور چیز، پاکستان میںدکھاوے کی مالا جپنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ شاید اسی پہ ہمیں گزارہ کرنا پڑے۔