اِتنی ہائپ بنائی جا چکی ہے کہ اب تو کچھ ہو ہی جانا چاہئے۔ ہمارا کیا جاتا ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک پیش ہوتی ہے یا ہمت راستے میں بیٹھ جاتی ہے۔ تبدیلیٔ سرکار ہو یا نہ ہو حالات نے خرابی کی طرف ہی جانا ہے۔ ہمارا مطمح نظر تو صرف اِتنا ہے کہ کچھ ہنگامہ ہو جائے، کچھ شغل میلا، کیونکہ حالات یہی رہے تو بوریت طاری ہو جائے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ناقدین بھی مانیں گے کہ حالات کو بور نہیں رہنے دیتے تھے۔ عمران خان کے حمایتی بھی شاید اقرار کرنے پہ مجبور ہوں کہ نہایت ہی اکتا دینے والے حکمران ہیں۔ ایک ہی تقریر، ایک ہی قسم کی گفتگو، آخر انسان کب تک سنے۔
ہماری خواہشِ ہنگامہ ہر اصول سے عاری ہے۔ اصول پرستی ویسے بھی ہم کب کے چھوڑ چکے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اصول کا ٹوکرا سر پہ اٹھائے یہاں کسی کو فائدہ پہنچا ہے؟ بڑے ادوار ہم دیکھ چکے۔ اِن سے کبھی کچھ حاصل نہ ہوا۔ یہ جو باتیں ہیں کہ حکومت منتخب ہوئی ہے تو اِسے پانچ سال پورے کرنے دینے چاہئیں ہمیں ایسی باتوں سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی حکومت پانچ ماہ رہے یا پانچ سال ہم اِس کا کیا کریں؟ اِتنا ہمیں پتا ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک لائی جائے گی جب پیچھے سے اشارہ ہو گا یعنی تھپکی پیچھے سے آنی چاہئے‘ نہیں تو یہ جو ہمارے سیاسی نمونے ہیں ضیافتیں اڑاتے رہیں اِن سے کچھ نہیں نکلے گا۔ پاکستان میں سب سے مؤثر ہتھیار تھپکی ہے۔ وہ ہو گی تو سب کچھ سیٹ ہو جائے گا۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ابھی تک اشارے یا تھپکی کے کوئی آثار نہیں۔ جو دور بینوں کا استعمال کر رہے ہوں اُنہیں شاید کچھ نظر آ گیا ہو ہمیں یہ چاند نظر نہیں آیا۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ تھپکی دینے والوں کے سامنے کوئی آئندہ کا خاکہ یا پلان ہو۔ اِس وقت یقین سے ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے کہ کسی کے پاس کوئی خاکہ نہیں، سارے کنفیوزڈ ہیں، ذہن بالکل خالی ہیں، کوئی آئندہ کی حکمت عملی نہیں۔ لہٰذا عدمِ اعتماد والے اِس وقت تک اپنے پہ ہی ہیں۔ پیچھے سے تھپکی نہیں مل رہی۔
ہمارا مسئلہ البتہ اور ہے۔ عمران خان رہیں یا کوئی اور افلاطون آئے ہمیں تو کچھ ملنا نہیں۔ بیکاری کا طوفان ہے اور ہم ہیں دوستو۔ ذاتی مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ہنگامے کا منظر بنے، ٹی وی پہ آ کر کچھ کہہ سکیں، کالم آرائی کے لئے کچھ سامان میسر ہو۔ مہنگائی کے علاوہ قوم کو عمران خان کا سب سے بڑا تحفہ بوریت ہے۔ کرکٹر اچھے ہوں گے، اس سے انکار نہیں۔ ویسے بھی کرکٹ کے بارے میں صفر سے بھی کم جانتے ہیں اور کرکٹ کے شائقین پرستش کے مارے رہتے ہیں‘ یہ بیماری ہمیں کبھی نہیں لگی۔ لیفٹینی میں یاد ہے ایک عدد جذبات کو بھڑکانے والی تصویر کمرے میں لگا رکھی تھی لیکن کسی کرکٹر کی تصویر کبھی نہ لگائی۔ یہ دلچسپی ہی کبھی پیدا نہ ہوئی۔ یہ پتا نہیں کون لوگ تھے جنہوں نے عمران خان سے امیدیں باندھی ہوئی تھیں۔ سب سے پیش پیش باہر رہنے والے پاکستانی تھے۔ باہر کے پاکستانیوں کا ہمیشہ یہ پرابلم رہا ہے کہ بیٹھے باہر ہیں لیکن کرنا کچھ ملک میں چاہتے ہیں۔ عمران خان کو پذیرائی دے کے وہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کے حالات میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ کرتے ہوئے اِس طبقے نے پتا نہیں کیا کچھ سوچا کہ عمران خان یہ کر دیں گے فلاں کرشمہ برپا ہو جائے گا اور پاکستان جنوبی کوریا اور ملائیشیا کے ساتھ آن کھڑا ہو گا۔
مسئلہ یہ تھا کہ خان صاحب اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود سیاسی سوچ سے بالکل خالی تھے۔ دنیائے عمل میں اب تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ کرکٹ کھیلتے کھیلتے سیاسی سوچ پیدا ہو سکتی ہے۔ اِس حقیقت کو ایک بار پھر عمران خان نے ثابت کیا ہے‘ لہٰذا آئندہ کے کرکٹ کھیلنے والوں کیلئے یہ تنبیہ ہے کہ کرکٹ میں اعزاز لینے کے بعد جو بھی کریں سیاست کا نہ سوچیں۔ عمران خان کے شوقِ سیاست کی بھاری قیمت قوم ادا کر رہی ہے۔ قوم یہ بھی جان چکی ہے کہ گوالمنڈی سے کسی کو لے آئیں گے، کسی اونٹ والے کو سندھ سے لے آئیں گے، اشارہ کرنے والوں کو پھر سے آزما لیں گے لیکن کسی کرکٹ کھیلنے والے کو آگے کبھی نہ لائیں گے۔ قوم کرکٹ کی شوقین رہے گی۔ کرکٹ پہ سٹے بازی بھی ہوتی رہے گی۔ کرکٹ کے نام پہ شہر کے شہر بند ہوں گے، ٹریفک درہم برہم ہو گی لیکن کسی کرکٹ کھلاڑی کو آئندہ سیاسی پذیرائی نہیں بخشی جائے گی۔ یوں سمجھئے قوم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے۔
رہا عدمِ اعتماد تو اِس ملک میں جو قحط الرجال ہے وہ ملاحظہ تو ہو۔ ہٹایا جانا کس کا مقصود ہے ؟ ہمارے صاحبِ کرکٹ کا جن سے معجزات کی توقع کی جا رہی تھی۔ ہٹانے والے کون ہیں؟ وہ چہرے جنہیں دیکھ دیکھ کے قوم تھک چکی ہے‘ یعنی نہ حالات کو قبول کرنے میں عافیت نہ ہٹانے میں کوئی آسودگی‘ یعنی قوم نہ یہاں کی نہ وہاں کی۔ یہ حالت ہماری ہو گئی ہے اور ایک شخص بھی ملک میں نہیں جو بتا سکے کہ آگے کا راستہ کیا ہے۔ یہ چیلنج ہے، کوئی آئے تو سہی اور ہمیں ایسا بتائے۔ لمبی لمبی باتیں اور بے ثمر باتیں جن کا حاصل کچھ نہیں۔ کبھی نہ سوچا تھا کہ عمر بیت جائے گی اور قوم کی حالت یہ ہو گی لیکن قوم کی حالت یہ ہو چکی ہے۔ سر پہ سوالات منڈلا رہے ہیں لیکن جواب ڈھونڈے سے نہ ملے۔
ایسے میں پھر شوشے ہی چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اجتماعی نکمے پن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جائے گا لیکن نعرہ بلند ہو گا کہ صدارتی طرز حکمرانی ہونا چاہئے، یہی پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ یہاں آپ جو نظام بھی لے آئیں اجتماعی نکمے پن کا علاج کیا ہو گا؟ کام ہوتا نہیں اور جو کام کیا جاتا ہے اُس میں بھاری رقوم کمیشن کی مد میں آ جاتی ہیں۔ جب یہ قوم کی حالت ہو تو صدارتی نظام کیا کرے گا اور پارلیمانی نظام سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں؟ بنیادی بات یہاں یہ ہے کہ جو فیصلہ کرنے والے ہیں اُن کی ملک سے کمٹمنٹ ذرہ برابر بھی نظر نہیں آتی۔ جائیدادیں باہر، اولادوں کی پڑھائی باہر، مستقبل کے خواب باہر کے دیسوں سے وابستہ۔ رہ گئے عوام اُن کو تو کسی باہر کے ملک کا ویزا مل جائے تو سارے کے سارے یہاں سے چھوڑ کے باہر آباد ہو جائیں۔ پہلے علاج تو پھر فیصلہ سازوں کا ہو۔ اُن کا مزاج بدلے، اُن کی سوچ میں تبدیلی آئے۔ اِن باتوں پہ کوئی نہیں سوچے گا‘ بس وقفے وقفے سے یہ رٹ لگائی جاتی ہے کہ فلاں نظام ہونا چاہئے۔ نظام یہاں ملکہ برطانیہ کا لے آئیں ہمارا خمیر جو بن چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہو گا۔
یہ نہیں کہ قوموں کے مزاج بدلے نہیں جا سکتے۔ چینیوں کو ایک افیمی قوم کہا جاتا تھا۔ کمیونسٹ انقلاب نے اُس کے مزاج کو کیسے بدلا۔ ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مزاج بدلنے والا کوئی نہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کتنے لیڈر آئے؟ کتنوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ واقعی اُن میں کچھ کشش تھی؟ بیشتر لیڈر ایسے کہ اُنہیں بھلایا جا سکتا ہے۔ کشش پھر کہاں سے آئے گی؟