ایک سوئس بینک کے حوالے سے جو نئے انکشافات ہوئے ہیں اُن میں پھر کئی پاکستانیوں کے نام ہیں کہ فلاں فلاں زمانے میں اِن کے اکاؤنٹ کھلے اور اُن میں اتنے پیسے تھے۔ پہلے بھی ایسی کہانیاں آتی رہی ہیں۔ احتساب کا نعرہ بھی اِس دھرتی پہ تواتر سے لگتا رہا ہے‘ لیکن ایسے شور شرابے سے کبھی کچھ نکلا ہے؟ کبھی کوئی کٹہرے میں کھڑا ہوا ہے؟ مبینہ طور پہ لوٹی ہوئی دولت کبھی واپس ہوئی ہے؟
ہم پاکستانیوں کو کون آ کے سمجھائے گا کہ محض کہانیوں سے کچھ نہیں بنتا۔ شریفوں کے خلاف مقدمات کھڑے ہوئے ہیں۔ اومنی گروپ کی کرپشن کے حوالے سے داستانیں رقم ہوئی ہیں۔ موجودہ حکومت میں گندم اور چینی کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں کی گئی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے بڑے بڑے ناموں کا ذکر بھی کبھی کبھار ہو جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک شعبے سے وابستہ لوگوں کے نام لئے جا سکتے ہیں‘ لیکن کسی دوسرے شعبے والوں کا نام شاذ و نادر ہی لیا جاتا ہے۔ کسی نے بات کرنی بھی ہو تو اشارے کنایوں میں ایسی بات کی جاتی ہے۔ بہرحال بنیادی بات تو یہ ہے کہ مقدمات بنائے بھی جائیں تو کب اُن سے کچھ نکلتا ہے؟
ہم لاچار لوگ ہیں۔ ایک تو ہر ایک کے منہ میں زبان نہیں اور جن کے منہ میں زبان ہے وہ بھی صرف حالات و واقعات کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اور محض ذکر سے کیا بنتا ہے؟ اِتنے سیکنڈلوں کا یہاں ذکر ہوا ہے لیکن نہ کوئی کیفر کردار تک پہنچا نہ مبینہ طور پر لوٹی ہوئی رقم پہ ہاتھ پڑ سکا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں جو نظام ہے وہ کرپشن کو بچا تو سکتا ہے کرپشن پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ نظام بڑے لوگوں کو نقصان پہنچانے والا نہیں، ہمارا نظام تو اُنہیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اور جب تک یہ نظام رہے گا، اِس کی قدریں وہی رہیں گی جو کہ ہیں، تو کرپشن کی یہاں باتیں ہی ہوں گی، کرپشن کے خلاف کوئی مؤثر اقدام کیا نہیں جائے گا۔ وجہ عیاں ہے، جو کچھ کر سکتے ہیں وہ نظام کا حصہ ہیں۔ اُن کا مفاد اِسی میں ہے کہ نظام جوں کا توں چلتا رہے، اِس پہ کوئی چوٹ نہ آئے۔ اِس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے چہ جائیکہ نظام کے خلاف کوئی صحیح معنوں میں عوامی تحریک جنم لے۔
یہ اور بات ہے کہ ہر بار عوام بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔کرپشن کے خلاف کوئی نعرہ لگتا ہے تو نہ صرف عوامی امیدیں بندھ جاتی ہیں بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ اِس بار لوٹ مار کے خلاف مؤثر اور حتمی کارروائی کی جائے گی۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا‘ کیونکہ جو نظام کا حصہ ہیں اور نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ نظام کے خلاف بغاوت کیوں کریں؟ عوام البتہ بیوقوف بن جاتے ہیں اور وقتی طور پہ آنکھوں سے پردے ہٹ بھی جائیں تو پھر سے امید باندھ لی جاتی ہے کہ اِس دفعہ نہیں تو اگلی دفعہ کہیں سے بد دیانتی اور چور بازاری کے خلاف کوئی صحیح معنوں میں مہم اٹھے گی۔
پاکستان میں جہاں بہت سارے الفاظ کو سستا بنا دیا گیا ہے وہاں انقلاب کے لفظ کو بھی ہلکا کر دیا گیا ہے۔ جب امیر سے امیر آدمی انقلاب کے لفظ کا استعمال کرے تو اِس میں کوئی معنی رہ جاتا ہے؟ یہاں تو فیشن بن گیا ہے کہ بڑے سے بڑے لوگ‘ جن کی مال و دولت کی کوئی انتہا نہیں انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اِس دھرتی پہ انقلاب کبھی آنا نہیں۔ ہماری آب و ہوا اور ہماری زمین کسی ایسی مشق کے لئے موزوں نہیں۔ لیکن حساب کی کتاب یہاں تب ہی کھل سکتی ہے اگر صحیح معنوں میں انقلاب نہیں تو چھوٹے پیمانے کا ہی کوئی انقلاب آ جائے۔ یہ نہ ہو تو یہاں قومی وسائل کو لوٹنے کے خلاف باتیں محض باتیں ہی رہیں گی۔ ایک اور چیز واضح ہونی چاہئے۔ یہ جو ہماری جمہوریت ہے یہ کرپشن اور بد عنوانی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ اِس پاکستانی مارکہ جمہوریت میں کسی مگر مچھ پہ ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ وہ اور ملک ہیں جنوبی کوریا جیسے جہاں صدور اور بڑی سے بڑی کمپنیوں کے مالک جیل جا سکتے ہیں۔ ایسا رواج وہاں کا ہوگا ہمارے ہاں کا نہیں۔
اوپر والی دلیل کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں آمریت ہو لیکن اِس دلیل سے اتنا نتیجہ ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب تک یہاں مضبوط حکمرانی نہ ہو بد عنوانی کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ مضبوط حکمرانی کا مطلب ہے کہ پاکستان کے نصیب میں بھی ولادیمیر پوتن جیسا کوئی سربراہ ہو۔ ہم کہتے ہیں نا کہ ہماری حالت خراب ہے۔ ذہن نشین ہونی چاہئے یہ حقیقت کہ پوتن اقتدار میں آئے تو روس کی حالت پاکستان سے بھی زیادہ ابتر تھی۔ میخائل گوربا چوف اور اُن کے بعد بوریس ییلتسِن نے روس کا وہ حشر کیا جو ہٹلر کی فوجیں نہ کر سکی تھیں۔ پوتن نے اپنے ملک کو اُن حالات سے نکالا۔ کیفیت وہاں ایسی تھی کہ ایک سپر پاور بھکاری کے روپ میں نظر آنے لگی تھی۔ پوتن نے زوال کو روکا اور روس میں استحکام پیدا کیا۔ عسکری طور پہ روس کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ روس کی گرتی ہوئی فوجی طاقت کو سنبھالا دیا اور روسی افواج کو پھر سے طاقت ور بنایا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے روس کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ صورت حال اب مختلف ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کو روس کی بات سننا پڑ رہی ہے۔ روسی فوجیں یوکرائن کے ارد گرد جمع ہیں اور سوائے دھمکیوں کے امریکہ کچھ نہیں کر پا رہا۔ یہ پوتن کا کمال ہے کہ روس کی گرتی ہوئی ساکھ کو اپنے بیس سالہ اقتدار میں اُس نے بحال کیا۔
پاکستان کی آبادی روس سے کہیں زیادہ ہے‘ لیکن ہماری حالت کیا ہے؟ جس قسم کی انڈسٹری ہونی چاہئے‘ نہیں ہے۔ انڈسٹریل چیزوں کو چھوڑیئے، کھانے کی چیزیں ہم باہر سے لیتے ہیں۔ قرضے نہ لیں تو ریاست کا کام نہ چلے ۔ موجودہ پاکستانی مارکہ جمہوریت کے ہوتے ہوئے اِس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ جمہوریت یہاں رہے لیکن اِس جمہوری نظام کو چلانے کے لئے مضبوط ہاتھ ہوں۔ یہ کوئی صدارتی نظام کی دلیل نہیں ہے۔ ہم بڑے بے کار صدور دیکھ چکے ہیں۔ سنگا پور کو ایک ماڈرن ریاست بنانے والا ایک وزیر اعظم تھا، لی کوان یو۔ اُس کے پاس کسی مارشل لاء حکومت کے اختیار نہ تھے۔ انتخابات ہوتے تھے، منتخب اسمبلی معرضِ وجود میں آتی تھی لیکن لی کوان یو نے اپنی سوچ اور ہمت کے بل بوتے پہ سنگار پور کو ایک ترقی یافتہ ریاست بنایا، ایسی ریاست جس کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ملائیشیا میں بھی ایسا ہی ہوا۔ وہاں بھی انگریزوں کا عطا کردہ ایک جمہوری نظام تھا لیکن مہاتیر محمد آیا اور کچھ سختی سے کچھ سوچ سے ملائیشیا کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔
یہاں جو نام نہاد جمہوری لیڈر ہیں اُن سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ہم اِنہیں دیکھ چکے ہیں۔ یہ پھر سے آئیں تو وہی کریں گے جو پہلے کر چکے ہیں۔ پاکستان کو ایک نئی شروعات چاہئے۔ ایسی شروعات مضبوط ہاتھ دے سکتے ہیں جو کہیں نظر نہیں آتے۔