سوویت یونین کی تباہی میخائل گورباچوف کے ہاتھوں کئی سال پہلے شروع ہو چکی تھی لیکن باضابطہ طور پر سوویت یونین کے خاتمے کا اعلان دسمبر 1991ء میں ہوا۔ گورباچوف اس وقت تک سوویت یونین کا سربراہ تھا لیکن طاقت اور اختیارات اُس کے ہاتھ سے جا چکے تھے۔ روسی فیڈریشن کا صدر بورس یلسن بن چکا تھا۔ یوکرین نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ عملاً سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ دسمبر 91ء میں بورس یلسن ، یوکرین کے صدر کراوچک اور بیلا روس کے وزیر اعظم ریاچس لاو کیبیش بیلا روس کی ایک شکارگاہ میں ملے۔ ظاہر ہے اُس شکارگاہ میں ریسٹ ہاؤس بھی تھے اور وہاں یہ ملاقات ہوئی۔ تینوں لیڈروں کا ارادہ تھا کہ سوویت یونین کے دفنانے کا اعلان کر دیا جائے‘ گو سوویت یونین تباہی کے دہانے پہ پہنچ چکا تھا اُس کے خاتمے کا باضابطہ اعلان پھر بھی ایک بڑا تاریخی واقعہ تھا اور اس کے پیش نظر تینوں لیڈر خاصے نروس تھے۔ شراب نوشی البتہ اُن کی مدد کو آئی اور بورس یلسن نے تو خاص طور پر اِس کرشماتی مشروب کا سہارا لیا۔
باضابطہ اعلان یہ تھا کہ بین الاقوامی قانون میں سوویت یونین کی حیثیت بطور ایک ملک کے ختم ہو رہی ہے۔ ٹائپنگ کے فرائض سرانجام دینے کیلئے سوویت یونین کے خفیہ ادارے کے جی بی نے ایک خاتون ٹائپسٹ کا اہتمام کیا تھا۔ جب اُس کے سامنے کاغذ کا وہ ٹکڑا رکھا گیا جس میں سوویت یونین کے خاتمے کا اعلان تھا تو اُس کی انگلیاں کانپنے لگیں۔ ریسٹ ہاؤس کی حفاظت بھی کے جی بی کے سپرد تھی۔ وہاں موجود کے جی بی کے کمانڈر کو جب پتا چلا کہ یہاں یہ ہو رہا ہے تو اُس نے کہا کہ یہ بغاوت ہے اور میرا فرض بنتا ہے کہ اپنے سربراہوں کو اِس کی رپورٹ کروں۔ اُس نے ایسا کیا بھی لیکن اُس سے کیا نکلنا تھا۔ نکلنا تو تب تھا کہ ماسکو میں کوئی طاقت کے استعمال پہ تیار ہوتا لیکن تب تک سوویت یونین کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ طاقت کے استعمال کا آپشن رہا ہی نہیں تھا۔
یوکرین میں جو اَب ہو رہا ہے وہ اُس 29 سالہ پرانے واقعے کا ایک طرح سے حساب چکانے کا امر ہے۔ سوویت یونین کا خاتمہ کسی بیرونی طاقت نے نہیں کیا تھا، اُس کے اپنوں نے یہ کام سرانجام دیا۔ بڑا قصوروار تو گورباچوف بنتا ہے۔ ایسا بے وقوف لیڈر روسی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ اُس کے مشیر بھی تھے جن کی باتیں انسان آج پڑھے تو یقین نہ آئے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ گورباچوف کے پیدا کردہ حالات نے بورس یلسن کو جنم دیا اور پھر جو کام گورباچوف نے شروع کیا تھا اُسے یلسن نے پایہ تکمیل تک پہنچایا‘ لیکن جہاں لیڈران کا یہ کردار تھا وہاں دل جلے محب وطن بھی تھے جنہوں نے خون کے آنسو روئے جب اپنوں کے ہاتھوں سوویت یونین کا حشر دیکھا۔ اُن دل جلوں میں ایک کے جی بی کا سابق افسر بھی تھا جس کا نام ولادیمیر پوتن تھا۔ ایسے لوگوں پہ کیا گزری ہو گی یہ ہم اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔
یلسن سے البتہ ایک کام اچھا ہوا کہ خود تو روس کی بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن جاتے جاتے ولادیمیر پوتن کو اُس نے آگے کر دیا۔ اگست 1999ء میں پوتن روس کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ بورس یلسن کے جانے کے بعد پوتن پہلے قائم مقام صدر پھر باقاعدہ صدر چن لیا گیا۔ تب سے لے کر آج تک روس کی تقدیر اُنہی کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ پوتن کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایک سابق سپر پاور‘ جو کمزوری کی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی‘ کو اُس نے دوبارہ زندہ کیا اور اُس میں نئی جان ڈالی۔ روس کو پھر سے طاقت ور بنایا۔ مغرب خاص طور پہ امریکہ کی آنکھوں میں روس کی کوئی عزت نہیں رہ گئی تھی۔ پوتن نے اپنے ملک کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلوائی۔
امریکہ کے رویے کو بھی دیکھیں۔ جب اُس کا پرانا حریف سوویت یونین دنیا کے نقشے سے مٹ چکا تھا تو اُسے اور کیا چاہئے تھا۔ دانائی اِسی میں ہوتی ہے کہ شکست کھانے والے حریف سے نرمی برتی جائے‘ اُس کے زخموں کو کریدنے کے بجائے اُن پہ کچھ مرہم لگائے‘ لیکن امریکہ اپنے گھمنڈ میں مبتلا تھا۔ اُسے روس کی گمی ہوئی عزت کا کچھ خیال رکھنا چاہئے تھا لیکن اُس نے تباہ شدہ اور شکست خوردہ روس کو پیچھے ہی دھکیلنا چاہا۔ جب سرد جنگ ختم ہو گئی تھی، دیوارِ برلن گر چکی تھی اور مشرقی یورپ کے ممالک روسی تسلط سے آزاد ہو چکے تھے تو پھر دفاعی معاہدہ نیٹو کو مزید مشرق کی طرف لے جانے کی کیا تُک بنتی تھی‘ لیکن امریکہ نے ایسے ہی کیا اور نیٹو میں مشرقی یورپ کے ممالک کو شامل کیا جاتا رہا۔ پوتن کو یہ گوارا نہ تھا لیکن روس کی پوزیشن اِتنی کمزور ہو چکی تھی کہ وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ امریکہ کا فائدہ اِسی میں تھا کہ اِتنا کچھ ہونے کے بعد یہاں رک جاتا لیکن وہ باز نہ آیا اور اُس کی کوشش یہی رہی کہ یوکرین کو بھی نیٹو کا حصہ بنایا جائے۔
ولادیمیر پوتن نے بارہا انتباہ کیا کہ ایسا قدم روس کے لئے انتہائی خطرناک ہو گا لیکن تمام انتباہ بہرے کانوں پہ پڑے اور امریکہ اور مغربی ممالک اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ امریکہ خود تو کیوبا میں روسی میزائلوں کی تنصیب برداشت نہ کر سکا تھا اور جیسا کہ دنیا نے دیکھا 1962ء کے کیوبن میزائل بحران میں امریکہ اور سوویت یونین آمنے سامنے آ گئے تھے‘ اور ایک نیوکلیئر جنگ کا خطرہ دنیا پہ منڈلانے لگا تھا‘ لیکن روس کے تحفظات کی امریکہ کو کوئی پروا نہ تھی۔ پوتن نے کئی بار کہا کہ یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنانے کا مطلب ہے کہ روس مخالف میزائل روس کے صحن میں کھڑے ہو جائیں گے۔
یوکرین کے قائدین کو بھی کچھ سمجھ نہ آئی۔ وہ بھی مغربی ہتھکنڈوں کے آلہ کار بنتے رہے۔ پوتن نے یہ کبھی نہیں کہا کہ یوکرین مغرب کے ساتھ روابط نہ رکھے۔ اُن کی ڈیمانڈ تو صرف اِتنی تھی کہ آپ دفاعی معاہدہ نیٹو کے ممبر نہ بنیں۔ فن لینڈ سے کچھ یوکرین نے سیکھ لیا ہوتا۔ جہاں یوکرین روس کے جنوب میں ہے فن لینڈ روس کے شمال مغرب میں ہے۔ کمیونسٹ انقلاب سے پہلے فن لینڈ روسی ایمپائر کا حصہ تھا۔ کمیونسٹ انقلاب کی وجہ سے فن لینڈ کو آزادی ملی لیکن فن لینڈ کے قائدین نے یہ احتیاط کی کہ روس کے تحفظات کا ہمیشہ خیال رکھا۔ سوویت یونین اور فن لینڈ کے درمیان سٹالن کے زمانے میں باقاعدہ جنگ ہوئی۔گو چھوٹا ملک تھا فن لینڈ نے سوویت یونین کو بھاری نقصان پہنچایا‘ لیکن بالآخر سوویت یونین کی طاقت کے آگے فن لینڈ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ امن معاہدہ ہوا تو ایک خاصا بڑا علاقہ فن لینڈ کو سوویت یونین کے حوالے کرنا پڑا۔ اِس تلخ تاریخ کے باوجود فن لینڈ کے اکابرین نے سوویت یونین سے بگاڑی نہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد فن لینڈ کے صدر کیکونین تھے جنہوں نے بیک وقت فن لینڈ کی آزادی پہ آنچ نہ آنے دی اور ساتھ ہی سوویت یونین سے تعلقات ٹھیک رکھے۔ یہ بات یوکرین کی قیادت کی سمجھ میں نہ آئی اور آج ناسمجھی کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے روس کے خلاف معاشی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ کیا اِن پابندیوں سے روسی حملہ رک جائے گا؟ خود سوچنے کے بجائے جب قومیں دوسروں کی باتوں میں آتی ہیں تو نقصان اُنہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔