جب ایک ادارے کی سربراہی کا مسئلہ سامنے آیا تو سہارے کچھ خفا سے ہو گئے۔ سہاروں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر کہہ اٹھتے ہیں: ہماری بلی اور ہمیں ہی میاؤں۔ خفگی جب یہاں پیدا ہوئی تو سہارے اظہار ناپسندیدگی میں ذرا پیچھے ہٹ گئے اور بہ امر مجبوری خان صاحب کو اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا پڑا۔ کسی حکیم کے بتانے کی ضرورت نہیں کہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا اور خود سے چلنا انسان کیا حیوانوں کے لیے بھی بہتر ہوتا ہے۔ یہی کچھ یہاں دیکھنے میں آ رہا ہے، سہاروں کے بغیر جب خان صاحب خود چلنے لگے ہیں تو اُن کی سیاست بہتر ہو رہی ہے۔
ایک زمانہ تھا چوہدریوں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے تھے۔ جو دیرینہ فہرست چوروں اور ڈاکوؤں کی خان صاحب نے بنا رکھی تھی اُس میں چوہدریوں کو شامل کرتے تھے‘ لیکن اب دیکھئے، چوہدریوں سے ملتے تھک نہیں رہے۔ پہلے اُن کے لاہور گھر گئے اور وہی کافی نہیں تھا تو عزیزم مونس الٰہی سے ون آن ون ملاقات کی ضرورت محسوس کی۔ یہ ان کی نئی پنپنے والی سیاسی سوجھ بوجھ کی ایک نشانی ہے۔ جہانگیر ترین سے کب کے تمام رابطے ختم ہو چکے تھے لیکن کچھ دن پہلے پی ٹی آئی کے اِس سابقہ سپوت‘ جو اَب ناراضی کی گہرائیوں میں جا چکے ہیں‘ کو فون کر ڈالا۔ عذر تو یہ بیان کیا گیا کہ طبیعت ناساز تھی پوچھنے کے لیے فون کیا۔ خان صاحب کے مزاج میں نہیں کہ ایسا تکلف برتا کریں لیکن جب مجبوری آن پڑے تو انسان بہت کچھ کر دیتا ہے۔ وہ انگریزی کا کیا محاورہ ہے کہ پہاڑ پیر صاحب کے پاس چل کے نہ آئے تو پیر صاحب کو پہاڑ کی طرف جانا پڑتا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کے لیے یہ مشکل وقت بنا ہوا ہے۔ عدم اعتماد کی جو کوششیں ہو رہی ہیں یہ ڈرامے بازی نہیں۔ اپوزیشن کے راہنما اِس معاملے میں سنجیدہ ہیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ کچھ زیادہ سنجیدہ ہیں اور کچھ ذرا کم‘ لیکن کوششیں جاری ہیں اور ان میں شدت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ اِس ماجرے میں سنجیدگی بھی تب پیدا ہوئی جب اپوزیشن رہنماؤ ں کو احساس ہوا یا احساس دلایا گیا کہ سہارے ہٹ گئے ہیں اور سہاروں کو کوئی دلچسپی نہیں کہ حکومت کی بقیہ مدت میں سہارا بنے رہیں۔ ہم جیسے‘ جو نا سمجھ ٹھہرے، بھی کہتے تھے کہ حکومت مخالف تحریک تب ہی جان پکڑ سکتی ہے جب پیچھے سے کوئی اشارہ ہو یا کاندھوں پہ کوئی تھپکی لگے۔ سابقہ ایک پیج والے حکومت مخالف تو نہیں ہو گئے البتہ ایک حد تک لا تعلقی کا شائبہ محسوس ہو رہا ہے۔ اِتنا تو ظاہر ہے کہ وہ چکوال والی قربتیں نہیں رہیں‘ لہٰذا باقاعدہ اشارہ یا تھپکی نہ بھی ہو اپوزیشن والوں کے ذہنوں میں کچھ تصورات نے جنم لیا ہے‘ جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ حکومت ہٹانے کا عمل قومی اسمبلی میں شروع ہو تو پہلے کے سہارے حکومت کو میسر نہ ہوں گے۔
یہ تو رہی ایک طرف کی پکچر۔ اِسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومت کو جو اپنے پہ ہاتھ پیر ہلانے پڑ رہے ہیں تو کمزور لگنے کے بجائے وہ کچھ ٹھیک ہی لگ رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب سہارے ہٹے تو حکومت بالکل ہی بے دست و پا نظر آتی‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معاشی حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں، مہنگائی زوروں پہ ہے لیکن اِتنا تو واضح ہے کہ عوام سڑکوں پہ نہیں آ رہے، ملک میں کوئی ہنگامے نہیں ہو رہے، اپوزیشن جلسے کرتی رہے لیکن کوئی عوامی طوفان اٹھنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں آتی ہے تو کامیاب تبھی ہو گی جب نمبر پورے ہوں گے۔ نمبر پورے تب ہی ہوں گے کہ یا تو جہانگیر ترین گروپ کی بغاوت نمایاں شکل اختیار کرے اور اُن کے ہم نوا ایم این ایز کھل کے حکومت کے سامنے آ جائیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ترین گروپ کے کھلاڑی نون لیگ کے ٹکٹوں کے متمنی ہیں۔ ٹکٹوں کی ضمانت مل جائے تو علمِ بغاوت لہرا دیں گے‘ لیکن یہ کرنے کی باتیں ہیں اور اِس وقت عدمِ اعتماد کی تحریک کے حوالے سے میڈیا میں اِتنی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ مشکل ہے کس بات پہ یقین کیا جائے اور کس پر نہیں۔ ترین گروپ کے جو ایم این ایز ہیں وہ جیتے ہیں تو اکثر اُن جگہوں سے جہاں اُن کے مدِ مقابل نون لیگ کے امیدوار تھے۔ بغاوت والوں کو ٹکٹیں دی جاتی ہیں تو اپنے ناراض ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ یہ اتنی آسان بات نہیں۔ جتنے بھی جہانگیر ترین کے دل پہ وار ہوئے ہوں وہ احتیاط برتنے والے آدمی ہیں، محض جذبات میں شاید اِتنا کچھ نہ کریں۔ دوسری امداد جو لازم ہے عدمِ اعتماد تحریک کامیاب ہونے کیلئے ق لیگ کی ہے۔ چوہدری صاحبان جو بھی کریں اتنا اُن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ہلکی گیم نہیں کھیلیں گے۔ شریفوں کو کوئی جانتا ہے تو وہ چوہدری ہیں۔ شریفوں کو اندر اور باہر سے جانتے ہیں اور اُن کے وعدوں کو بھی چوہدری آزما چکے ہیں۔ اِس وقت حکومتی ایوانوں میں اُن کا طوطی بول رہا ہے۔ اُن کی اہمیت ہے اور جیسے جیسے عدمِ اعتماد کی باتیں آگے بڑھتی ہیں اُن کی اہمیت بڑھے گی۔ سوال پھر اٹھتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ کیوں جائیں؟ اُنہیں ملے گا کیا؟ آج اپنے مقدر کے خود محافظ ہیں۔ ہلکا قدم لیتے ہیں تو شریفوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ یہ کوئی دانائی تو نہیں لگتی۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جہاں سیاسی پیالیوں میں طوفان اٹھانے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں‘ عوام الناس ایسی کوششوں سے تقریباً لا تعلق لگتے ہیں۔ مہنگائی کا رونا ہر کوئی روتا ہے۔ عمران خان اور اُن کی حکومت کو برا بھلا بھی کہا جاتا ہے‘ لیکن ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی کہ لوگ کہیں کہ اِس حکومت کو ضرور گرانا ہے۔ سیاست دانوں کے اِدھر اُدھر آنے جانے سے عوام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑ رہا‘ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک نمبروں پر منحصر ہے عوامی موڈ پر نہیں۔ نمبر پورے ہو جائیں تو حکومت کی چھٹی ہو جاتی ہے‘ لیکن پھر کیا ہو گا، کوئی واضح صورت سامنے نہیں ہے۔ بہرحال اہم بات اِس وقت تو تعداد کی ہے۔ عمران خان جہاں اور کوششیں کر رہے ہیں کچھ توجہ اگر جہانگیر ترین پر دے دیں تواُن کی مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اِس بگاڑ کے پیچھے کچھ خاص وجہ بھی ہو گی لیکن ایک حد تک یہ خواہ مخواہ کی مصیبت خان صاحب نے اپنے لئے پیدا کی۔ جہاں چوہدریوں کی اِتنی سن رہے ہیں وہاں کچھ جہانگیر ترین کی بھی سن لیں تو شاید معاملات طے ہو سکیں۔
یہ رِسک بھی ہے کہ اگر عدمِ اعتماد کا یہ سارا واویلا کامیاب نہ ہوا تو پھر اپوزیشن والے تکتے ہی رہ جائیں گے۔ عمران خان جو پہلے سیاسی ٹریننگ نہیں لے سکے اُن کی سیاسی ٹریننگ اب ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کی بات نہ بنی تو لامحالہ فائدہ عمران خان کو پہنچتا ہے‘ اور اگلے الیکشن کیلئے اُن کی پوزیشن بہتر ہو جاتی ہے۔ ایک اور بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ چیلنج نمٹ گیا تو نومبر کے حوالے سے جو تبدیلیاں ہونی ہیں عمران خان پھر اپنے فیصلے کریں گے بغیر اِدھر اُدھر دیکھنے کے‘ یعنی پھر وہ اپنی مرضی کر سکیں گے۔