ایک زمانہ تھا کوئی جلسہ نہیں چھوڑتے تھے۔ کسی ہلچل یا ہنگامے کی خبر ملتی تو ہمارا وہاں جانا لازمی ہوتا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں تو یہ حالت تھی کہ ایم آر ڈی کا کوئی چھوٹا سا جلسہ بھی لاہور میں ہوتا تو ہم ضروری سمجھتے کہ اسلام آباد سے وہاں پہنچا جائے۔ اُس زمانے میں اسلام آباد اور لاہور کے درمیان پی آئی اے کی فوکر فلائٹیں چلتی تھیں۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ فلائٹ کے چالیس منٹ پہلے اسلام آباد کے گھر سے نکلتے، پندرہ منٹ میں پرانے ایئر پورٹ پہنچتے، ٹکٹ وہیں سے خریدا جاتا اور فلائٹ سے پندرہ منٹ پہلے جہاز پہ چڑھتے۔ ایم آر ڈی کے کون سے بڑے جلسے ہوتے تھے‘ لیکن اُن میں شریک ہو کر ہم سمجھتے تھے کہ جنرل ضیا کے خلاف تحریک اٹھ رہی ہے۔ جلسے کے بعد لاہور کے پرانے ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لئے آخری فلائٹ پکڑتے۔ گھر پہنچ کر ظاہر ہے سامانِ شب کا کچھ اہتمام ہوتا۔
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لاہور میں ہمارے میزبان سلمان تاثیر ہوا کرتے تھے۔ اُنہی کی گاڑی ہمیں ایئر پورٹ سے لینے آتی اور ایئر پورٹ واپسی کا اہتمام بھی ایسا ہی ہوتا۔ اپریل 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی بیرون ملک سے آمد تھی تو ایک دن پہلے لاہور پہنچے اور سلمان تاثیر کے گھر ہی قیام کیا۔ اُس زمانے میں غیر ملکی صحافیوں کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ فوجی حکومت ہونے کی وجہ سے اخبارات محتاط طریقے سے چلتے تھے۔ ٹیلی ویژن چینلز تب تھے نہیں، سی این این وغیرہ کی آمد بعد کی بات ہے۔ اِن سب وجوہات کی بنا پر خبروں کے سلسلے میں غیر ملکی نیوز اداروں پر انحصار زیادہ ہوتا تھا۔ بی بی سی کی اردو سروس پر خبر آ جاتی یا کسی امریکی یا برطانوی اخبار یا جریدے میں کچھ ذکر آ جاتا تو بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پاکستان کے لئے ہی نہیں عالمی تناظر میں بھی بڑی خبر تھی‘ اِس لئے بہت سے غیر ملکی صحافی اِس واقعے کی کوریج کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے۔ صبح ہم پرانے ایئر پورٹ سے ہی عوام کے ہجوم کے ساتھ ہو لئے اور سارا دن پھر جلوس کے ساتھ ہی رہے۔
صبح سے لے کر شام تک بے نظیر بھٹو ٹرک میں کھڑی رہیں اور رات ایک جگہ کھانا تھا۔ بہت سارے لوگوں میں ہم بھی مدعو تھے اور وہاں جب انہیں دیکھا تو تھکاوٹ کے کوئی آثار اُن کے چہرے پر نہیں تھے۔ کھانا کیا تھا ایک قسم کا مجمع تھا۔ بڑے سے ڈرائنگ روم میں محترمہ ایک طرف بیٹھی تھیں اور میں دوسری جانب دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ ایک آدھ دفعہ محترمہ سے مل چکا تھا اِس لئے مجھے پہچانتی تھیں۔ کچھ دور سے میری طرف سر ہلایا تو دائیں بائیں کھڑے لوگ میری طرف دیکھنے لگے کہ جیسے میرے ساتھ خاص مہربانی کی گئی ہے۔ یہ درست بھی ہے کہ 1986ء میں بے نظیر بھٹو کا اتنا کرشمہ تھا اور اُن کی ذات سے ایسے تصورات وابستہ تھے کہ اُن کی طرف سے ایک ہاتھ کا اشارہ بھی بڑا معنی رکھتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ کرشمہ کم ہوا لیکن یہ ایک دوسری کہانی ہے۔
دیگر جلسوں کو چھوڑیئے، اسلام آباد میں علامہ طاہرالقادری کے اکٹھ ہوئے اور میں اِس کے باوجود کہ نون لیگ کا ایم این اے تھا‘ وہاں پہنچ جاتا۔ علامہ صاحب سے تو کبھی متاثر نہیں ہوا لیکن اُن کے انتھک ورکروں سے مل کر ایک عجیب سی کیفیت ہوتی کہ ایسے بھی لوگ اِس دھر تی پر ہیں۔ اُس سے پہلے وکلا تحریک ہوئی تھی تو کون سی جگہ تھی جہاں ہم پہنچے نہیں ہوتے تھے۔ افتخار چوہدری صاحب کی لاہور آمد تھی تو ایک رات پہلے لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں پہنچنا ہوا۔ ٹیلی ویژن کیمرے ایک اونچی جگہ پہ لگے ہوئے تھے۔ ہم وہاں پہنچ گئے اور رات دیر ہو گئی تو وہیں فرش پہ سو گئے۔ عمران خان کے دھرنے اور کنٹینر پر ہونے والے روزانہ کے ڈراموں سے اِتنا شغف نہ تھا‘ لیکن ایک دو بار وہاں بھی گئے۔ لیکن غالب کا وہ کیا شعر ہے وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی۔ ایک بڑے ڈرامے کا سٹیج اسلام آباد میں سج رہا ہے، پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک مارچ قسم کی مشق ہو رہی ہے، سیاست داؤ پہ لگی ہوئی ہے، حکومت گرانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں‘ لیکن ذرا سا دل بھی نہیں کر رہا کہ اسلام آباد جائیں‘ لوگوں سے ملیں اور دریافت کریں کہ کیا ہونے والا ہے۔
صرف زمانے کی مار ہوتی تو کہتے کہ ضعیفی آن پڑی ہے اِس میں کیا اِدھر اُدھر بھاگیں۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ زمانے کی مار سے زیادہ دلچسپی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ عمران خان جاتے ہیں تو ہم کیا نوحہ پڑھیں، بچ جاتے ہیں تو کون سے شادیانے بجائیں۔ جہانگیر ترین گروپ کیا شے ہے اور کیا کرنے جا رہا ہے، علیم خان کی ناراضگی عمران خان کو کتنی بھاری پڑے گی، خدا کی قسم اِن سوالات اور اِن سے پیدا ہونے والے واقعات سے دل میں ذرہ برابر بھی دل چسپی پیدا نہیں ہو رہی۔ علیم خان جیسے لوگ آئیں یا جائیں ہم کیا کریں۔ موجودہ سٹیج پر جو سیاسی اداکار ہیں‘ ہم سب کو دیکھ بیٹھیں ہیں۔ اِن میں سے پھر کوئی آتا ہے تو بتائیے تو سہی اِس بد بخت قوم کو کیا فرق پڑے گا۔ قبلہ مولانا فضل الرحمن سے ہمارا کیا لینا دینا۔ زرداری برانڈ پیپلز پارٹی سے ہم نے کیا کرنا ہے؟ نون لیگی قیادت نے اگر قوم پر چوتھی بار سوار ہونا ہے تو اُن کی اور جائیدادیں بن جائیں گی۔ قوم اور اُس کے حالات نے تو ایسا ہی رہنا ہے۔
بہت کچھ دیکھ چکے ہوتے تو کہتے کہ اور دیکھنے کی سکت نہیں‘ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ ایک ہی قسم کا گھسا پٹا گراموفون ریکارڈ چل رہا ہے۔ ایک ہی قسم کی داستان سٹیج پر دہرائی جا رہی ہے۔ جو ہجوم عمران خان کے پیچھے تھا اُس نے پتا نہیں اِن کو کیا سمجھ لیا تھا کہ آئیں گے اور معجزات رونما ہوں گے۔ ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ عمران خان بھی ایک پرانا بجنے والا ریکارڈ ثابت ہوئے ہیں۔ جاتے ہیں یا رہتے ہیں یہ تو اللہ جانے لیکن کوئی اور آتے ہیں تو اُنہیں لوگوں میں سے ہوں گے جن کو ہم دیکھ اور آزما چکے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا پرابلم وہ ہے جس کے لئے ایک انگریزی لفظ ہی فِٹ آتا ہے، mediocrity‘ جس کا مطلب ہے اوسط قسم کی عقل اور قابلیت۔ معاشی حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں، سوچ اور تصورات کا چھوٹا پن، اِس کا علاج کون کرے گا۔ میلسی کے جلسے میں عمران خان نے غلامی کی بات کی۔ دیکھا جائے تو کسی اور نے ہم پر غلامی مسلط نہیں کی۔ اپنے ذہن ہم نے خود بند کئے ہوئے ہیں۔ اِس سے بڑی غلامی کون سی ہو گی؟
ایک بات ویسے سوچنے کی ہے۔ پورے ایشیا کے کسی ملک میں زرداریوں اور شریف زادوں سے زیادہ امیر سیاست دان نہیں ملیں گے۔ ہندوستان کی مثال لیں‘ وہاں بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں لیکن یہ پاکستان کا منفرد اعزاز ہے کہ دو بڑے لیڈر اِتنی گہری جیبیں رکھتے ہیں۔ مزید اعزاز کی بات یہ ہے کہ یہ پیسہ سرمایہ داری سے نہیں سیاست سے آیا ہے۔