سردیوں میں اِس بیماری نے آن پکڑا تھا جس کی وبا ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ گلے میں تکلیف اِتنی شدید تھی کہ دل میں آواز اٹھی کہ آخری حساب کا وقت آئے گا تو التجا ہو گی کہ ہر سزا منظور ہے‘ گلے میں درد نہ ہو۔ خدا تو یاد آیا موت بھی نظر آنے لگی تھی اور اِسی کیفیت میں اپنے سے ارادہ کیا کہ توبہ تائب کا وقت آ گیا ہے اور محافلِ شب سے اجتناب کرتے ہیں۔ ارادہ پکا تھا اور لگ بھگ چھ سات ہفتے اِس پہ کاربند رہے۔ دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا جن سے خدشہ تھا کہ ارادہ کمزور نہ پڑ جائے۔
ہم واقعی سمجھے کہ کایا پلٹ گئی ہے‘ ماضی کو بھلا دیا ہے اور ایک نئی منزل کی طرف چل پڑے ہیں۔ جن مدد گاروں کے سہارے زندگی گزرتی ہے وہ خاصے حیران ہوئے۔ ایک آدھ نے پوچھا بھی کہ پکا فیصلہ ہو گیا ہے اور ہم نے اثبات میں جواب دیا۔ اُن چھ سات ہفتوں میں تبدیلی کا عالم یہ تھا کہ کچھ سامان جو مخصوص مقاصد کے لئے پڑا ہوا تھا وہ ہم نے ایک دو خاص دوستوں میں بانٹ دیا۔ اُن کی حیرانی کی بھی کوئی انتہا نہ تھی، پوچھنے لگے: خیر تو ہے؟ ساتواں ہفتہ آیا تو طبیعت بیزار سی ہونے لگی۔ اِس وقفہ ِاجتناب میں ایک تو ہم رات کا کھانا جلد کھا لیتے تھے اور پھر نو‘ ساڑھے نو بجے بستر پہ لیٹنا معمول ہو گیا تھا۔ پہلے پہلے تو اپنے آپ کو بڑا تروتازہ محسوس کیا۔ صبح سویرے ہی اٹھ جاتے تھے، جو معمول کی ورزش ہے وہ بھی جلد ہو جاتی۔ اپنے ہی مختصر سے باغ میں کینو اور مالٹے کا پھل لگا ہوا تھا۔ اِنہی سے نکالا جوس پیا جاتا۔ خدا کا شکر ادا کرتے کہ صحیح راستے پر آ گئے ہیں‘ لیکن افسوس کہ پارسائی کا یہ بخار زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔
وجہ بیان کی جائے تو طبیعت ہی قصور وار ٹھہری، نیک ارادوں پر قائم نہ رہ سکی۔ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ سخت قسم کی بوریت طاری ہونے لگی تھی۔ سوچا کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ شام ڈھلے ہی بستر کی طرف چل پڑیں۔ کچھ دن تو ایسا کیا جا سکتا ہے لیکن جب معمول بن جائے تو بھاری لگنے لگتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی تو ملک کے نامور ڈاکٹر میجر جنرل اظہر محمود کیانی یاد آئے۔ کچھ سال پہلے اے ایف آئی سی دل کا معائنہ کرانے گئے تھے اور جب فارغ ہوئے تو جنرل صاحب نے کچھ دوائیاں تجویز کیں اور آخر میں ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہا کہ وہ جو دوسری بات ہے اُس کا کچھ خیال کرنا پڑے گا۔ ڈر لگا کہ کہیں جنرل صاحب مکمل پابندی نہ لگا دیں لیکن اُن کی کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا ملاحظہ ہو کہ کہنے لگے کہ ہفتے میں تین بار کر لیا کرو۔ یہ سن کے جان میں جان آئی اور جنرل صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہسپتال سے نکلے۔
یہ تو پرانی بات تھی لیکن جو امتحان ہم پہ اب آن پڑا کہ ایک طرف لوہے جیسا ارادہ اور دوسری طرف بگڑتا ہوا مزاج اور اُچاٹ ہوتی ہوئی طبیعت تو جنرل صاحب ہی یاد آئے اور ہم نے اپنے آپ سے کہا کہ ہم کون ہیں اور ہماری کیا حیثیت کہ اِتنے بڑے معالج سے مختلف رائے رکھیں۔ جب اُنہوں نے ہفتے میں تین دن کا کہہ دیا تھا تو کچھ سوچ سمجھ کے ایسا کہا ہو گا۔ اور ہم ہیں کہ اپنے اوپر سخت قسم کا مارشل لاء لگا رہے ہیں۔ اور ایسا کرنے سے وہی نتیجہ نکلنا تھا جو ہم دیکھ رہے تھے۔ بہرحال پارسائی کا دامن مکمل نہیں چھوڑا اور اپنے آپ سے ارادہ ظاہر کیا کہ انتہا کی ہر چیز یقینا بہت بری بات ہے اور بہتری میانہ روی ہی میں ہے۔ اِس لئے ماضی کی تمام روایتوں کے برعکس جنرل صاحب کا سچ ہم نے مان لیا ہے اور سچ پوچھئے اِس سے فائدہ بھی بہت ہو رہا ہے۔ قسم البتہ ٹوٹ گئی اور اُس کا افسوس ہے لیکن یہ کہنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ طبیعت بحال ہو چکی ہے۔ جس بیزاری نے دل کو آن گھیرا تھا وہ چلی گئی ہے۔
آئینے میں جا کر اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو آنکھوں میں پرانا اعتماد جھلکتا نظر آتا ہے۔ خدا کے نیک بندوں سے سن رکھا تھا کہ میانہ روی بہت بڑی بات ہے اور یہ اپنا کے اِس کی حقیقت ہم پر آشکار ہو چکی ہے۔ اب پکا معمول ہے کہ ہفتے میں تین بار ہی ہاتھ میز کی طرف جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ایک اور چیز بھی ہوئی ہے کہ اِس ضمن میں جو حب الوطنی ہمیں مجبوراً اپنانی پڑی تھی وہ ختم کر دی ہے۔ پاکستانی اشیا کو اِس لئے ترجیح دینا پڑی تھی کہ دو نمبری بہت تھی، کسی چیز پر یقین کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ دام آسمانوں کو چھوتے ہوئے اور نیچے مکمل دو نمبری۔ پچھلے دنوں جس کلب میں ہمارا آنا جانا رہتا ہے وہاں کے ایک بھلے مانس نے بتایا کہ فلاں جگہ انتظام نہایت موزوں ہے اور دو نمبری کا خطرہ نہیں ہے۔ جا کے آزمایا تو اُن کا کہنا ٹھیک ہی نکلا۔ ظاہر ہے بازار سے اچھا مال لیں گے تو اُس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ ایسا کر رہے ہیں اور اِس بات کا کوئی افسوس بھی نہیں۔ اول تو انسان جھَک مارے نہیں، مارنی ہے کوئی ڈھنگ کی بات تو ہو۔ ہم نے اپنا حال یہ کر لیا ہے کہ جو چیزیں پوری دنیا میں نارمل سمجھی جاتی ہیں ہم نے اُنہیں مشکل ترین بنا دیا ہے۔ اِس سے کوئی فائدہ ہوا ہو پھر تو کوئی بات ہے لیکن جس قسم کی مصنوعی پارسائی یہاں رائج ہے اس سے ہمارا معاشرہ بہتر نہیں ہوا۔ دیکھا جائے تو معاشرے کی قدریں زوال کی طرف ہی گئی ہیں۔ لیکن معاشرے کو ہم کیا کریں۔ ہم کوئی ریفارمر نہیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں وہ آئے جو اپنے آپ کو بڑے معمارِ وطن سمجھتے تھے لیکن انہوں نے چیزوں کو برباد ہی کیا۔ اِن موجودہ کو دیکھ لیں، سوائے باتوں کے انہوں نے اِس قوم کو کیا دیا ہے؟ اور وہ جو اِن کو ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں اُنہوں نے کیا کرنا ہے؟
لیکن اپنی بات پر ختم کرتے ہیں۔ اب تک اللہ کا فضل ہے کہ ہر چیز سے ہم رہ نہیں گئے۔ اچھا برا گزارہ چل رہا ہے۔ کھانے میں اعتدال زمانے سے رہا ہے۔ ایک چیز میں اعتدال نہیں تھا لیکن جب جنرل کیانی کی تاکید یاد آئی تو اُس میں بھی اعتدال آ گیا ہے۔ اِس درمیان کے راستے پر چلتے ہوئے گزارا ہو رہا ہے۔ اِس مہنگائی کے زمانے میں بھی ضروری اشیا دستیاب ہو جائیں اور چیزیں بھی کوالٹی کی ہوں تو بہکا ہوا انسان اور کیا مانگے۔ دنیا کا ہنگامہ ختم نہیں ہوتا، چلتا رہے گا۔ ہم نہیں تھے تو دنیا آباد تھی۔ ہم جیسے نہ ہوں گے تو کون سا کاروبارِ زندگی بند ہو جائے گا۔ یا تو انسان کوئی بڑا کام کرے لیکن ہر ایک کے نصیب میں بڑے کام نہیں لکھے ہوتے۔ اِس لئے رہ جاتا ہے جینا اور یہ تو انسان اسلوب سے کرے۔
بظاہر کوئی محفل ہو نہ ہو، اور ہمارے ہاں تو افسوس ناک کیفیت یہ ہے کہ ظاہری محفلیں محدود ہو چکی ہیں، لیکن دل کی شمع تو روشن رہنی چاہئے۔ ہاتھ میں جنبش تو رہے ‘نہیں تو جینے کا مزہ کیا رہ جاتا ہے۔