اتوار کی شب احتجاج کے مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔ عوام کا بپھرا ہوا سمندر‘ یہ ہر ایک کے نصیب میں کہاں لکھا ہوتا ہے۔ مشرف کے زمانے میں نون لیگیوں کیلئے مال لاہور پر ڈیڑھ سو افراد کا مجمع اکٹھا کرنا مشکل ہوتا اور یہاں عمران خان ہیں، بس ٹی وی خطاب میں اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستانیو! پرسوں باہر نکلنا ہے اور جب پرسوں آتی ہے تو چھوٹے شہروں سے لے کر بڑوں تک اور پھر دنیا کے مختلف مقامات پر‘ جہاں پاکستانی بستے ہیں‘ عوامی امنگوں کا ایک ایسا مظاہرہ جو روز روز نظر نہیں آتا۔ یہ عمران خان کا اعزاز ہے، اُنہی کی قسمت۔ قائد اعظم تھے، بعد میں ذوالفقار علی بھٹو آئے اور اب عمران خان۔ اور کوئی پاکستانی لیڈر نہیں جس کی آواز میں اِتنی طاقت ہو۔
لیکن محض غصے یا نعروں سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ عوامی طاقت آپ کے ساتھ ہو تو آنکھوں کے سامنے کچھ مقصد بھی تو ہو کہ اِس عوامی طاقت کے سہارے یہ کچھ حاصل کرنا ہے، ایسا پاکستان بنانا ہے۔ 2018ء میں بھی عمران خان کے پیچھے عوامی طاقت تھی۔ اقتدار میں آئے اور حکمرانی کرنے کا اُنہیں پورا موقع ملا‘ لیکن لگ بھگ ساڑھے تین سال کا عرصہ وہ اقتدار میں رہے اُس سے حاصل کیا ہوا؟ اب یہ کہنا کہ پنجاب میں صحت کارڈ تقسیم ہوئے اور احساس پروگرام کے تحت عوام کے کچھ طبقات میں کچھ پیسے تقسیم ہوئے یہ کیا بات ہوئی؟
عمران خان کی حکومت بنتے ہم نے دیکھی۔ ان سب لوٹوں کو لینے کی ضرورت کیا تھی؟ آج لوٹے بھاگ چکے ہیں، ان کے اپنے لوگ ساتھ رہ گئے ہیں۔ 2018ء میں بھی اِنہی پر انحصار تھا، اِنہی کا سہارا لیا جا رہا تھا۔ آج آپ امپورٹڈ حکومت کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ آپ نے بھی تو پتا نہیں کہاں کہاں سے لوگ امپورٹ کئے۔ اِس بحران میں آپ کے اپنے لوگوں کا کتنا اعلیٰ کردار رہا۔ سپیکر اسد قیصر نے استعفیٰ دے دیا اِس بنا پر کہ چھبیس سال عمران خان کے ساتھ چلے ہیں اب جو ہونے والا ہے دل برداشت نہیں کرے گا۔ آخر میں علی محمد خان نے کیسی دل موہ لینے والی تقریر کی۔ گورنر کے پی شاہ فرمان نے استعفیٰ دے دیا یہ کہتے ہوئے کہ بطور گورنر جو پرائم منسٹر کو پروٹوکول دینا اُن کا فرض بنتا ہے وہ نہیں ادا کر سکیں گے کیونکہ عمران خان کے ساتھ اِتنا لمبا سفر اُنہوں نے طے کیا ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا استعفیٰ پڑھنے کے لائق ہے۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھی ہیں، ایسے شخص کو پروٹوکول نہیں دے سکتے جس کے خلاف کرپشن کے اِتنے گمبھیر الزامات ہیں۔ کوئی بات تو ہوئی۔ اِنہی لوگوں پر انحصار کرنا چاہئے تھا۔ اپنے وفاداروں کو ٹکٹ دینے چاہئیں تھے۔ مطلوبہ اکثریت نہ بھی ملتی تو بہتر تھا۔ اِس سارے گند سے تو بچ جاتے۔ بہرحال جو ہونا تھا ہوچکا۔ اب ایک نئے سفر کا آغاز ہے اور دیکھتے ہیں کہ ملک اور قوم کو یہ کہاں لے کر جاتا ہے۔
پہلی بار تو عذر بنا کہ تیاری نہ تھی، اب کی بار تو یہ عذر نہ بنے۔ میدان سامنے ہے، عوام کی پذیرائی عمران خان کے ساتھ ہے۔ احتجاج یا الیکشن مہم کا آغاز اُنہوں نے اب سے ہی کردیا ہے۔ دیگر امور پہ بھی توجہ دینی چاہئے۔ اِن کا بالکل چانس بنتا ہے کہ پھر سے اقتدار میں آئیں اور اِس بار بغیر بیساکھیوں کے ایوانِ اقتدار میں داخل ہوں۔ پچھلی کوتاہیوں کو سامنے رکھیں اور سبق حاصل کریں۔ شہباز شریف کوئی مثالی لیڈر نہیں ہیں۔ اُن کے اوپر کرپشن کے متعدد مقدمات بنے ہوئے ہیں جو ظاہر ہے وہ مٹانے کی کوشش کریں گے۔ ایک بیٹا باہر بھاگا ہوا ہے، داماد بھی بھگوڑا ہے۔ جوں جوں مقدمات ہٹیں گے پی ٹی آئی والے پھبتیاں کسیں گے اور انہیں کہنے کا موقع ملے گا کہ ہم نہ کہتے تھے کہ اِس سارے تماشے کا مقصد مقدمات کو ختم کرنا ہے؟
عوام عمران خان کے ساتھ ہیں، لہٰذا عمران خان نے جو بھی کیا درست کیا۔ ہم جیسے یا کوئی اور اختلاف کریں تو اُس سے کیا بنتا ہے۔ عوام کا ریلا تو دوسری طرف بہہ رہا ہے اور اب سے لے کر انتخابات تک عمران خان کے اشاروں پر ہی بہے گا۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ اِس بحران کے پیچھے کون سی قوتیں تھیں۔ امریکہ کا تو چلیں ایک آسان نعرہ ہے، لوگ جانتے ہیں کہ کن کی شہ پر اپوزیشن پارٹیاں اکٹھی ہوکر عمران خان پر حملہ آور ہوئیں۔ اتوار کی شام کچھ نعرے بھی ایسے لگے جو مختلف حلقوں کیلئے تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ ایک نئی چیز ہے۔ یہ احتجاج جو اٹھ رہا ہے اِس کا سکوپ زیادہ وسیع ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اِن مخصوص حلقوں میں بھی عمران خان کی بے پناہ سپورٹ ہے۔ اور اِن حلقوں میں بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ کس انداز سے عمران خان کو ہٹایا گیا۔ دیکھتے ہیں اِن سارے عوامل سے کیا نکلتا ہے۔
فی الوقت تو دیکھیں‘ نئے آنے والے کیا کررہے ہیں۔ شہبازشریف نے اپنے پرانے معتمد ڈاکٹر توقیر شاہ کو اپنا پرنسپل سیکرٹری لگایا ہے۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ کے وقت جب شہباز شریف چیف منسٹر پنجاب تھے تو اِن کے پرنسپل سیکرٹری یہی ڈاکٹر توقیر شاہ تھے۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ کی وجہ سے شور اٹھا تو ڈاکٹر توقیر شاہ کی تعیناتی جنیوا میںکردی گئی۔ واپس آئے اور پھر بھی اِن پر مختلف نوعیت کے الزامات تھے۔ اب کرشمۂ اتفاق دیکھئے کہ حالات بدلے ہیں اور سب الزامات سے بچتے ہوئے توقیر شاہ پھر سے ایک بہت اہم پوزیشن پر فائز ہو گئے ہیں۔ ہم جیسے سمجھتے تھے شریفوں کی طاقت ٹوٹ جائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور حیران کن طور پر وہ پھر سے واپس اقتدار میں آگئے ہیں۔
بہرحال عمران خان کا سب سے بڑا سیاسی کارنامہ یہی تھا کہ اُنہوں نے اِن دو خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کو توڑا۔ اِن سے غلطیاں ہوئیں اور سیاسی محاذ پر اِنہیں دھچکا لگا‘ لیکن یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ پاکستان میں اور کوئی شخص شریفوں اور زرداریوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ اور اب اقتدار سے محروم ہوتے ہوئے بھی عمران خان کی عوامی طاقت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ شریفوں اور زرداریوں کو اب بھی خطرہ ہے تو اِنہی سے ہے۔ مفروضے کے طور پر سوچئے تو سہی عمران خان نہ ہوتے تو اِن خاندانوں کے ہوتے ہوئے قوم کا حال کیا ہوتا۔ اب بھی کچھ نہیں گیا بلکہ ایک لحاظ سے حالات بہتر ہیں۔ اب موقع ہے کاروان کو پھر سے تیار کیا جائے اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر منزل کی طرف سفر شروع کیا جائے۔
با اثر حلقوں سے بھی غلطی ہوئی اور جوں جوں وقت گزرے گا غلطی کا احساس گہرا ہوتا جائے گا۔ جس انداز سے بھی اپوزیشن جماعتوں کو شہ ملی تبدیلیٔ حکومت سے حاصل کیا ہوگا۔ یا تو عمران خان سیاسی طور پر ختم ہو جاتے پھر تو ٹھیک تھا لیکن اب سب پر عیاں ہے کہ پہلے سے زیادہ طاقتور طور پر ابھر رہے ہیں۔ نئے نعروں کی گونج بڑھتی رہے گی۔ لہٰذا حاصل کیا ہوگا؟
احتجاج کے راستے کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ جلسے ہوں گے اور یہ سلسلہ انتخابات تک جاری رہے گا۔ کچھ خیر کا پہلو اِس سے نکلے۔ قومی منظرنامے میں فضول باتیں کم ہوں، وعظ و نصیحت بھی تھوڑا کم ہو۔ بحران سیاسی ہے اور اب موقع ہے کہ صحیح معنوں میں پاکستان آگے کی طرف چل سکے۔ دلچسپ وقت ہے اور دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔