"AYA" (space) message & send to 7575

بات جو ہضم نہیں ہو رہی

سوال جو قومی منظر نامے میں اُٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ مقصد کیا تھا‘ حاصل کیا کرنا تھا؟کارکردگی کے حوالے سے عمران خان پر تنقید ہو سکتی تھی اور ہو بھی رہی تھی لیکن حکومت چل رہی تھی‘ ملک میں کوئی افراتفری نہیں تھی۔ ہڑتالیں نہیں ہو رہیں تھیں‘ بازار کسی نے بند نہیں کئے تھے۔ روزمرہ کی زندگی معمول سے چل رہی تھی۔اپوزیشن جماعتیں شروع دن سے عمران خان کے خلاف تھیں لیکن یہ بھی ہمارے ہاں معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں ان کے خلاف برسرپیکار ہو جاتی ہیں۔ اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن اچانک کہیں سے عدم اعتماد کی تحریک آگئی۔ یہ کیسے ہوا؟
ہم جیسے برملا کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں تبدیلی کی لہریں تب ہی ٹھاٹھیں مارنے لگتی ہیں جب پیچھے سے کوئی تھپکی یا اشارہ ہوتا ہے۔عدم اعتماد تحریک کی باتیں شروع ہوئیں تو ہم جیسے کہتے تھے کہ تحریک تب ہی کچھ شکل اختیار کرے گی اور رنگ لائے گی جب کہیں دور اندھیروں میں سے کوئی اشیرباد ملے۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تحریک زور پکڑتی گئی۔ اپوزیشن جماعتوں سے جو بات نہیں بن رہی تھی وہ آناًفاناً ایک واضح شکل اختیار کرتی گئی۔ پی ٹی آئی کے اندر دراڑیں پڑ گئیں اور اتحادی جن کے بل بوتے پر پی ٹی آئی کی حکومت کھڑی تھی وہ حکومت سے دور ہونے لگے۔ واقعاتی ثبوت کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور واضح ثبوت نہیں کہ تھپکی ملی یا نہ ملی اور اگر ملی تو اُس کا انداز کیا تھا۔اس بارے میں ہم اندھیرے میں ہیںلیکن اتنا تو واضح ہو چکا ہے کہ جن قوتوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ وَن پیج پر ہیں اُنہی کی طرف سے خبریں آنے لگیں کہ وہ نیوٹرل ہو چکی ہیں۔یعنی حکومت کو جو ایک بڑی سپورٹ تھی اُس کے ستون اور پھٹے تھوڑا کھسکتے جا رہے تھے۔ یہ عمل اس حد تک جاری رہا کہ حکومت یک و تنہا رہ گئی۔
آج کے تناظر میں بہت کم لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اور اُن کی حکومت کی کارکردگی کسی لحاظ سے بھی مثالی تھی لیکن سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ تبدیلیٔ حکومت میں جتنا بھی حصہ ڈالا گیا‘ زیادہ یا تھوڑا‘ اُس کا مقصد کیاتھا؟کیونکہ ہوا تو یہ ہے کہ عمران خان سے تو وقتی چھٹکارا حاصل کر لیا گیا ہے لیکن اُن کی جگہ کون آئے ہیں ؟ وہ چہرے جو قوم پچھلے چالیس سال دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے ہیں۔ایسے چہرے ہیں جن کے گرد داستانیں لکھی گئی ہیں۔جن کے اوپر سنگین الزامات ہیں‘ کرپشن کی ایسی کہانیاں ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ ایک تیسری دنیا کے ملک میں اتنی بھی لوٹ مار ہو سکتی ہے‘لہٰذا سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ یہ سارا ناٹک اسی لئے رچایا گیا کہ مبینہ طور پر داغدار چہروں کو واپس اقتدار میں لایا جائے؟
یہ سوال پوچھ کون رہا ہے ؟بلوچستان یا اندرونِ سندھ میں یہ سوال پوچھا جاتا تو پھر کسی کو کیا پروا تھی۔ لیکن یہ سوال ہمارے شہروں کے وہ طبقات پوچھ رہے ہیں جو پڑھے لکھے اور باشعور سمجھتے جاتے ہیںاور جن کے بارے میںیہ کہاجاسکتا ہے کہ ہماری ریاست کی مین سٹریم فکر اور سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہی طبقات ہیں جو ہمارے مختلف اداروں میں بھی بیٹھے ہیں۔ بڑے بڑے افسر انہی طبقات سے ابھرتے ہیں۔ اب کی بار یہ ہوا ہے کہ صرف خاندانوں کے مرد یا بڑے لوگ یہ سوال نہیں پوچھ رہے بلکہ خواتین اور نوجوان‘ بچے اور بچیاں نہ صرف یہ سوال پوچھ رہے ہیں بلکہ دیوانہ وار عمران خان کے جلسوں میں حاضریاں دے رہے ہیں۔اور جسے ہم ریاست کہتے ہیں یہ امر اُس کیلئے باعثِ تشویش بن رہا ہے کہ پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں یہ پوچھا جا رہا ہے کہ ایک سیاسی تبدیلی میں مددگار ثابت ہونے کا آخر مقصد کیا تھا؟
مشرقی پاکستان میں سیاسی تبدیلی کیا لانی تھی باقاعدہ فوجی ایکشن کرایا گیا لیکن اُس وقت مغربی پاکستان میں اشرافیہ اور ان جیسے طبقات میں کوئی سوال نہیں پوچھے گئے تھے۔ جنرل ضیا اور اُن کے ساتھیوں نے اقتدارپر غاصبانہ قبضہ کیا تو اشرافیہ میں کوئی بے چینی کی لہر نہ اُٹھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگی‘ اشرافیہ میں کچھ نہ ہوا۔ جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اشرافیہ کے کئی کونوں میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔پانامہ پیپرز میں نوازشریف کو ہٹایا گیا تو جی ٹی روڈ میں کوئی اُبھار نہ آیااورمقتدر طبقات میں نوازشریف کے بارے میں کوئی فکر نہ تھی۔ایک زما نہ تھا جب پنجاب کے اوپر کے طبقات میں نوازشریف کو حب الوطنی اور شرافت کی ایک نشانی سمجھا جاتا تھا لیکن وہ وقت گزر گیا اور مشرف کے دور میں نوازشریف اور نون لیگ کی ساری اخلاقی پالش اترچکی تھی۔
یہ اب پہلی بار ہوا ہے کہ عمران خان اقتدار سے ہٹا ہے اور ایک بے چینی اور غصے کی لہر نہ صرف عمران خان کے باقاعدہ حامیوں میں بلکہ مڈل کلاس‘ پڑھے لکھے لوگوں‘ خواتین اور نوجوانوں میں پھیل گئی ہے۔ یہ شاید کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ایساہوسکتا ہے۔ لیکن جب ہو گیا ہے تو ٹھیکیدارانِ ملک و قوم پریشان ہیں۔ اُن کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کہیں اور کیا کریں۔ تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں‘ مستقبل کے بارے میں تسلیاں دی جا رہی ہیں لیکن کیا عجوبہ ہے کہ قوم کے بیشتر مکتب ِ ٔفکر اُن کی باتوں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں۔
پہلی بار ہے کہ ایسا تضاد کھل کر سامنے آیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ مختلف تضادات سے بھری پڑی ہے لیکن اُن تضادات کی نوعیت اور ہوا کرتی تھی۔ اہلِ بنگال اور ریاست کا تضاد‘ بلوچیوں اور ریاست کا تضاد‘ نچلے طبقات اور اوپروالوں کا تضاد‘ ایسے تو ہم دیکھتے آئے ہیں لیکن عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد جو صورتحال ملک و قوم کو درپیش ہے وہ بالکل الگ نوعیت کی ہے۔ یہ تضاد اشرافیہ یا حکمران طبقات میں ہے یعنی یہ بحران حکمران طبقے کا ہے۔ سوال دور دراز رہنے والے بلوچی یا سندھی نہیں پوچھ رہے بلکہ مختلف ایوانان ِ ریاست سے سوال اُٹھ رہا ہے کہ قومی منظر نامے میں جو کچھ ہوا اُس کی ضرورت اور افادیت کیا تھی؟ جیسے اوپر عرض کیا ایک فرشتہ صفت ٹولا اقتدار میں لایا جاتا پھر تو کہا جاسکتا تھا کہ قوم و ملت کی یہ ضرورت ہے اور جن بحرانوں کا قوم کو سامنا ہے اُن سے نمٹنے کیلئے عمران خان کو ہٹانا اور فرشتہ صفتوں کو اقتدار میں لانا ناگزیرتھالیکن جب معصوم صفتوں میں ایسی شخصیات ہوں جن کے خلاف بھاری بھرکم کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہوںپھر سوال تو پوچھے جائیں گے‘ غم و غصے کی لہر بھی اُٹھے گی۔
یہ حقیقت تو مولانا فضل الرحمن بھی بھانپ چکے ہیں کہ موجودہ اقتدار میں لایا گیا ٹولا زیادہ دیر اقتدار سے چمٹا نہیں رہ سکتا۔ مولانا نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مصلحتوں کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے اور اب جلد سے جلد الیکشن ہونے چاہئیں۔ خواجہ آصف ا س آنے والے ٹولے کے ایک مرکزی ستون سمجھے جائیں گے لیکن اُ نہوںنے بھی کہا کہ موجودہ بحران کا واحد حل فوری انتخابات ہیں۔جو ہوا سو ہوا‘ اب اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ آگے کیا بنتا ہے‘ ہم کیا جانیں لیکن جو طوفان اٹھ رہا ہے وہ فوری انتخابات سے ہی تھم سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں