فوری انتخابات کا مطلب ہے عمران خان کے ہاتھوں پِٹ جانا۔ یہی نہیں بلکہ بری طرح پِٹ جانا۔ یہ خطرہ کون مول لے گا؟ پاکستان میں صحیح فیصلے کرنے کی عقل یا سمجھ ہوتی تو پھر کیا رونا تھا۔ یہ جو بھان متی کا کنبہ اقتدار میں آیا ہے یا صحیح معنوں میں اقتدار میں لایا گیا ہے اِس کی ترجیحات سراسر اور ہیں۔ یہ لوگ پہلے تو اپنے خلاف میگا کرپشن کے مقدمات ختم کرانا چاہیں گے۔ اپنی سلیٹ صاف کرنا چاہیں گے۔ نیب بطور ادارہ ختم نہ بھی ہو تو اُس کے دانت نکالنا چاہیں گے۔ اِنہیں کیا پڑی کہ اپنے لیے ایک اور مصیبت کھڑی کریں اور فوراً انتخابات کا اعلان کر دیں؟ یہ تو عمران خان چاہتے ہیں۔ قوم کے وسیع طبقات بھی یہی آرزو رکھتے ہیں لیکن بھان متی کے کنبے کی سوچ مختلف ہے۔
1971ء میں کسی کو شک تھا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟ آج پاکستان کی سوچ میں پھر بھی تھوڑی بہت دراڑیں ہیں۔ وسیع طبقات عمران خان کے پیچھے کھڑے ہیں جیسا کہ لاہور کے جلسے نے ثابت کیا‘ تو اُن کے مخالف بھی ہیں۔ 1971ء میں البتہ مشرقی پاکستان کی سوچ میں کوئی تقسیم نہ تھی۔ وہاں کے لوگ قومی اسمبلی کا اجلاس چاہتے تھے۔ یہ نوشتۂ دیوار تھا لیکن مغربی پاکستان کے مقتدر حلقے اِسے پڑھنے کیلئے تیار نہ تھے اور اسمبلی کا اجلاس بلانے کے بجائے اُنہوں نے فوجی ایکشن کو ترجیح دی۔ تب کی ہائی کمان کا یہ فیصلہ تھا اور مغربی پاکستان کے طاقتور حلقے بشمول پیپلز پارٹی اِس فیصلے کے پیچھے تھے۔ موجودہ صورتحال میں البتہ ایک نمایاں فرق ہے۔ اِس وقت عمران خان الگ تھلگ نہیں ہیں۔ جسے ہم پاکستان کی مین سٹریم سوچ کہہ سکتے ہیں وہ اُس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اگر عوام کا ایک بھاری بھرکم حصہ اُن کے ساتھ کھڑا ہے تو طاقتور اور پڑھے لکھے طبقات بھی اُن کے ہمنوا ہیں۔ اُن کے ہٹائے جانے سے غم و غصے کی لہر اِتنی نچلے طبقات میں نہیں پھیلی جتنی پڑھے لکھے طبقات میں۔ ہماری افسر شاہی کہاں سے آتی ہے؟ اِنہی طبقات میں سے جو اَب عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور جو ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کا اقتدار سے ہٹایا جانا غلطی نہ تھی بلکہ ایک غلطان تھا۔
مقتدر حلقوں کو بھی عوامی سوچ کا احساس ہے۔ اِسی لئے تاویلیں دیتے پھررہے ہیں‘ لیکن لگتا نہیں کہ اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے یہ حلقے تیار ہوں گے۔ غلطی کا احساس کرنا پاکستان کے عمومی مزاج میں نہیں۔ یہاں غلطی ہو جائے تو اُس پہ ڈٹے رہنے کو ہی اچھا سمجھا جاتا ہے۔ آج انتخابات کا کوئی اعلان ہو جائے تو شہباز شریف کا کیا بنے گا؟ حمزہ شہباز کی امنگوں کا کیا ہوگا؟ انتخابات کا سماں بندھا تو اِن لوگوں کے پاس کہنے کو کیا ہوگا؟ لے دے کے کیا توشہ خانہ کی بات کریں گے کہ عمران خان نے ملنے والے تحائف کا یہ کچھ کیا؟ لاہور کے جلسے میں تو عمران خان نے خود ہی توشہ خانے کا ذکر چھیڑا اور برملا کہا کہ ملنے والے پیسے میں نے فلاں فلاں چیز پہ خرچ کئے۔ یعنی اِس مسئلے کو بھی اب ختم سمجھنا چاہئے۔ الیکشن مہم شروع ہوئی تواتحادیوںکے پاس بیچنے کیلئے اورکون سا چورن ہوگا؟ لہٰذا مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کوئی اِتنے دلیر شہسوار ہیں جو فوری انتخابات کا خطرہ مول لیں گے۔
اگر ایسا ہوا تو ظاہر ہے ملک میں افراتفری بڑھے گی۔ عمران خان چپ بیٹھنے والے تو ہیں نہیں۔ آج بچہ بچہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ زیادتی ہوئی اور نتیجتاً جو بحران پیدا ہوا اُس کا حل فوری انتخابات ہیں۔ اگر شہباز شریف اور رنگ برنگا کنبہ اقتدار سے چمٹا رہا تو انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جائے گا۔ عمران خان جلسے کرتے جائیں گے اور حکومت کے خوب لَتے لیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سال کے آخر تک اگر حالات یونہی رہے تو اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال بھی دے دی جائے۔ یہ تو ہم نے دیکھ لیا ہے کہ اُن کی ایک پکار پہ عوام باہر آجاتے ہیں۔ میں تو اِس بات پہ حیران ہوں کہ یہ جو بڑے بڑے جلسے ہوئے ہیں اِن کیلئے تیاری کیسے ہو جاتی ہے۔ ورکر کہاں سے نمودار ہوتے ہیں، لائٹیں اور ساؤنڈ سسٹم کیسے لگ جاتے ہیں؟ لاہور والے جلسے کے مناظر دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اِتنا بڑا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر لیکن کس منظم طریقے سے اُس وسیع گراؤنڈ میں بیٹھا رہا‘ اور موبائل فونوں کی لائٹیں کیسے جگمگا رہی تھیں۔ اسلام آباد کی طرف فوری مارچ کی پکار تو نہیں ہو گی لیکن چند ماہ بعد ایسی کوئی کال آتی ہے تو اُسے کون روکے گا؟
اگر کوئی سمجھے کہ مقتدر حلقے انتخابات کے لیے پریشر ڈالیں گے تو میری ناقص رائے میں اِس چیز کا کم ہی امکان ہے۔ جو ٹولا اقتدار میں لایا گیا ہے اُس کے لیے تو عمران خان ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ ٹولا تو اِس کرشمے کی انتظار میں ہو گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کمی آتی جائے۔ یہ امکان بھی ہے کہ مقتدر حلقوں کی بھی یہی سوچ ہو‘ لیکن یہ سب مفروضے ہیں۔ پاکستان کے‘ معاشی سے لے کر سکیورٹی تک‘ حالات اچھے نہیں اور سیاسی افراتفری کی شدت بڑھتی گئی تو حالات مزید بے قابو ہوتے جائیں گے۔ دیرپا سوچ یہاں کسی کی ہے نہیں۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ معاشی حالت کا اندازہ تو ڈالر کی اُڑان سے لگایا جا سکتا ہے۔ اِس حکومت کے پہلے دو تین دنوں میں روپے کی حالت کچھ سنبھلی تو تالیاں بجائی گئیںکہ دیکھئے پاکستان میں استحکام آ رہا ہے‘ لیکن اب تو ڈالر تقریباً بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کس چیز کی نشانی ہے؟
ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ غلطی سرزرد ہو گئی۔ پتا نہیں کیا سمجھ کے موجودہ کنبے کو عدم اعتماد کے لیے تیار کیا گیا۔ کیا یہ سمجھا جا رہا تھا کہ مٹھائیاں بانٹی جائیں گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا؟ اس عقل مندی کے بعد جو عوامی ردِ عمل آیا ہے اُس کا تو اِنہیں وہم و گمان نہ ہو گا۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ کریں کیا۔ ہر طرف سے لعن طعن ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا تو بالکل ہی کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اِس قسم کی تنقید پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔ ایک اور چیز ہے کہ عمران خان بہت ہی محتاط زبان استعمال کررہے ہیں۔ اداروں کے بارے میں صاف کہہ رہے ہیں کہ کوئی تنقید نہیں ہونی چاہئے اور پاکستان کی سلامتی کیلئے فوج کا کردار ناگزیر ہے۔ عمران خان کے اِس لہجے میں اور نواز شریف کے لہجے میں کتنا فرق ہے؟ نواز شریف کو پانامہ پیپرز کے بعد اقتدار سے نکالا گیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئے تھے اور ہم سب کو پتا ہے کہ جی ٹی روڈ کے سفر میں اُن کی اداروں کے بارے میں کیا زبان تھی۔ عمران خان کوئی ایسی چیز نہیں کر رہے۔ لاہور کے جلسے میں تو یہاں تک کہہ گئے کہ فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہو جاتے۔ مزید صرف اِتنا کہا کہ جن سے غلطی ہوئی اِس کا ازالہ کریں فوری انتخابات کی صورت میں۔ یہ لہجہ ایسا ہے کہ بڑی کرسیوں پہ بیٹھے لوگ بھی کہیں گے کہ کیا سمجھداری کی گفتگو کر رہے ہیں۔
بہرحال خواہ مخواہ بحران ملک میں پیدا ہو چکا ہے۔ ایسا بحران جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی‘ اور صرف اِس لیے کہ وزیر اعظم بس تھوڑا سا اکڑ خان ہو گیا تھا۔ پاکستان میں کسی کی اکڑ برداشت نہیں ہوتی۔ یہی عمران خان کا قصور تھا۔