ہماری تاریخ میں تماشے تو بہت لگے لیکن یہ جو اَب ہو رہا ہے اپنی ہی نوعیت کا ہے۔ کوئی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ سب کچھ ہوا کیوں۔ مقاصد کیا تھے اور نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟ معیشت کی حالت مزید خراب ہو رہی ہے۔ روپیہ تو پہلے ہی بے وقعت ٹھہرا تھا‘ لیکن مزید بے توقیری کی طرف جا رہا ہے۔ یہ جو آئے ہیں اِن کے قوال اور دھوتو اشارے کنایوں میں کہہ رہے تھے کہ بہت سا پیسہ باہر سے آنے والا ہے۔ سعودیہ کے بارے میں تو کہتے تھے کہ نون والوں کے خصوصی تعلقات ہیں۔ وہاں سے بھی کشکول خالی لوٹا، یو اے ای میں بھی ویسا ہی ہوا اور چین سے بھی آنے کی فی الحال کوئی توقع نہیں۔ پروپیگنڈا کے یہ لوگ ماہر ہیں اور مفتاح اسماعیل واشنگٹن گئے تو خبریں یوں بنائی گئیں کہ آئی ایم ایف بس اپنی تجوریاں کھولنے والا ہے۔ مہنگائی کا عالم جو ہو رہا ہے پہلے سے بھی بد تر کی صورت حال پیش کر رہا ہے۔ وزیر اعظم اور اُن کے وزیر ہیں کہ بیان بازی میں لگے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیے تو اِن کا مسئلہ اور کچھ نہیں فقط عمران خان ہے۔ وہ اِن کے اعصاب پہ بیٹھا ہوا ہے۔ کسی عامل کے پاس جائیں یا کسی خانقاہ پہ حاضری دیں کہ یہ سایہ اِن کے ذہنوں سے اُٹھ جائے۔
کسی اور ملک میں یہ تماشا ناقابل تصور ہوتا کہ جو تیس چالیس سال مختلف شکلوں میں حکومت کر چکے ہیں اور جن کی پارسائی کی داستانیںکسی الف لیلہ کے قصوں سے کم نہیں اُن کو ایک طویل منصوبہ بندی کے بعد اقتدار میں بٹھا دیا گیا ہے۔ جتنا بھی سرکریدا جائے یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ کون سے افلاطون تھے جو سمجھ بیٹھے تھے کہ پاکستان کے پیچیدہ امراض کا یہی حل ہے۔ عوام ویسے ہی نہیں بپھرے ہوئے، یہ جو صورت حال ملک پر نازل ہوئی ہے اُس کی وجہ سے اُن کی یہ کیفیت بنی ہے۔ ڈرامہ جو رچایا گیا عوام کی نظروں کے سامنے سب کچھ ہوا، اِسی لیے عوام کے ہاتھ جو آتا ہے اُسے بروئے کار لا کے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی وزیر مشیر پہ نظر پڑے تو آوازیں کسی جاتی ہیں، نعرے بازی ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے بھگوڑے جو حکومتی صفوں میں جا گھسے تھے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ حکومت نام کی چیز کہیں نظر نہیں آ رہی بس بیان بازی پر ہی گزارہ چل رہا ہے اور بیان بازی کا ہدف عمران خان ہیں۔
جلسے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے‘ اور اُن میں کیفیت بھی دیکھیے، پی ٹی آئی کی طرف سے ایک کال ہوتی ہے اور ریکارڈ تعداد میں لوگ آ جاتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کیا ہونی ہے لیکن عوام تو حق بجانب ہیں یہ پوچھنے میں کہ یہ سب کچھ کس وجہ سے کیا گیا؟ آخر منطق کیا تھی؟ اور جب واضح جواب نہیں ملتا تو پھر عمران خان کی بات پہ یقین کر لیتے ہیں کہ باہر تیار کی گئی ایک سازش تھی جس کا مقصد عمران خان کو ہٹانا تھا۔ اوپر سے قوم کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ دشنام طرازی نہ ہو لیکن سوشل میڈیا کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ بھلے زمانے تھے جب چند اخبارات ہوتے تھے اور ایک سرکاری ٹیلی ویژن۔ صبح اخبارات پڑھے جاتے تھے تو پتا چلتا تھا کہ ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ جو خبریں چھپائی جاتی تھیں اُن کے بارے میں جانکاری کیلئے بی بی سی سن لیا جاتا تھا۔ اب ہر منٹ کیا ہر سیکنڈ کی نہ صرف خبریں بلکہ افواہیں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔ ملک کا کوئی کونا نہیں جہاں سوشل میڈیا کی پہنچ نہ ہو۔ سچ ہوتا ہے اور جھوٹ بھی۔ جب ایک تاثر پھیل جائے تو محض تنبیہ کرنے سے زائل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں یہ تاثر پھیل چکا ہے کہ عمران خان کی حکومت ویسے نہ جاتی اگر بیرونی ہاتھ تحریک عدمِ اعتماد کے پیچھے نہ ہوتے۔ اور ہمارے مفہوم میں یہ ہاتھ کون سے ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں۔ کوئی ڈائریکٹ نام نہ لے اِس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔ اخبارات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا، سوشل میڈیا کو کون کنٹرول کرے۔ کوئی امریکہ میں بیٹھا ہے تو خبر یا تجزیہ دے مارتا ہے۔ باتیں ہو رہی ہیں، مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ایک نیا زمانہ ہے، پرانے ہتھکنڈے اِس میں چل نہیں سکتے۔ ایک وقت تھا جب کسی کے خلاف ایک ایف آئی آر ہی کافی ہوتی تھی، سوشل میڈیا کے خلاف کون سی ایف آئی آر کاٹیں گے؟ ایف آئی اے اور دیگر ادارے اپنا کام کر نہیں پاتے اُنہوں نے خاک آسمانوں یا جسے ہم سائبر سپیس کہتے ہیں کو کنٹرول کرنا ہے۔
اور اِن آنے والوں کی ذہانت کو دیکھیے۔ یہ جو واپڈا کے چیئرمین تھے لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین اور جو اپنی پوسٹ سے مستعفی ہو چکے ہیں نیک نام اور فعال افسر سمجھے جاتے تھے۔ بھاشا اور داسو ڈیموں پر کوئی کام نہیں ہو رہا تھا لیکن جنرل مزمل کی سربراہی میں اِن دو منصوبوں پر صحیح معنوں میں کام شروع ہوا۔ نئے وزیر اعظم آتے ہیں تو اِن ڈیموں پر بریفنگ مانگتے ہیں۔ بریفنگ پر ویڈیو وائرل ہو چکی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنرل صاحب کہہ رہے ہیں کہ اِن منصوبوں پر کام 2029ء میں مکمل ہو گا اور وزیر اعظم فوراً بول پڑتے ہیں کہ یہ تو 2022ء ہے‘ منصوبوں پر کام مکمل پہلے ہو جانا چاہیے۔ جنرل صاحب سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہو گا لیکن وزیر اعظم تھانے داری جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈیموں کے بارے میں وزیر اعظم صاحب کی تکنیکی نالج صفر ہے لیکن جو شخص کچھ جانتا ہے اُس پہ رعب جھاڑنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ کہاں کیا بات کرنی چاہیے اُس کی سمجھ نہیں۔ چند روز بعد جنرل صاحب اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو ارسال کر دیتے ہیں۔ ہمارے افلاطونوں کی یہ حالت ہے اور یہ ملک کو درست کرنے آئے ہیں۔
یہ غلط ہے کہ پاکستان میں آئین کی حکمرانی ہے۔ کاغذی حد تک یہ درست ہو گا لیکن اصل میں حکمرانی طاقتوروں کی ہے جن میں یہ دو سیاسی خاندان شامل ہیں جن کی سیاست پہ اجارہ داری قوم پچھلے چالیس سالوں سے بھگت رہی ہے۔ قائدِ اعظم سیاست دان تھے، ذوالفقار علی بھٹو سیاست دان تھے، 1980ء کی دہائی کے بعد یہ عجیب کرشمہ رونما ہوا کہ جو سیاست میں مقام رکھتے تھے وہ سرمایہ دار بھی بن گئے۔ اقتدار کے پھیرے لگاتے یہ دو خاندان کیا سے کیا بن گئے۔ عمران خان نے اور کچھ کیا یا نہیں، اور کچھ کر سکتے ہیں یا نہیں، اُن کا ناقابلِ فراموش کام یہ ہے کہ اُنہوں نے اِن دونوں خاندانوں کی اجارہ داری توڑی‘ یہ اور کوئی نہیں کر سکتا تھا‘ لیکن معجزاتِ پاکستانی سیاست بھی دیکھے جائیں کہ عمران خان کو ہٹایا گیا تو اُس کی جگہ اِنہی دو خاندانوں کو بٹھا دیا گیا‘ یعنی جو چالیس سال سے آزمائے جا چکے تھے، جن کے کارناموں کے بارے میں عوام سب کچھ جانتے تھے، انہی عطار کے فرزندوں کو اقتدار پر براجمان کر دیا گیا۔
پرابلم البتہ یہ ہے کہ ناٹک رچایا تو گیا لیکن چل نہیں رہا۔ اِس بار عوام دھوکے میں نہیں آئے اور عوام بیوقوف بننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ہر طرف سے مذاق ہو رہا ہے، گالیاں پڑ رہی ہیں اور بات محض گالیوں تک نہیں رہی۔ عمران خان مزاحمت کر رہے ہیں اور مزاحمت کا استعارہ بن چکے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ عمران خان فرشتہ بن گئے ہیں لیکن اِس وقت عوام یا اُن کا بیشتر حصہ اُن کی بات سن رہا ہے۔ ایسے میں خبر کیا آتی ہے کہ وزیر اعظم اور دیگر نونی زعماء کو لندن کا بلاوا آیا ہے۔ وہاں کیا کھچڑی پکانے کی تیاریاں ہوں گی اُس کا بھی جلد پتا چل جائے گا۔