یعنی برصغیرکے مسلمانوں کی۔ اپنے معاملات ہم سے سنبھالے نہ گئے۔ تقسیمِ ہند تو ہم نے کروا ڈالی اور ایک علیحدہ ملک ہمیں مل گیا لیکن اُسے بھی ہم سنبھال نہ سکے۔ متحدہ پاکستان کی کہانی 1971ء میں ختم ہوئی جب بنگالیوں نے ہم سے جان چھڑائی اور اپنا الگ راستہ اُنہوں نے چن لیا۔ ہندوستان کی تقسیم دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی تھی لیکن جب بنگالی مسلمانوں نے ہم سے جان چھڑائی تو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ دو قومی نظریہ بحیرۂ عرب کے پانیوں میں کہیں گم گیا ہے۔ یہ چیز ہم ماننے کو تیار نہیں لیکن بنگالیوں کی مزاحمتی تحریک اور اُس پر محیط اُن کی علیحدگی کا مطلب یہی نکلتا ہے۔
بہرحال جو پاکستان بچ گیا اُس کو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ہم نے 'نیا پاکستان‘ کا نام دیا۔ کہا گیا کہ ہم ایک نئی دنیا آباد کریں گے اور اُس کے حصول کیلئے ہم نے بھٹو کی قیادت میں عرب دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کئے۔ بھٹو ذہین اور قابل آدمی تھا لیکن نیا پاکستان بھی ہم سے نہ چل سکا اورجو جمہوری تجربہ اُس دہائی میں شروع کیا گیا وہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا پر ختم ہوا۔ جنرل صاحب کے دور میں جمہوریت کا جنازہ تو دھوم دھام سے نکالا گیا لیکن اُس کے ساتھ ہی پاکستان کے مسلمانوں کو از سرِ نو مسلمان بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ جنرل ضیا کا اور جوازِ حکمرانی تو بنتا نہ تھا اُنہوں نے اپنی غاصبانہ حکمرانی کا عذر اسلام میں ڈھونڈا اور اُن کے گیارہ سالہ دور میں قوم کو اسلام کا درس ہی سننا پڑا۔
اُس زمانے میں ایٹم بم بھی بن گیا اور وہ ہماری بڑی کامیابی تھی لیکن کشکول ہمارے ہاتھ سے نہ ٹوٹا۔ معیشت کا پہیہ چوکیداری نظام پہ چلتا رہا، یعنی افغانستان میں امریکہ کیلئے چوکیداری کے فرائض ریاستِ پاکستان اور اُس کے دفاعی اداروں نے ادا کئے اور اُس کے عوض بہت زیادہ نہیں لیکن گزارے کے لائق ڈالر ملتے رہے۔ قوم کے وسائل یا ترقیاتی صلاحیت میں کچھ اضافہ نہ ہوا‘ لیکن ڈالروں کی آمد کی وجہ سے معیشت سنبھلی رہی اور کچھ طبقات کے تو وارے نیارے ہوگئے۔
اُسی زمانے میں محافظانِ ملت نے ایک سیاسی تجربے کی بنیاد بھی ڈالی۔ مقصد تھا‘ پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر کرنا اور اِس عظیم مقصد کیلئے لیڈران کی ایک نئی کھیپ ڈھونڈی گئی۔ یہی وہ جستجو تھی جس کے نتیجے میں نوازشریف جیسے لوگ آگے لائے گئے اور ایک نئی مسلم لیگ بنائی گئی۔ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ پنجاب سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا اور وہ دن بھی آیا جب نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور اُس سیڑھی پہ چڑھتے ہوئے کچھ عرصے بعد وزیراعظم بھی بن گئے۔ اُس سیاسی تجربے کی خصوصیت یہ تھی کہ سیاسی طاقت اور سرمائے کا ملاپ سامنے آیا۔ شریف خاندان نے فیکٹریوں کی ایک لائن لگا دی اور ساتھ ہی سیاست پہ اپنی گرفت مضبوط کی۔ جنوب میں یہی کام آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی نے کیا۔ سیاست پر گرفت رکھی اور جائزوناجائز طریقوں سے مال بھی بنتا رہا۔
نام کی جمہوریت تو تھی لیکن جمہوریت کے یہی دو نمایاں چہرے تھے، پنجاب میں خاندانِ شریفاں اور سندھ میں بے نظیر بھٹو اور اُن کے ہنرمند شوہر آصف علی زرداری۔ اقتدار کی تبدیلی ہوتی تو یہی دو خاندان آگے پیچھے ہوتے رہتے۔ اِن دو خاندانوں کی اجارہ داری کسی نے توڑی تو وہ عمران خان تھے۔ اُنہوں نے اِن دونوں پارٹیوں کو چیلنج کیا اور پھر خاصا خوار بھی۔ یہ اور بات ہے کہ عمران خان ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے تو پاکستان کی تقدیر بدل نہ سکے۔ آج تو وہ عوامی ہیرو بن چکے ہیں لیکن اقتدار میں اُن کی حکومت کی کارکردگی کوئی اتنی مثالی نہ تھی۔
ہم جو پاکستان کے باسی ہیں‘ ہماری ذہنیت کچھ اِس طرح کی بن گئی ہے کہ ہم پاکستان کو ایک عام ملک نہیں سمجھتے۔ یہ کہنے میں ہم کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان کسی عظیم مقصد کیلئے بنا تھا‘ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پوری دنیا چھوڑ کر یہی ایک ملک ایسا ہے جس کے بننے کے پیچھے ایک خاص مقصد تھا۔ اِسی پیرائے میں ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں۔ قلعہ ضرور ہو گا لیکن جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں حالات اِس کے اچھے نہیں ہیں۔ دیوالیہ ہونے کے قریب ملک پہنچ چکا ہے اور کسی کو نہیں پتا کہ کرنا کیا ہے۔ عمران خان کی مثالی حکومت نہ بھی تھی لیکن ملک چل رہا تھا، ایک لحاظ سے استحکام بھی تھا۔ تمام معاشی حوالوں سے نہ سہی لیکن کچھ معاشی حوالوں سے بہتری بھی آرہی تھی‘ لیکن پتا نہیں کیا ہوا ایک پورا پلان بنایا گیا حکومت کو ہٹانے کا۔ سکیم کامیاب ہوئی لیکن اُس میں ایک بڑی خامی تھی۔ عمران خان کی جگہ اقتدار میں انہی دو پارٹیوں کو لایا گیا جن کی پہلے اجارہ داری پاکستانی سیاست پر تھی اور جنہوں نے جائز و ناجائز طریقوں سے لمبا مال بنایا تھا۔ دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کے خلاف محض افواہیں نہ تھیں بلکہ باقاعدہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے لمبے لمبے مقدمات درج تھے‘ لیکن نجانے کس مصلحت کے تحت اِنہی لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا‘ اور چھ ہفتوں میں حالت اب یہ ہے کہ حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ ڈالر کا ذکر کیا کیا جائے وہ تو اب بچے بچے کو معلوم ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر خطرے کی لکیر تک پہنچ چکے ہیں اور باہر سے پیسہ کوئی آ نہیں رہا۔ مہنگائی پہلے بھی تھی لیکن اِن کے آنے کے ساتھ ہر روز مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کی بندش پہلے بھی تھی لیکن اب نئے زاویے چھو رہی ہے۔ اِن فنکاروں سے کیا پوچھا جائے، پوچھنا تو ہاتھ رکھنے والوں سے بنتا ہے کہ آپ کو کیا سوجھی یہ سب کچھ کرنے کی۔ مقصد کیا تھا؟ اب ہر اطراف سے حال دہائی ہورہی ہے۔ عوام تو تنگ ہیں ہی، جن کی زندگیاں نسبتاً آسان ہیں وہ بھی سوچنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ اِس ملک کا کیا بنے گا اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
تقسیمِ ہند کے وارث بنگالی تو نہیں ہم ہیں، ہم جو اپنے آپ کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں۔ چوہتر سال ہو گئے ہیں ڈھنگ سے ملک چلایا نہیں جا رہا۔ کچھ طبقات ہیں جن کے حالات بہت اچھے ہیں‘ لیکن قوم کی مجموعی صورتحال اچھی نہیں۔ اب تو ہر پاکستانی جان چکا ہے کہ سری لنکا میں کیا ہوا اور ڈر یہ ہے کہ یہاں بھی ایسے حالات پیدا نہ ہوں۔ عمران خان اقتدار میں آئے تھے اُن کی تیاری کچھ نہ تھی۔ یہ جو عمران خان کی جگہ لائے گئے ہیں اُنہیں کچھ سمجھ نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ محافظانِ ملت بھی سرپکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھنا تو پھر بنتا ہے کہ اِس قوم کے حالات کون سدھارے گا؟
ہمارے مسائل اِتنے گمبھیر ہیں کہ ہم بھول چکے ہیں ہندوستان میں بھی بیس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ وہاں کی حکمران پارٹی کی سوچ اور پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ اُن کی جانیں اور املاک محفوظ نہیں، آئے روز اُن پر حملے ہوتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے وحشیانہ طرزِ عمل کے سامنے مسلمان آبادی بے بس لگتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ بنگالی ہم سے علیحدہ، ہندوستان میں مسلمان آبادی بے بس و لاچار اور اسلام کے قلعے کے حالات بھی ایسے کہ کیا ذکر کیا جائے۔ علیحدہ ملک تو ہم نے بنا لیا لیکن کاش اِسے چلانے کا ڈھنگ بھی کہیں سے مل جاتا۔