کنٹینر پھر سے لگائے جا رہے ہیں۔ شہر کے شہر ایک دوسرے سے منقطع ہو جائیں گے۔ سڑکوں اور موٹرویز پر رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی۔ سختی پولیس والوں اور رینجرز کی‘ رات دن ڈیوٹیاں دینی پڑیں گی۔ عوام بھی بے حال۔ خوش نصیب وہ جو گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی پر خبروں کا مزہ لے سکتے ہیں۔جن کی دہاڑیاں لگتی ہیں ایسی صورتِ حال میں پریشان رہتے ہیں۔کاروباری لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ آج احتجاج پی ٹی آئی کا ہے۔ گزرے ہوئے دنوں میں کئی ایسے احتجاج ہو چکے ہیں۔حاصل کیا ہوتا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم۔
حتمی طور پر کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس لانگ مارچ سے کیا نکلے گا؟ ویسے ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ لانگ مارچ تو چینیوں نے اپنے انقلاب کے زمانے میں کی تھی اور اُس میں بہت لمبا فاصلہ طے کرنا پڑا تھا۔ چیئرمین ماؤ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی کو ناقابلِ تصور مصیبتوں کو جھیلنا پڑا۔یہ اصطلاح ہمارے ہتھے چڑھ گئی ہے‘ تھوڑا سا بھی احتجاج ہو‘ ایک شہر سے دوسرے کو جانا پڑے تو اُسے لانگ مارچ کا نا م دے دیا جاتا ہے۔بہرحا ل یہ جو پی ٹی آئی والے کررہے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟جب یہ سطور میں لکھنے بیٹھا تو ذہن میں خیال آیا کہ پی ٹی آئی والے دعویٰ توبڑا کررہے ہیں لیکن غبارے سے ہوا بھی نکل سکتی ہے۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔
1986ء میں بے نظیر بھٹو کے جلسے اتنے ہی جذباتی اور پرشور تھے جتنے کہ موجودہ موسم میں پی ٹی آئی کے رہے ہیں۔جس شہر جاتیں اُن کاوالہا نہ استقبال ہوتا۔ لیکن جب جلسوں کا سلسلہ ختم ہوا تو پیپلز پارٹی کے سامنے یہ مخمصہ تھا کہ اب کیا کریں۔فیصلہ ہوا کہ حکومت ہٹانے کی تحریک شروع کرنا لازمی بن چکا ہے۔بڑے شہروں میں کارکنان کے اجتماع ہوئے جن کا مقصد کارکنان کو تحریک کیلئے تیار کرنا تھا۔اُس تحریک کے کارکنان کو جمہوریت کی فاختائیں کا نام دیا گیا۔ اور اعلان یہ ہوا کہ جمہوریت کی فاختائیں شاہراؤں پر پھیل جائیں گی اور اشارہ ملنے پر ٹرانسپورٹ کے نظام کو درہم برہم کر دیا جائے گا اور یوں سارے ملک میں کاروبارِ زندگی معطل ہوکر رہ جائے گا۔ فاختاؤں نے ابھی اُڑان بھری نہیں تھی کہ جونیجو حکومت نے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔گرفتاریاں ہوئیں‘ کارکنان اور لیڈر اِدھر اُدھر بھاگے۔ جمہوریت کی فاختائیں اڑان نہ بھر سکیں۔بے نظیر بھٹو مایوس ہوکر رہ گئیں‘ کہاں جلسوں کا جو ش وو لولہ اور کہاں مبینہ تحریک کا ایسا حشر اور اختتام۔ کافی عرصہ بھٹو صاحبہ سکتے میں رہیں۔ پیپلز پارٹی کی قسمت تو تب کھلی جب کچھ عرصہ بعد جنرل ضیا اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے تعلقات خراب ہوئے اور جنرل ضیا نے اُس وقت کی قومی اسمبلی کو برخاست کردیا۔اگست 1988ء میں پھر جنرل ضیا کا ہوائی جہا ز والاحادثہ ہوا اور پیپلز پارٹی کیلئے نئی راہیں کھلیں۔
جلسے پراُمن ہوتے ہیں۔ کوئی تحریک چلے تو لامحالہ اُس میں تشدد کا عنصر شامل ہوجاتا ہے۔تحریکوں کا مطلب ہوتا ہے رکاوٹیں کھڑی کرنا اور رکاوٹوں کو دور کرنا۔ مزاحمت اُن کا نمایاں پہلو ہوتا ہے۔ پولیس اور دیگر قانون سنبھالنے والے اداروں سے مقابلے کی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ جنون کا یہ عالم بنتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے لوگ مرنے مارنے پہ آجاتے ہیں۔شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ محض جلسوں سے حکومتیں پریشر میں نہیں آتیں‘زوردار تحریک اُٹھے تو حکومتیں دباؤمیں آجاتی ہیں۔
2007ء میں نوازشریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ لندن سے اسلام آباد آ رہے ہیں۔ پارٹی کو ہدایت کی گئی کہ بھرپور طریقے سے اُن کا استقبال کیا جائے اور قافلوں کی صورت میں پارٹی کارکنان مختلف شہروں سے اسلام آباد کی طرف آئیں۔تب ہمارا تعلق بھی نون لیگ سے تھا۔ چکوال میں جو دوست احبا ب تھے اُن سے کہا کہ راولپنڈی اسلام آباد ضرور پہنچنا ہے۔ایک روز پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ایک جاننے والے کے گھر پر قیام کیا۔ صبح ایئرپورٹ کی طرف چل دیے۔رکاوٹیں تھیں لیکن میں پیدل تھا اوراسلام آباد ایئرپورٹ کے گیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘ کسی لیڈر یا نمایاں کارکن کا چہرہ وہاں نظر نہ آیا۔ آسمان پر پرندے اُڑ رہے تھے‘ زمین پر پولیس کے علاوہ کوئی بشر نظر نہ آتا تھا۔وہاں سے بمشکل لیاقت باغ کا راستہ لیا۔ سو لوگ ہوں گے یا ڈیڑھ سو‘ اس سے زیادہ نہیں۔ جو کارکن وہاںسے گزرتا بھی احتیاط سے گزرتا کہ کہیں پولیس کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔
اس کے برعکس اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ہی میں نے علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کا ایک احتجاج دیکھا۔ شہرکو ایسے ہی بند کیا گیا تھا جیسا کہ عمران خان کی خاطر اب کیا جا رہا ہے۔ ایئرپورٹ کے سامنے والی سڑک پر کنٹینر یوں لگائے گئے تھے کہ کسی کا گزرنہ ہوسکے۔ پولیس کے بھاری دستے حفاظت پر معمور تھے۔اسی اثنا میں راولپنڈی کی طرف سے نوجوانوں کی ٹولیاں سڑک پر دکھائی دیں۔ پولیس نے اپنی شیلڈوں پر لکڑیاں ماریں تاکہ شور سے آنے والے سہم جائیں لیکن میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے نوجوانوں نے کوئی پروا نہ کی اور آگے بڑھتے رہے۔ان میں جوسب سے آگے تھے اُنہوں نے پتھراُ ٹھائے اور پولیس کی طرف دوڑنے لگے۔لگتا یوں تھا کہ ہالی ووڈ فلم کی شوٹنگ ہورہی ہو۔ یقین مانئے کہ پولیس کے دستے آنے والوں کے سامنے تھرتھرانے لگے۔مظاہرین کچھ زیادہ بھی نہ تھے۔ سو دوسو تین سو ہوں گے لیکن اُن کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے۔ پولیس کے قریب آئے تو پولیس نے دوڑ لگا دی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کچھ پولیس والے عوام کے ہاتھ آئے اور اُن پر تشدد کیا گیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایئرپورٹ روڈ پر کنٹینروں کے حصار کو لوگوں نے توڑ دیا۔ علامہ طاہر القادری کی سوچ اور سیاست اپنی ہے۔ اُن کی شخصیت میں پیچ و خم بھی خاصے ہیں لیکن جس قسم کے ورکر اُن کی تحریک نے پیدا کیے اُن کی ہمت اور جانفشانی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ علامہ کی سیاست پر ہنسی آئے تب بھی اُن کے ورکروں کی ہمت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔یہ اور بات ہے کہ 2014ء کے دھرنے میں عمران خان کو جو فائدہ ہوا سو ہوا لیکن علامہ کی سیاست کا جنازہ نکل گیا۔اوروں کی باتوں میں آکر اُنہوں نے اپنی جماعت تباہ کردی۔
لبیک کی سوچ اور سیاست سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے جانثار بھی سخت گیر قسم کے لوگ ہیں۔ دو تین احتجاج اس جماعت نے کیے ہیں اور جب ان کا سامنا پولیس سے ہوا تو پولیس کو اچھا خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکراور ہمنوا کس قسم کے ثابت ہوتے ہیں۔ جلسوں میں جانا تو اور چیز ہے‘ اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔ لیکن کنٹینر لگائے گئے ہوں پولیس ڈنڈوں اور آنسو گیس کے کنستروں سے لیس ہو یہ صورتحال جلسوں سے ذرا مختلف بنتی ہے۔
مارچ کو روکنے یا پسپا کرنے میں حکومت کامیاب رہی تواُس کا ڈگمگاتا ہوا اعتماد بحال ہوگا اور پی ٹی آئی کو ایک نفسیاتی دھچکا لگے گا۔ پھر حکومت ڈٹی رہے گی اور انتخابات تبھی ہوں گے جب حکومت کی میعاد پوری ہوتی ہے۔ جلسے تیاری تھے‘ آج کا مارچ پی ٹی آئی کے ترکش میں آخری تیر سمجھا جائے گا۔ بہت کچھ منحصر ہے اس کی کامیابی یا ناکامی پر۔تو دیکھتے ہیں پھر کہ آج کا دن کیسے ڈھلتا ہے۔