خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستانی حکام اور تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان غیر معینہ مدت کیلئے جنگ بندی کا فیصلہ ہوا ہے۔بہت اچھی خبر ہے اور اس عمل کوبڑھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن دل میں وسوسے بھی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو جو اپنے آپ کو جہادی سمجھتے ہیں ‘اُن سے مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔وقتی افاقہ ہو جاتا تھا لیکن کبھی کوئی دائمی حل نہیں نکل سکا۔ کیا اس بار مختلف نتائج کی امید رکھنا بجا ہوگا؟
ٹی ٹی پی کے اصرار پر دو اہم کمانڈر‘ جو پاکستانی حراست میں تھے‘ رہا کرد یے گئے ہیں۔ ان میں ایک مسلم خان ہیں جو کہ سوات کے ملا فضل اللہ کے ترجمان ہوا کرتے تھے اور جن کی زبان ایسی تھی کہ کہتے کچھ وہاں تھے اور ڈر سارے پاکستان میں محسوس ہوتا تھا۔2009ء میں جب مولانا صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کا ڈرافٹ قومی اسمبلی میں سامنے لایا گیا تو اُس دن یوں محسوس ہوتا تھا کہ پوری قومی اسمبلی پر ایک خوف کا عالم طاری تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ مسلم خان کے دھمکی آمیز بیانات تھے۔ خیر جوہونا تھا ہوگیا اور اس کا فیصلہ ہمارے حکام ہی کرسکتے ہیں کہ اتنی بڑی گنجائش کے بعد اُنہیں کیا حاصل کرنے کی امید ہے۔
سوات میں شورش تھوڑی بعد میں پیدا ہوئی تھی ‘ اُس سے پہلے فاٹا میں جہادیوں نے تقریباً اپنی ریاست قائم کرلی تھی۔ قبائلی علاقوں کے بڑے بڑے عمائدین یا مَلکوں کو ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت قتل کردیا گیاتھا اور اُس تمام علاقے‘ بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان پر ان کا تسلط قائم ہوچکا تھا۔ تحریکِ طالبان کے پہلے مشہورلیڈر نیک محمد تھے اور اُن سے تب کے کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل صفدر کی سربراہی میں مذاکرات ہوئے اورایک باقاعدہ معاہدہ طے پایا۔ جشن بھی منایا گیاکہ امن قائم ہو گیا ہے لیکن تحریکِ طالبان نے اپنی جنگجوانہ سرگرمیاں ترک نہ کیں اور اُن کی طرف سے پاکستانی افواج اور سویلین ٹارگٹس پر حملے ہوتے رہے۔ نیک محمد ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اُس کی جگہ تحریکِ طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود بنے۔ اُس زمانے میں تحریک طالبان کی طاقت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اُن علاقوں میں بیت اللہ محسود کا حکم چلتا اور پاکستانی ریاست کا اختیار واجبی سا رہ گیا تھا۔ بیت اللہ محسود اپنے وقت پر چل بسا لیکن اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہ تھا ‘ امریکی ڈرون حملے سے وہ مارا گیا۔ اُس کی جگہ حکیم اللہ محسود کو امیرِ طالبان چنا گیا اور اپنے پیشروؤں کی طرح خوف اور دہشت گردی کی علامت بن کر اُبھرا۔وانا کے قریب وہ بھی ڈرون حملے کا شکار ہوا۔
یہ جو پاکستان میں ایک بیانیہ بنا ہوا ہے کہ امریکی ڈرون پروازوں اور حملوں سے پاکستانی سالمیت مجروح ہوئی‘ اس کے کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ سارے کے سارے امیرِ پاکستانی طالبان جنہوں نے ریاست ِ پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہوا تھا‘ ڈرون حملوں کا نشانہ بنے۔ ہماری پہنچ سے وہ باہر تھے۔ یا تو ہم یہ کہیں کہ امریکیوں نے طالبان کو پیدا کیا پھر تو بات بنتی ہے کہ امریکی پالیسی سے ہمیں نقصان اُٹھانا پڑا لیکن انتہا پسندی اور دہشت گردی امریکیوں نے پیدا نہیں کی تھی۔ امریکہ تو روس کے خلاف اپنا کام دکھا کے یہاں سے چلا گیا تھا۔ اُس کے جانے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے وہ نہ پاکستانی ریاست کنٹرول کر سکی نہ کابل میں قائم طالبان حکومت۔طالبان کے لیڈر ملاعمر تو کسی کی بات سنتے نہ تھے۔اُن کا ایک اپنا جہاد اور اسلام کا تصور تھااور اُس کے تحت ہی ایک تنگ نظر قسم کی سوچ افغانستان پر قائم کردی گئی تھی۔ طالبان کو کس نے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کو افغانستان میں پناہ دیں‘ اور اگر بن لادن کو وہاں رکھنا تھا تو پھر القاعدہ کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت بھی تھی۔ملا عمر کی حکومت نے ایسا نہ کیا اور پھر اُس کی بھاری قیمت چکانی پڑنی۔پاکستانی حکام بھی اس بات پر خوش تھے کہ ایک پاکستان دوست حکومت کابل میں قائم ہے۔لیکن اب تو یوں لگتا ہے کہ ہماری بہتری اسی میں تھی کہ امریکی افواج کچھ عرصہ اور افغانستان میں رہتیں۔ اُن کے جانے سے ہمیں کیا فائدہ ہوا ہے ؟اُن کے انخلا سے تو یہ نتیجہ نکلا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کو زیادہ آزادی حاصل ہوچکی ہے۔ امریکی انخلا کے بعد پاکستان پر ٹی ٹی پی کے حملے کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی ایک آزاد فریق کی حیثیت سے ریاستِ پاکستان سے مذاکرات کررہی ہے۔یعنی ٹی ٹی پی نیچے جھک کے مذاکرات نہیں کررہی بلکہ برابر کے فریق کی حیثیت سے وہ اس عمل میں شریک ہے۔
بہرحال ان مذاکرات سے کچھ نکلے پھر تو سب ٹھیک ہے لیکن ٹی ٹی پی کے بنیادی مطالبات سامنے رکھے جائیں تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ مذاکرات کس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ بنیادی مطالبات ٹی ٹی پی کے یہ ہیں کہ پاکستانی فوج بارڈر کے علاقوں سے ہٹائی جائے اور فاٹا کے قبائلی علاقوں کا پاکستانی ریاست میں ادغام واپس کیا جائے۔ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے ہلاک شدگان کیلئے معاوضہ مانگ رہی ہے۔پہلے بھی جب بھی ان جہادیوں سے مذاکرات ہوئے ہیں اُنہوں نے پیسوں کا مطالبہ کیا ہے اور اُنہیں پیسے دیے جاتے رہے ہیں۔اُنہیں معاوضہ ملتا ہے توجو ہمارے فوجی جوان اس طویل جنگ میں شہید ہوئے ہیں‘ اُن کو معاوضہ کون دے گا؟اوریہ کہ ٹی ٹی پی اپنے ہتھیار رکھ دے گی اور پاکستانی معاشرے کا ایک پُرامن حصہ بن جائے گی‘ یہ تو پرلے درجے کی خام خیالی ہے۔ ٹی ٹی پی کیلئے تو ایک یہی بڑی کامیابی ہے کہ پاکستانی ریاست کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کررہی ہے۔اور پاکستانی ریاست کی کمزوری ہے کہ اُسے یہ مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں۔امن کی تلاش سے کون انکار کرسکتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس جستجو میں ماضی کی طرح ایک بار پھر ریاست ِ پاکستان لٹ نہ جائے۔ معاہدۂ ٔسوات کے بعد وادی ٔسوات میں فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ فاٹا میں بھی جب پانی سر سے گزا تو مجبوراً وہاں بھی ایک نہیں دو بڑے فوجی آپریشن کرنے پڑے۔اور آج تک وہاں اگر کچھ استحکام ہے اس کی بڑی وجہ فوج کی موجودگی ہے۔ کسی وجہ سے فوج کو وہاں سے پیچھے ہٹنا پڑے تو پھر وہی صورتحال پیدا ہو جائے گی جو فوجی آپریشنوں سے پہلے کی تھی۔
ٹی ٹی پی ایک دن کا کرکٹ میچ نہیں کھیل رہی۔ اُس کی لمبی پلاننگ ہے اور اُس کے سامنے افغانستان کی مثال ہے جہاں ایک طویل جدوجہد کے بعد امریکیوں کو جانا پڑا اور اُن کے جانے پر طالبان تحریک دوبارہ افغانستان پربرسرِ اقتدار آ گئی۔ ٹی ٹی پی کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں‘ اُن کے موجودہ امیر ولی محمد محسود صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ سابقہ فاٹا علاقوں پر اُن کی حکومت قائم ہویعنی بلوچستان لبریشن آرمی کی طرح ٹی ٹی پی کے عزائم بھی تب پورے ہوتے ہیں جب ریاست ِ پاکستان تھوڑ پھوڑ کی شکار ہو۔ جب عزائم ایسے ہوں تودیرپاتناظر میں مذاکرات سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟
آج کے حالات بتاتے ہیں کہ کئی اعتبار سے ہماری قومی سوچ کی سمت غلط رہی ہے۔ دیرپا خطرہ ہمیں مغربی سرحد سے ہے لیکن قومی سوچ کے تحت ہماری نظریں مشرقی سرحدپر گڑھی رہی ہیں۔ہندوستان میں جیسی بھی حکومت ہو وہ ہمارا دردِ سر نہیں‘ نہ ہونا چاہئے۔ مشرقی سرحد پر تناؤ کم ہوتو ہمارے فائدے کی بات ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں کہ دوستی کی پینگیں بڑھائی جائیں لیکن دشمنی میںذرا کمی تو ہمارے قومی مفاد میں ہے۔