فوج میں بھرتی تو غلطی سے ہوئے‘ اُس پروفیشن کیلئے مزاج بالکل نہ تھا۔ قسمت خراب کہ پڑھائی چھوڑنی پڑی‘ ہاتھ میں سینئر کیمبرج کا سرٹیفکیٹ اور اُس کے زور پر فوج میں ہی جا سکتے تھے۔ اُس نوکری میں دل بالکل نہیں لگتا تھا‘ اس لیے بس اپنی مرضی کی اور اپنے سینئر افسروں کو ہمیشہ ناراض کیا۔ اپنے دفاع میں البتہ ایک بات کہنا ضروری ہے کہ باقاعدہ پڑھائی تو چھوٹ چکی تھی لیکن ویسے پڑھنے کا شوق ہمیشہ رہا۔ مثال کے طور پر شیکسپیئر کے جو بھی ڈرامے میں نے پڑھے ہیں تب پڑھے جب لیفٹین تھا۔ 71ء کی جنگ میں جب اگلے مورچوں پر تھے تب بھی کچھ نہ کچھ کتابیں ساتھ ہوتیں۔
فوج میں رہ کر بھی ذہن پر سوشلسٹ خیالات کا خاصا اثر تھا۔ سوشلزم یا کمیونزم کے بارے میں اتنا گہرا مطالعہ نہ تھا لیکن مزاجاً جھکاؤ اُسی طرف تھا۔ فوج میں رہ کر موقع ملا فارن سروس میں جانے کا۔ وجہ یہ تھی کہ تب کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گنجائش پیدا کی کہ مختلف محکموں اور سویلین زندگی سے گریجویٹ لوگ‘ یعنی جن کے پاس بی اے کی ڈگری ہے‘ وہ فارن سروس میں آسکیں۔ اس گنجائش کو لیٹرل سروس کا نام دیا گیا اور چونکہ تب والد صاحب پی پی پی کے ایم این اے تھے‘ اُس لیٹرل سروس میں ہم بھی سفارشی بھرتی ہو گئے۔ خود سے پوسٹنگ ماسکو میں کروائی‘ یہ ہماری اپنی چوائس تھی‘ اور وہاں سفارت خانے میں اڑھائی سال رہے۔ تب کا ماسکو ہمیں تو بہت پسند آیا۔ مغرب کے بڑے شہروں سے یکسر مختلف تھا لیکن شاید اس کی یہی پسماندگی ہماری طبیعت کو اچھی لگی۔
یہ عجیب بات ہے کہ فارن سروس میں بھرتی تو ہماری جناب بھٹو کی وجہ سے ہوئی لیکن 1977ء میں بھٹو مخالف تحریک اُٹھی تو اُس کے جذبانی بہاؤ میں ہم بھی آ گئے۔ ماسکو میں بیٹھے پتا نہیں ذہن میں یہ کیسے خیال آیا کہ پاکستان میں فضا انقلاب کیلئے سازگار ہو رہی ہے۔ 15اپریل 1977ء کو سروس سے استعفیٰ دے دیا لیکن کوئی پریس کانفرنس نہ کی‘ کوئی بھٹو مخالف بیان جاری نہ کیا۔ لیکن اُس وقت‘ گو بھٹو صاحب اقتدار میں تھے‘ اقتدار اُن کے ہاتھوں سے پھسل رہا تھا۔ استعفیٰ ہمارا اسلام آباد گیا تو فارن آفس میں سے یہ خبر لیک ہوئی اور غیرملکی خبر رساں ایجنسیوں نے اُٹھا لی۔ مجھے یاد ہے کہ ماسکو میں بیٹھا‘ بی بی سی لگایا ہوا تھا کہ اچانک خبر سنی کہ ماسکو سے فلاں شخص نے بھٹو حکومت کے خلاف استعفیٰ دے دیا ہے۔ بہرحال تھوڑا بہت سامان لیے لندن چلاگیا اور جب بھٹو معزول ہو چکے تھے تب پاکستان کی طرف منہ موڑا۔
جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ جمایا تو اوروں کی طرح ہم بھی سروس میں واپس جا سکتے تھے لیکن اس کا کبھی سوچا نہیں۔ ہمارا تو مطمح نظر ہی اور تھاکہ انقلاب کی فصل تیار ہو رہی ہے اور اس کے کاٹنے میں ہم نے شریک ہونا ہے۔ شریک ہونے سے پہلے البتہ ضروری تھا کہ انقلاب کا محلِ وقوع تو جانا جاتا۔ اس غرض سے انقلاب کی تلاش میں نکلے۔ اُس زمانے میں کچھ ایسے گروہ تھے‘ اُنہیں سیاسی پارٹی کا نام کیا دینا‘ جو اپنے آپ کو سوشلسٹ اور انقلابی کہتے تھے۔ ایک دو ایسے گروہوں کے لیڈروں کو لاہور میں دیکھنے کا موقع ملا۔ ذہن میں تصور تھا کہ کوئی لینن یا فیدل کاسترو نہ بھی ہو کم از کم بڑے لیڈروں کا شائبہ تو ان چھوٹے لیڈروں میں ملے گا۔ لیکن مایوسی ہوئی‘ یہ گروہوں کے سردار کچھ زیادہ ہی چھوٹے نکلے۔
ہماری اپنی حیثیت جو بھی تھی کم از کم فوج کی نوکری کرچکے تھے‘ فارن سروس میں رہے تھے‘ ماسکو سے فرائضِ منصبی کے حوالے سے ڈپلومیٹک رپورٹنگ کر چکے تھے۔ یعنی حیثیت جو بھی تھی کچھ نہ کچھ تجربہ تو اپنے پلے تھا لیکن لاہور میں جن دیوتاؤں کو دیکھا اُنہیں دیکھ کر دل کچھ بیٹھ سا گیا۔ پی پی پی کے سابق رہنما معرا ج محمد خان جو بعد میں ذوالفقار علی بھٹو سے نالاں ہو گئے تھے‘ کو ذہن میں پتا نہیں ہم نے کیا بنایا ہوا تھا۔ اُنہوں نے راولپنڈی آنا تھا‘ چکوال سے ہم اُنہیں ملنے آئے۔ ذہن میں وہی خیال تھا کہ کسی بڑے انقلابی کا درشن ہونے والا ہے۔ معر اج محمد خان سے کچھ عرصہ رفاقت بھی رہی لیکن پھر ہم اور راستوں پر چل نکلے اور اُن کی یاد کچھ دھندلی سی ہوگئی۔ ذہن میں ہمارے تصورات اور تھے اور حقیقت کچھ اور نکلی۔ اس میں غلطی کسی اور کی نہ تھی‘ ہم ہی تھے جو بے جا سوچ کا شکار تھے۔
اُس عرصے میں ایک بات اچھی ہوئی کہ جب مارچ 1981ء میں الذوالفقار تنظیم نے پی آئی اے کا ایک طیارہ اغوا کیا اور اُسے کابل اُتارا گیا تو مارشل لا حکام نے گرفتاریوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع کیا ۔ اُس زمانے کے انگریزی اخبار ''مسلم‘‘ میں ہم اداریے لکھتے تھے اور میز پر بیٹھ کے اِدھر اُدھر کی گفتگو بھی بہت کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ بنی کہ ہمارا نام لسٹوں میں آ گیا اور ہم بھی گرفتار ہوئے۔ پانچ ماہ پرانی راولپنڈی جیل‘ وہ جیل جس میں بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی‘ میں گزارنا پڑے۔ الگ بیرک تھی جس میں ہم نے یہ نظام بنایا کہ کھانا سب کا اکٹھا بنے گا اور باہر سے جو بھی سامان آئے مشترکہ استعمال میں لایا جائے گا۔ ہفتے میں ایک بار ملاقات ہوتی اور میں ''مسلم‘‘ اخبار کے دوستوں کو کتابوں کی ایک لسٹ دیتا۔ کالج کی جس تعلیم سے میں محروم رہا اُس کی کسر اُن پانچ ماہ میں پوری کرنے کی کوشش کی۔ دوپہر کو کچھ سستا کر کتابوں پہ بیٹھ جاتا اور پڑھتے وقت باقاعدہ نوٹ بناتا۔ آج بھی وہ نوٹ بک میرے پاس محفوظ ہے۔ کارل مارکس کی جو تھوڑی بہت تحریریں پڑھنے کا موقع ملا ہے وہ آشنائی وہیں نصیب ہوئی۔
انقلاب البتہ کہیں گُم ہو گیا تھا۔ جیل سے نکلے تو ''مسلم‘‘ اخبار میں ایک ٹریڈ یونین مسئلہ اُٹھا جس کی پاداش میں وہاں کی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ بھی بہت اچھا ہوا کیونکہ مجبوراً چھوٹے موٹے رسائل میں کالم لکھنے کی طرف توجہ دینی پڑی۔ انگریزی کا ایک ہفت روزہ ''ویو پوائنٹ‘‘ ہوا کرتا تھا جو لاہور سے اپنے وقت کے مشہور صحافی مظہر علی خان نکالتے تھے۔ کئی بار دوستوں سے کہہ چکا ہوں‘ ایک عدد بار لکھ چکا ہوں کہ ویو پوائنٹ کیلئے کالم لکھنے شروع کیے تو اتنی محنت کسی اور کام پر کبھی نہ کی تھی۔ پہلے ہاتھ سے کالم لکھا جاتا‘ پھر میں خود ہی ٹائپ کرتا‘ اُس ٹائپ شدہ ڈرافٹ میں تصحیح ہوتی اور پھر دوبارہ اُسے ٹائپ کیا جاتا۔ اُس گئے گزرے زمانے میں اور کوئی ذریعہ نہ تھا تحریروں کو بھیجنے کا۔ آبپارہ میں پی آئی اے کا دفتر ہوا کرتا تھا‘ وہاں جاکر بذریعہ پی آئی اے کالم لاہور بھیجا جاتا پھر جا کے کہیں رسالے میں چھپتا۔ یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ اس محنت کیلئے فی کالم پچھتر روپے ملتے‘ یعنی مہینے کے تین سوروپے۔ یقین مانئے وہ تین سو کا چیک ہاتھ میں آتا تو خوشی کی انتہا نہ ہوتی۔ بعد میں ظاہر ہے کچھ زیادہ پیسے بھی کمائے لیکن وہ مسرت کبھی نہ ہوئی جو اُن پرانے پیسوں سے ملتی تھی۔
اب کیفیت یہ ہے کہ سیاست سے دل اُچاٹ نہیں ہوا لیکن پاکستانی طرز سیاست کرنے کی ہمت نہیں۔ یہاں کی سیاست ایسی ہے کہ جو بھی پارٹی ہو آپ تب ہی آگے بڑھ سکتے ہیں اگر حاضریاں دینے کی صلاحیت ہو۔ یعنی دربار جیسا بھی ہو... بلاول ہاؤس‘ جاتی امرا یا بنی گالا... آدابِ دربار سے آگہی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ عمر ہو تو یہ کام بھی ہو جاتا ہے لیکن اب وہ عمر نہیں رہی۔