یہ دور جو گزر رہا ہے اس میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا ہے۔ ہر چیز کی قیمت آسمان تک پہنچی ہوئی ہے اور عوام الناس کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایک چیز ایسی ہے جس کی قیمت مستحکم جا رہی ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ وہ کون سی معجزہ نما چیز ہے جو مہنگائی سے بچی ہوئی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اُس چیز کا ذکر ہمارے نیک اور پارسا معاشرے میں اتنا آسان نہیں۔
ایک ٹھیکیدار وہ ہیں جو سڑکیں وغیرہ بنا کر اپنی جیبیں خوب گرم کرتے ہیں لیکن ایک وہ ٹھیکیدار بھی ہیں جو اخلاقیات کے پہرے پر معمور ہیں۔ ان ٹھیکیداروں کے ہوتے ہوئے بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن کا ذکر تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیوں نہ کسی چیز کا ذکر غالب کی شاعری میں ملتا ہو‘ کلامِ اقبال میں بھی اُس کا بھرپور ذکر ہو‘ لیکن ہمارے نیک معاشرے میں جہاں ہر کام چلتا ہے اور جس معاشرے کی سب سے بڑی خاصیت دو نمبری ہے کچھ چیزوں کا ذکر شجرِممنوعہ ہے۔ بہرحال ذکرِ ممنوعہ کی کچھ کوشش تو ہونی چاہئے۔ حیرانی اس امر میں پنہاں ہے کہ راحتِ شب کے حوالے سے اور حفظانِ صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو دوائیاں تیار کی جاتی ہیں اُن کی قیمتیں عموماً وہی ہیں جو اس مہنگائی کے تنور اور اس تنور میں بھڑکنے والی آگ سے پہلے کی تھیں۔ ان نازک موضوعات کے بارے میں ہم کیا جانیں جو سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں۔ لیکن جو معلومات رکھتے ہیں اُن سے سننے میں آتا ہے کہ یہ ایک شے مہنگائی سے اب تک بچی ہوئی ہے۔
دیگر تمام شعبوں میں دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے۔ پٹرول ڈیزل کی قیمت بڑھیں تو عام دکانداروں سے لے کر ٹرانسپورٹ والوں تک اپنی قیمتیں فوراً سے پہلے بڑھا دیتے ہیں۔ ہردکاندار سبزی والا‘ فروٹ والا‘ ورکشاپ والے‘ دواساز دکانوں والے‘ مرضی کی قیمتیں لگاتے ہیں۔ پوچھنے والا کوئی نہیں۔ لیکن واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ وہ جو مختلف دوائیاں اسلوبِ شب سے جڑی ہوئی ہیں اُن کی کنٹرول کی قیمت وہی ہے جو پہلے تھی۔ یعنی مملکتِ خداداد کے بازاروں اور منڈیوں میںکسی چیز کی قیمت پر کوئی گرفت نہیں لیکن سامانِ شب کے حوالے سے جو گِنے چنے مقام ہیں وہاں مہنگائی کے سامنے دروازے بند ہیں۔ گنے چنے اس لیے کہا کہ ایسی دو تین جگہیں راولپنڈی میں ہیں‘ ایک دو اسلام آباد میں‘ چار پانچ لاہور میں اور سندھ میں تھوڑی زیادہ ہیں کیونکہ جام صادق علی جب وہاں کے چیف منسٹر تھے تو اس معاملے میں خاصے فراخدل ثابت ہوئے اور اس وجہ سے وہاں آزادیاں اس ضمن میں کچھ زیادہ ہیں۔
مہنگائی اور اُس سے پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر ہم نے اپنی ضروریات محدود کر دی ہیں۔ کھیتی باڑی ہماری معمولی سی ہے لیکن سال کے دانے ہاتھ آ جاتے ہیں۔ یعنی بازارکے آٹے سے ہم بچے ہوئے ہیں۔ جسے منرل واٹر کہتے ہیں اُس کا استعمال ہم نے کب سے بند کر دیا کیونکہ صحت پر اچھا اثر نہیں پڑتا تھا۔ اب لاہور بھی جاتے ہیں تو دو تین دن کا آٹا ساتھ ہوتا ہے اور جس سرائے میں قیام رہتا ہے وہاں بھی ہم اپنے بھگوال کا پانی لے کر جاتے ہیں۔ پچھلے سال فیصلہ کیا تھا کہ خوردنی تیل کیلئے اپنا کینولا خود پیدا کیا جانا چاہئے۔ چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے پر پچھلے سال کینولا اُگایا تھا اور اب اُس کا تیل گھر میں استعمال ہوتا ہے۔ حکیم صاحبان سے سنا ہوا تھا کہ موسمِ گرما میں آبِ جو کا استعمال صحت کیلئے اچھا رہتا ہے۔ اب اُسی پر اکتفا ہوتا ہے‘ شام ڈھلی نہیں تو طبیعت آبِ جو کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔
یہ ہماری پرانی عادات ہیں‘ کیا کریں۔ فوج میں جانے سے پہلے متعلقہ سرگرمیوں کا تجربہ ہم نے شروع کر دیا تھا۔ اُس زمانے میں فوج کا ماحول رنگین نہیں تو کم از کم آج کے ماحول سے بہتر تھا۔ تب ہم شام کو اکٹھے ہوتے تھے تو پلاٹوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بات نہیں کرتے تھے۔ گپ شپ ہوتی‘ ہنسی مذاق ہوتا‘ پراپرٹی کی لت ایسی نہیں پڑی تھی جو ہمارے معاشرے میں بعد میں پھیلی۔ اب تو شام کا موضوع پلاٹوں کا ہی رہ گیا ہے۔ بہرحال انسان وہی کرتا ہے جو اُس کے حصے میں آئے۔ اب لاہور کی سرائے میں بھی اکثر اکیلے ہوتے ہیں‘ گاؤں میں بھی اکیلے۔ فضول کی گفتگو برداشت نہیں ہوتی اور کوئی آئے بھی تو چہرہ خوش نما نہ ہو تو برداشت نہیں ہوتا۔ بس میز پر جو پڑا ہو گزارا کر لیتے ہیں‘ اچھی موسیقی ضرور سنی جاتی ہے اور رہے ملک کے حالات تو اکیلے بیٹھ کر اُن کے بارے میں کیا سینہ کوبی کرنا۔
ہمارے دوست شیخ صاحب ہیں جو کبھی اپنے دولت کدہ پر محفلِ ثقافت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اُن کی مہربانی کہ ہم بھی کبھی مدعو ہو جاتے ہیں لیکن معاشرے کا مزاج ایسا بگڑ چکا ہے کہ محافلِ ثقافت بھی بھاری لگتی ہیں۔ ایک تو آج کل کی موسیقی نہایت ہی واہیات قسم کی ہے اور پھر اُس پر جو کرتب دکھائے جاتے ہیں خدا کی پناہ۔ وہ زمانہ بھی ہم نے دیکھا کہ پروگرام شروع کرتے وقت اہلِ ثقافت پیروں پر پائل باندھتے تھے۔ اب پہلی چیز جو ہوتی ہے وہ گھٹنو ں پر وہ کَپ چڑھائے جاتے ہیں جو فوجی استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ اُچھل کود اتنی ہوتی ہے کہ ان کَپوں کا استعمال لازمی بنتا ہے۔ یعنی ڈھنگ کی پرفارمنس شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن اچھے خاصے لوگ جھوم رہے ہوتے ہیں۔ کیا کیا جائے‘ ہمارا زمانہ شاید بیت چکا ہے اور کبھی واپس نہ آئے گا۔
آج ہی مجھے کسی نے میلارام بلڈنگ کی فوٹو بھیجی۔ یہ بہت ہی دلکش بلڈنگ وہاں ہوا کرتی تھی جہاں اب پنجاب اسمبلی کے پڑوس میں واپڈا ہاؤس ہے۔ فوٹو کو دیکھ کر دل رونے لگا۔ اُس خوبصورت عمارت کی جگہ بدنظری کے ایک شاہکار کو کھڑا کردیا ہے۔ ایک طرف واپڈا ہاؤس‘ دوسری طرف الفلاح بلڈنگ۔ ہمارے معاشرے میں کچھ ذوق ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ معاشروں کی تباہی ایسے ہی نہیں ہوتی۔ جب ذوق نام کی چیز نہ رہے تو پھر بہت سی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ پھر شاموں کی گفتگو پلاٹوں اور جائیدادوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ منافقت جنم لیتی ہے۔ لبوں پر پارسائی کی باتیں اور پردوں کے پیچھے ہر قسم کا مکروہ دھندا۔
یہ تو سنجیدگی کی باتیں ہیں اور خواہ مخواہ سنجیدہ ہونے کا کیا فائدہ۔ پاکستان میں رہ کر اور بڑے ہو کر زندگی کا نچوڑ یہی نکالا ہے کہ بس جیسے وقت گزرتا ہے گزار لینا چاہیے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ فضول کاموں میں توانائیاں صَرف نہ ہوں۔ پیسہ اتنا بنایا جائے کہ ضرورت کیلئے پورا ہو۔ یہ جو پاگلوں کی طرح پیسے کے پیچھے بھاگنا یہ تنگ نظری اور کم عقلی کی ایک بڑی دلیل ہے۔ جو اس ملک کے ساتھ ہوا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہماری قسمت ہی ایسی تھی‘ جو خرابیاں نمایاں ہیں وہ ہماری شروعات میں تھیں۔ چلیں چھوڑیں اس قصے کو‘ پھر سنجیدگی میں پڑے جا رہے ہیں۔
جس موضوع سے شروع ہوا وہ مذاق نہ تھا۔ جو نیکی کے سودے بیچتے ہیں اُنہوں نے اس ملک میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اور یہ جو اہلِ غضب گناہ کا سودا بیچتے ہیں یہ کم از کم اپنے آپ کو کسی قاعدے قانون کے دائرے میں تو رکھ رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں Irony جس کا شاید اردو میں کوئی متبادل لفظ نہیں۔ بہرحال یہ ایک بڑا چیلنج ضرور ہے کہ معاشرے کے حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہوں اور ایسے میں انسان خوشگوار زندگی گزارنے کی کوشش کررہا ہو۔