سمجھ نہیں آرہی کہ ملک و قوم کو کہاں پہنچادیا گیا ہے؟ ان اڑھائی مہینوں میں جو تباہی ہوئی ہے وہ نظر نہیں آتی؟ اتنی بربادی کا بوجھ یہ ملک اُٹھا سکتا ہے؟ ایسے سوالات ذہن میں مسلسل گردش کرتے ہیں لیکن ان کا جواب دینے والا تو کوئی ہو۔ بنیادی نکتہ البتہ یہی رہے گا کہ جو کام کسی کا ہے نہیں اُس میں دخل اندازی کیوں کی جاتی ہے؟ ہاں! دخل اندازی کی سنہری تاریخ ہو پھر تو اور بات ہے اور ہم گناہگار بھی اُس سے انکار نہ کریں۔ لیکن تاریخ یہ ہے کہ جہاں قوم کی بربادی کے اور اسباب بھی ہیں ایک بڑا سبب یہ بے تکی دخل اندازی ہے۔
حیرانی کی بات البتہ یہ رہے گی کہ جب تمام شواہد چیخ چیخ کر پکارتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے بیوقوفانہ مداخلت کا جنون ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اپنی گونا گوں کمزوریوں اور غلطیوں کے ساتھ پچھلی حکومت‘ یعنی عمران خان کی حکومت‘ صحیح سمت میں چل رہی تھی۔ مہنگائی تھی اور اُس کے اسباب بھی تھے لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ معاشی ہدف پورے ہو رہے تھے۔ ٹیکس کی مد میں زیادہ پیسے اکٹھے کیے جا رہے تھے۔ ایکسپورٹ کی شرح ملکی تاریخ میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ چکی تھی۔ فیصل آباد اور کراچی کی ٹیکسٹائل ملوں کو برآمدات کے اتنے آرڈر مل رہے تھے کہ پورا کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ گروتھ ریٹ تقریباً چھ فیصد تھا۔ یہ میرے یا پی ٹی آئی کے اعداد و شمار نہیں حکومتِ پاکستان کے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود شوقِ سیاسی انجینئرنگ کے تحت اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا اور حالات ایسے پیدا کیے گئے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدمِ اعتماد لائی جائے۔ اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ اپوزیشن جماعتوں کے پیچھے ہاتھ کس کا تھا۔
چلئے‘ جو سیاسی عناصر ڈگڈگی کی تھاپ پر فنِ رقص کی مہارت رکھتے ہیں اُنہوں نے وہی کیا جو بینڈ ماسٹروں نے کہا۔ ایم کیو ایم ادھر‘ بلوچستان عوامی پارٹی اُدھر‘ پی ٹی آئی کی صفوں میں سے منحرفین کے ایک ٹولے کا نمودار ہونا‘ یہ سب کارنامے بروئے کار لائے گئے اور تحریک عدمِ اعتماد کامیاب ہوئی۔ جب عمران خان اور پی ٹی آئی نے آگے سے مزاحمت دکھائی تو مخصوص ٹرک شاہراہِ آئین پر دیکھے گئے اور عدالتوں کے دروازے بھی رات کی تاریکی میں کھل گئے۔ تحریک کامیاب ہوئی‘ عمران خان اپنے گھر کو چلے گئے۔ وزیراعظم ہاؤس میں اُن کا کوئی لمبا چوڑا سامان نہ تھا‘ لہٰذا وزیراعظم ہاؤس کو چھوڑنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ لیکن پھر کام وہ ہونے لگا جو تیار شدہ تحریر یا سکرپٹ میں رقم نہ تھا۔ عمران خان نے کال دے رکھی تھی کہ دو دن بعد شام کو بطور احتجاج عوام سڑکوں پر آئیں۔ بخدا میں نے سمجھا کہ لو‘ ایک اور بیوقوفی سرزد ہو رہی ہے۔ حکومت گھر جا چکی ہوگی‘ کسی کی کال پر لوگ کہاں باہر نکلیں گے۔ لیکن ہم جیسے کیا‘ دنیا حیران ہو گئی جب لوگ نکلے‘ نہ صرف پاکستان کے شہروں میں بلکہ باہر کے ملکوں میں بھی جہاں جہاں پاکستانی بستے ہیں۔
ہم جیسوں کیلئے تو حیرانی تھی ہی لیکن سکرپٹ لکھنے والے بھی ششدر رہ گئے۔ حکومت جانے کے دھچکے کے بعد عمران خان کو تو گھر بیٹھنا چاہئے تھا‘ کچھ اوسان سنبھالنے کی ضرورت پیش آنی چاہئے تھی‘ لیکن کمال ہے کہ عمران خان نے جلسوں کے ایک سلسلے کا اعلان کردیا۔ جہاں گئے عوام ٹوٹ ٹوٹ کر وہاں پہنچے۔ یہ بھی سکرپٹ میں درج نہ تھا۔ سکرپٹ لکھاریوں نے سمجھا ہوا تھا کہ ہرچیز دب جائے گی لیکن دبنے کے بجائے پورے ملک میں ایک شعلۂ اضطراب بھڑک اُٹھا۔ جسے سوشل میڈیا کہتے ہیں اُس میں پھر وہ وہ درج ہوا‘ وہ وہ کارٹون بنائے گئے‘ وہ وہ سیاسی انجینئروں کا مذاق اُڑایا گیا کہ الامان الحفیظ۔ ان گناہگار آنکھوں نے ایسا ردِ عمل پہلے کبھی نہ دیکھا۔ ایسا پاکستان میں پہلی بار ہو رہا تھا اور عوام کا غم و غصہ ایسا تھا کہ کسی چیز کو بخشا نہ جا رہا تھا۔
71ء کی جنگ میں میری تعیناتی بی آر بی نہر پر تھی۔ ایک مقام ہے جہاں بی آر بی نہر کو دریائے راوی کے نیچے سے گزارا جاتا ہے۔ اس مقام کو سائفن کہتے ہیں۔ یہاں ایک بیراج بنا ہوا ہے جس کے گرد میرے زیر کمان طیارہ شکن توپیں تعینات تھیں۔ جنگ ہم ہار گئے اور اُس کے فوراً بعد میری تعیناتی کچھ گنوں کے ساتھ لاہور والٹن ایئر پورٹ پر ہوئی۔ شاموں کو گنوں کو دیکھنے یوں لگتا کہ پورا گلبرگ امڈ کے آرہا ہے۔ ہم ہارے ہوئے تھے‘ ملک دولخت ہو چکا تھا‘ نوے ہزار فوجی اور نیم فوجی افراد انڈیا کی حراست میں تھے۔ مغربی پاکستان میں پانچ ہزار مربع میل رقبہ انڈین قبضے میں آچکا تھا۔ لیکن پھر بھی لوگ ہمیں اور ہماری وردیوں کو دیکھتے‘ تو سلام کرتے جس سے ہمارے پست حوصلے بلند ہوتے۔ کوئی ایک شخص بھی ہمیں برا بھلا نہ کہتا۔ آج ہم نے کوئی ظاہری جنگ نہیں ہاری۔ اللہ کے فضل سے ظاہری طور پر ہرچیز قائم ہے لیکن جو ذہنی اضطراب اور خلفشار ذہنوں میں پھیل رہا ہے اور جس کا اظہار سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے میرے جیسا پرانا فوجی کبھی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہو رہا ہے اور اس شدت سے کہ کیا سیاسی انجینئر اور کیا قوم‘ سب حیران و پریشان ہیں۔
یا تو عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے بعد حالات سنبھل جاتے‘ تیل کے کنویں دھرتی سے اُبل پڑتے‘ بجلی گھر چلتے‘ معاشی خوشحالی آ جاتی‘ قیمتیں زیادہ نہیں تھوڑی سی نیچے آ جاتیں‘ شام ڈھلے پورا ملک روشن ہو جاتا‘ پھر تو کوئی بات تھی۔ پھر تو قوم نے باہر نکل کے آپ کے حق میں نعرے لگانے تھے۔ سوشل میڈیا آپ کی تعریفوں سے بھرا پڑا ہوتا۔ عمران خان کو گالیاں پڑ رہی ہوتیں۔ لیکن یہاں توسب کچھ اُلٹ نکلا ہے۔ اڑھائی ماہ میں وہ معاشی تباہی ہوئی ہے کہ خدا کی پناہ۔ تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ شوقِ مداخلت کہاں سے اٹھا اورکیسے پیدا ہوا۔
میں فوج میں کپتان رہا ہوں اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک آدھ بار لیکچر دے چکا ہوں۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں رات کی تاریکی میں خفیہ ہاتھ حرکت میں آتے ہوں وہاں ایسی چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہم تو ایک فرد ہیں اور افراد کی کیا حیثیت ہے جب 71ء کی جنگ اور سانحہ مشرقی پاکستان جیسے سانحات ملکی تاریخ میں رونما ہو چکے ہوں اور اُن سے کسی نے کوئی سبق نہ سیکھا ہو۔ جہاں تک بھونڈے تشدد کا تعلق ہے اُس سے کچھ حاصل ہوتا ہو پھر تو اس کا کچھ عذر بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ملک جیسے چلنا چاہئے نہیں چل رہا‘ سیاسی انجینئرنگ کا شوق ختم نہیں ہو رہا‘ تو پھر بھونڈے تشدد سے کیا حاصل؟
جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بنے تواُنہوں نے ایک افطار پارٹی دی جس میں بہت سے صحافی مدعو تھے۔ سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو اُن سے معیشت کی زبوں حالی کے بارے میں پوچھا گیا۔ پُراعتماد لہجے میں اُنہوں نے کہا کہ معیشت کو بھی ہم ٹھیک کر سکتے ہیں۔ جو سوال آتا‘ کہتے: یہ بھی ہم ٹھیک کر لیں گے۔ اُن کے دورِ اقتدار نے ثابت کیا کہ قومی معاملات کی سمجھ خاصی محدود تھی۔ ذاتی فائدہ اس دور کے اکابرین کو ہوا ہوگا لیکن ملک خاصے نقصان میں رہا۔ مشرف دور کے بعد بظاہر تو جمہوریت رہی ہے لیکن درپردہ مداخلت کا جنون بھی زندہ رہا ہے۔ سوال ہے کہ جو کام اپنی سمجھ کا نہیں اُس میں ہاتھ کیوں ڈالنا؟ لیکن ڈالنا ہے اور ضرور ڈالنا ہے۔