"AYA" (space) message & send to 7575

وقت وقت کی بات ہے

1997ء میں نون لیگ چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر برہم تھی کہ وہ حکومتی کاموں میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ شاہ صاحب نے کسی بنا پر وزیراعظم نواز شریف پر توہینِ عدالت کا مقدمہ تھوپ دیا جس کی وجہ سے نواز شریف کو سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑ رہا تھا۔ منصوبہ بنا کہ شاہ صاحب بات تو مان نہیں رہے ان کا کچھ علاج کیا جائے۔
نون لیگ کے جتھے تیار کیے گئے‘ کچھ قریب راولپنڈی سے آئے اور کچھ لاہور سے۔ صبح کے ناشتے کا اہتمام پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ ناشتے سے مستفید ہوکر پہلے سے تیار جتھے پنجاب ہاؤس سے بذریعہ شاہراۂ دستور سپریم کورٹ میں آئے جہاں اُنہوں نے ہلہ بول دیا۔ نعرے لگاتے ہوئے جتھے کمرہ عدالت نمبر ایک میں پہنچے۔ شور شرابے کا پتا چلا تو چیف جسٹس اور اُن کے دو ساتھی ججوں نے یہی بہتر سمجھا کہ وہاں سے رخصت ہوں۔ اپنے گرد مخصوص عدالتی گاؤن لپیٹتے ہوئے جج صاحبان کمرۂ عدالت سے نکل گئے اور یوں نون لیگ نے وہاں اپنی فتح کا جھنڈا لہرایا۔
اُس سے پہلے یہ ہوا تھا کہ سپریم کورٹ کی صفوں میں انتشار پیدا کیا گیا۔ جسٹس رفیق تارڑ سپریم کورٹ کے جج تھے اور اُن دنوں دبئی گئے ہوئے تھے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ دبئی میں پاکستان کا جو قونصل جنرل تھا اُن کو ہنگامی پیغام ملا کہ جسٹس تاڑر دبئی آئے ہوئے ہیں اور اُنہیں فوراً ڈھونڈا جائے۔ قونصلیٹ جنرل کے عملے کو کچھ معلوم نہ تھا کہ جج صاحب کا قیام کہاں ہے۔ پتا چلا کہ اُن کے ایک صاحبزادے فلاں بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔ صاحبزادے کی کھوج لگائی گئی اور جج صاحب تک رسائی حاصل ہوئی۔ اُن سے کہا گیا کہ جناب! یہ آپ کا ٹکٹ ہے اور آپ کا شدت سے وطن میںانتظار کیا جا رہا ہے۔ جج صاحب پاکستان پہنچے تو کوئٹہ گئے جہاں سے سپریم کورٹ میں سرنگیں لگانے کے کام کا آغاز ہوا۔ اپنے مشن میں جج صاحب کامیاب ہوئے اور کوئٹہ رجسٹری میں اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ پھر جب نون لیگ کے جتھوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تو جسٹس سجاد علی شاہ کا قصہ تمام ہوا۔
یہ یادیں تازہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ اس لیے کہ آج بھی نون لیگ سپریم کورٹ کے خلاف بپھری پڑی ہے۔ اس کا بس چلے تو اینٹ سے اینٹ بجا دے لیکن سوائے دانت پیسنے کے اور خالی دھمکیاں دینے کے نون لیگ والے بے بس ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس سنے جا رہے ہیں اور اندر ہی اندر سے غصہ اُبل رہا ہے لیکن نون لیگ بے بسی کا منظر پیش کررہی ہے۔ آج بھی پنجاب ہاؤس اسلام آباد اُن کے تسلط میں ہے لیکن نہ کوئی لاہوری ناشتے نہ کوئی حملہ کرنے والے تیار جتھے۔
1997ء اور آج کے حالات میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ تب نہ صرف نون لیگ اسلام آباد اور لاہور میں اقتدار میں تھی بلکہ عوامی طاقت بھی اُس کے پیچھے تھی۔ نون لیگ بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں آئی تھی۔ آج کہنے کو تو شہباز شریف وزیراعظم ہیں اور اُن کے فرزند چیف منسٹر پنجاب (تھے) لیکن عوامی طاقت کہیں اور جا چکی ہے۔ ان کا بس چلتا تو پھر سے سپریم کورٹ کو سبق سکھا دیتے لیکن بس چل نہیں رہا۔ دھمکیوں کے سوا کچھ رہ نہیں گیا۔ اِس لیے یہ مجسم بے بسی بنے ہوئے ہیں۔ عوامی قوت کسی کے اشاروں پر چل رہی ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ کال دیتے ہیں تو پاکستان کے طول و عرض میں عوام باہر اُمڈ آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی قوت اور توپیں عمران خان کی حمایت میں ہیں۔ جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں وہ اپنے مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔ مجسم حیرت وہ بھی بنی ہوئی ہے کیونکہ نہ کوئی بات سمجھ میں آ رہی ہے نہ حالات کنٹرول میں ہیں۔ ایسے میں نون لیگ کے غصے میں ڈوبے لیڈران جو سپریم کورٹ کے ساتھ کرنا چاہتے ہوں گے‘ کر نہیں پا رہے۔
یہ سطور دوپہر کے چار پانچ بجے لکھی جا رہی ہیں۔ پنجاب حکومت کے مستقبل کا فیصلہ ہونے کو ہے۔ دورانِ سماعت جو جج صاحبان کہتے رہے ہیں وہ ریمارکس قوم کے سامنے ہیں۔ پتا نہیں فیصلہ کیا آتا ہے لیکن نون لیگ اور اُس کے اتحادیوں کی حالت دیکھنے والی ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر ٹی وی کیمروں کے سامنے بولے جا رہے ہیں لیکن دبی ہوئی دھمکیوں کے علاوہ کچھ کر نہیں پا رہے۔ حمزہ شہباز کی قسمت بھی دیکھیے۔ حلف لے لے کر گلا بیٹھ چکا ہوگا لیکن پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ایسی چڑیا ثابت ہو رہی ہے جو کبھی یہاں بیٹھتی ہے کبھی وہاں اُڑ جاتی ہے۔ کچھ کسر تو پہلے ہی نکل چکی جب چیف جسٹس صاحب کا حکم آیا کہ عارضی وزیراعلیٰ ہیں۔ کچھ کسر باقی ہے۔ دیکھتے ہیں فیصلہ کیا ہوتا ہے۔
اصل مسئلہ پنجاب کا نہیں ہے‘ پنجاب کی صورتحال علامتی نوعیت کی ہے۔ اصل مسئلہ وہ پارلیمانی شب خون ہے جو عمران خان کی حکومت کے خلاف مارا گیا اور جس کے نتیجے میں ملک کے سیاسی اور معاشی معاملات مملکتِ پاکستان کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ شب خون کے نتیجے میں جو حکومتی بندوبست سامنے لایا گیا اُس کی گرفت کسی بھی چیز پر ہے؟ حکومت ہے یا ڈھکوسلا ہے۔ جو بیس ضمنی انتخابات پنجاب میں ہوئے اُن کے نتائج نے بتلا دیا کہ عوامی رائے کہاں کھڑی ہے۔ تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ جنہیں عمران خان اپنے جلسوں میں مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کہہ کے پکارتے رہے اُنہوں نے تمام تر زور لگایا لیکن کچھ تدبیر بھی کارگر ثابت نہ ہوئی اور نتائج ایسے آئے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک نہ صرف حکومتی بندوبست بلکہ پیچھے کھڑے سرپرست بھی ہل کے رہ گئے۔ جب نتائج اتنے واضح تھے تو عقل اس میں تھی کہ اُنہیں مان لیا جائے اور چودھری پرویز الٰہی اپنی اکثریت کے بل بوتے پر پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہو جائیں۔
لیکن کسی کی شامت آنی ہو تو عقل پر پردے پڑجاتے ہیں۔ سوچ کی صلاحیت چلی جاتی ہے۔ یہاں بھی یہی کچھ ہوا۔ ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے پنجاب اسمبلی میں وہ کیا جو اُسے آٹھویں نویں کا طالب علم بھی بتا سکتا تھا کہ بیوقوفانہ عمل ہے۔ حمزہ شہباز نے پھر سے حلف اٹھا لیا اور وزیراعلیٰ بن گئے لیکن محض چند گھنٹوں کیلئے۔ رات کو ہی مسئلہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری لے جایا گیا اور صبح حمزہ شہباز کو پھر سے خفت اٹھانا پڑی۔ مطلب یہ کہ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ نون لیگ اور اتحادی مسلسل تنقید کی زد میں ہیں‘ کبھی یہاں سے کبھی وہاں سے۔ لیکن کیا ڈھٹائی پائی ہے اقتدارسے چمٹنے کی کوشش جاری و ساری ہے۔ چھتر بھی پیاز بھی لیکن ڈھٹائی ان دونوں اجزا پہ قادر۔
پہلے بھی بہت کچھ پاکستانی تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ عوام پر فیصلے مسلط کیے جاتے تھے اور عوام کے پاس کوئی چارہ نہ ہوتا تھا سوائے اُن فیصلوں کو قبول کرنے کے۔ فرق اِس بار یہ ہے کہ میدان میں ایک مرد کھڑا ہو گیا ہے اور ملکی حالات ایسے بن چکے ہیں کہ ملک کے طاقتور عناصر اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کم لیڈر نہ تھا لیکن آوازِ مزاحمت اٹھائی تو قتل کا مقدمہ اُن پر دھر دیا گیا۔ وقت وقت کی بات ہے حالات بدل چکے ہیں۔ عمران خان کو دیکھتے طاقتور لوگ لال پیلے ہو رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ بالکل ویسے ہی جیسے نون لیگ والے سپریم کورٹ کی کارروائی دیکھتے ہوئے اپنے سے باہر ہو رہے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کر نہیں سکتے۔
جناب والا! ملک پر کچھ رحم کریں۔ کتنا مزید بگاڑ اس کا کرنا ہے؟ شب خون آپ کا ناکام ہو چکا ہے۔ عوام نے ناکام کیا ہے۔ کچھ تو سمجھ جائیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں