قانونی بحث بے معنی ہے کیونکہ یہاں بڑے قانونی فیصلے اکثر سیاسی تناظر میں ہوتے ہیں‘ لہٰذا پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کو بھی سیاسی خدوخال میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن جو کر سکتا تھا اُس نے کردیا۔ آگے جو کچھ ہونا ہے وہ وفاقی حکومت کی صوابدید ہے کہ وہ مسئلے کو سپریم کورٹ بھیجتی ہے یا نہیں۔ بڑے ایکشن کی سفارش وفاقی حکومت کر سکتی ہے لیکن آخری فیصلہ قانون کے مطابق سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
جہاں سب کچھ داؤ پہ لگا ہو اور عمران خان اور جن کے پاس طاقت ہے اُن کے درمیان ٹھنی ہو تو ایسے منظر نامے میں اگلوں سے کسی رو رعایت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ عدمِ اعتماد کی تحریک کو لانا اور پھر اُسے کامیاب کرانا چھوٹا کام نہ تھا لیکن اگلوں نے کر دکھایا اور جو وہ چاہتے تھے ویسا ہوا‘ یعنی عمران خان کی وفاقی حکومت کی چھٹی کرا دی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ سب کچھ کرنے والے عوامی ردِ عمل کا درست اندازہ نہ لگا سکے اور ملک کے عمومی حالات ہر محاذ پر خراب ہوتے گئے۔ لیکن محاذ آرائی اپنی جگہ قائم ہے۔ اگر عمران خان کوئی نرمی نہیں دکھا رہے تو اُن کے مخالفوں کے زخم بھی ٹھنڈے نہیں ہوئے۔ مخالفوں کے ہاتھ جو حربہ آئے گا وہ استعمال کریں گے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن آخری توپ خانہ تھا۔ وہاں سے جو توپ چلنی تھی چل چکی۔ اب دیکھنا ہے آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا مخالفین اتنی ہمت رکھتے ہیں کہ اس معاملے کو آخری حدوں تک لے جائیں اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بنیاد بنا کر عمران خان کی نااہلی کا سامان تیار کریں؟
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نواز شریف کو ایک تکنیکی نکتے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔ پاناما کیس کی کارروائی ہوئی تو بہت لمبی تھی لیکن آخرکار انحصار ایک چھوٹے تکنیکی نکتے پر ہی کیا گیا کہ فلاں ایک اکاؤنٹ ہے جو ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ اُس اکاؤنٹ سے نواز شریف نے پیسے نکلوائے نہیں تھے لیکن پھر بھی یہ سٹینڈ لیا گیا کہ اُس اکاؤنٹ کو ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ اس بنا پر نواز شریف پاناما کیس میں نااہل قرار پائے تھے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کے خلاف بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ میرے خیال میں نہیں! اور یہ میں صرف اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک تو ملکی حالات خراب ہیں اور دوم پی ٹی آئی ایک بڑی عوامی طاقت بن چکی ہے اور اگر وہ ردِ عمل دکھانے پر آئے تو ملکی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا جو رائے میں دے رہا ہوں اس کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ محض سیاسی حالات پر مبنی ایک سیاسی رائے ہے جو درست ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔
البتہ اتنا تو ہے کہ تحریک انصاف قدرے دفاعی پوزیشن پر آگئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ متعلقہ فنڈ ضبط کیے جائیں۔ اس نوٹس کا جواب دینا ہوگا اور پھر مسئلہ وفاقی حکومت کے پاس جائے گا اور وہاں جو لوگ موجود ہیں‘ ظاہر ہے وہ جو کچھ عمران خان کے خلاف کر سکے اُنہوں نے کرنا ہے۔ یعنی پی ٹی آئی کا دھیان تو بٹ گیا۔ اُس کیلئے یہ لازمی امر بن جائے گا کہ وہ یہ قانونی جنگ لڑے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میری پھر بھی رائے ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف بڑا ایکشن نہیں لیا جا سکتا کیونکہ ملکی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔
ایک بات البتہ یاد آتی ہے کہ جب 1977ء کا مارشل لاء لگا اور اُس کے بعد جب 302 کا مقدمہ ذوالفقارعلی بھٹو پر قائم ہوا تو ہم جیسے سمجھدار کہتے تھے کہ ایک تو جنرل ضیا الحق نوے دن میں الیکشن کرانے سے بھاگ نہیں سکیں گے‘ یعنی اُنہیں الیکشن کرانے پڑیں گے‘ اور دوسری بات بھٹو صاحب پر مقدمہ قائم تو ہو گیا لیکن اُن کے خلاف آخری حدوں والا معاملہ نہیں ہوگا یا نہیں ہو سکتا کیونکہ حالات اس کی اجازت نہ دیں گے۔ اُس موقع پر ہم جیسے سمجھدار لوگ غلط ثابت ہوئے۔ کیا اس کا احتمال ہے کہ ہم جیسے سمجھدار لوگ ایک بار پھر غلط ثابت ہوں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں! اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کے پاس وہ سپورٹ ہے جس سے بھٹو صاحب محروم تھے۔ بھٹو عوامی لیڈر تھے لیکن جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں وہ اُن کے خلاف تھی۔ نہ صرف خلاف تھی بلکہ اُن کو دشمنی کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ یہ صورتحال اب نہیں ہے۔ عمران خان جہاں عوامی لیڈر ہیں وہاں اوپر کے طبقات میں بھی اُن کی بے پناہ سپورٹ ہے۔ حتیٰ کہ جو مقتدر حلقے ہیں وہاں بھی اُن کی حمایت پائی جاتی ہے۔ ایسے میں کوئی بڑا ایکشن لینا ناممکن ہے۔ یا کم از کم میرے جیسے سمجھتے ہیں کہ ایسا ایکشن ناممکن ہوگا۔ البتہ ایک بات سے ڈر لگتا ہے کہ جس دشمنی کے شاخسانے ہم دیکھ رہے ہیں وہ بہت دور تک جا چکی ہے۔ اور جہاں دشمنی کی آگ اتنی بھڑک رہی ہو وہاں کچھ کرنے کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ پھر عقل سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ عداوت کی آگ ہی راہ دکھاتی ہے۔
چھوڑیے ان فضول باتوں کو‘ حریفوں کے عزائم ٹھنڈے نہیں ہوں گے لیکن یہاں حالات بہت بدل چکے ہیں۔ عوامی مزاج بپھر چکا ہے اور تکنیکی قسم کی یہاں کوئی حرکت ہوئی تو میرا خیال ہے برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ تو سب کچھ کرنے والے دیکھ چکے ہیں کہ عوامی جذبات کی نوعیت کیا ہے۔ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ انگوٹھا چھاپ مشین نہیں‘ کسی کے اشاروں پر چلنے والی نہیں۔ وہ زمانے گئے جب شریف الدین پیرزادہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔ 1977ء کا نصرت بھٹو کیس جو کہ مارشل لاء لگنے کے خلاف تھا‘ میں پیرزادہ صاحب فیصلے پر اثر انداز ہوئے تھے۔ یہ کہانی تو اب مشہور ہے کہ چیف جسٹس انوار الحق جب فیصلہ لکھ چکے تھے تو شام کی ایک ضیافت میں پیرزادہ صاحب نے جج صاحب سے پوچھا کہ فیصلہ لکھ دیا گیا ہے؟ جب جج صاحب نے کہا: ہاں! تو پیرزادہ صاحب نے پوچھا کہ اُس میں جنرل ضیا کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا ہوگا؟ جسٹس انوار الحق نے کہا کہ ایسا تو نہیں کیا، جس پر شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ ایک پی سی او آنے والا ہے جس میں تمام جج صاحبان کو نیا حلف لینا ہوگا۔ جسٹس صاحب اشارہ سمجھ گئے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ ضیافت کے فوراً بعد سپریم کورٹ‘ جو تب پشاور روڈ راولپنڈی میں بیٹھا کرتی تھی‘ کے دروازے کھولے گئے اور ٹائپ شدہ فیصلے پر جسٹس صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھا کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو الیکشن کروانے کی غرض سے آئین میں ترمیم کرنے کا حق بھی دیا جاتا ہے۔ وہ زمانے تب کے تھے‘ اب زمانہ بدل چکا ہے۔
انتخابات کب ہوتے ہیں‘ کہنا مشکل ہے لیکن ان کے انعقاد سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اور جب الیکشن کا طبل بجے گا دھرتی ہل کے رہ جائے گی۔ لیکن جب تک انتخابات نہیں ہوتے جو اوپر بیٹھے ہیں اپنے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہیں گے کہ کسی طریقے سے عمران خان کا راستہ روکا جائے۔ بات البتہ یہ ہے کہ کرنے والوں کے ہاتھوں میں زیادہ کچھ نہیں رہا۔ خواہشات کے انگار ے سلگ رہے ہوں تو اُنہیں سلگنے سے تو کوئی روک نہیں سکتا لیکن خواہشات کی تکمیل علیحدہ کہانی ہے۔ توشہ خانہ والا معاملہ گزر نہیں گیا‘ یہ فنڈنگ والا معاملہ بھی دم توڑ جائے گا۔ اور جو عوامی قوت بن چکی ہے اور جو اس عوامی قوت کا غم و غصہ ہے وہ اپنی جگہ قائم ہے۔
نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ کہاں تک اسے روکیں گے؟ یہ سارے جو اوپر بیٹھے ہیں گزرے ہوئے کل کے نمائندے ہیں۔ آنے والے کل نے تو ابھی آنا ہے۔