ہمارے گاؤں کا ایک جانا پہچانا آدمی ہے جو کتوں کے شکار‘ بیلوں کے میلے‘ کبڈی اور والی بال میچوں سے دلچسپی رکھتا ہے۔ اس قسم کے شغل اُس کی زندگی کا محور رہے ہیں۔ تلہ گنگ میں بیلوں کا میلہ ہو تو اس کا وہاں پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔ کام تو کھیتی باڑی کا ہے لیکن دلچسپی ان چیزوں میں ہے۔ پتا چلے کہ کوئی خاص قسم کا شکاری کتا سندھ کے کسی دیہات سے مل رہا ہے تو دوستوں کے ساتھ وہاں چل پڑے گا۔ زندگی کی کوئی اور فکر اس کو نہیں۔ میں ایسے شخص کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔
ہمارے دوست ایک پیر صاحب ہوا کرتے تھے جو اب اس دنیا میں نہیں۔ اُن کی گدی ہمارے گاؤں سے کچھ دور ہی واقع ہے۔ عجیب شاہانہ مزاج کے مالک تھے۔ نہار منہ ہی اُس چیز کا استعمال شروع کر دیتے تھے جس سے ہر طرف مانا جاتا ہے کہ طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ چکوال کبھی آتے تو ملاقات ہوتی۔ اچھے موڈ میں ہوتے‘ دھیمی سی مسکراہٹ اُن کے چہرے پہ نکھر رہی ہوتی اور وہ کسی سے مخاطب ہوتے تو اُسے سخی کہتے۔ میں پوچھتا کہ حضور کیسے آنا ہوا ہے تو جواباً فرماتے کہ سخی فلاں محفلِ رقص ہوئی تھی‘ سامنے سنگیت نامی جو دکان ہے وہاں سے اُس محفل کی وڈیو لینے آئے ہیں۔ غور تو ہو کہ اُن کے ذہن میں ایسی باتیں ہی ہوتی تھیں‘ کوئی گزری ہوئی محفل اور اُس سے وابستہ کچھ یادیں۔ عام لوگ فکر فاقوں میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ حالات سے ویسے ستائے رہتے ہیں۔ جن کے پاس بہت ہوتا ہے وہ بھی عجیب عجیب فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ فلاں انویسٹمنٹ کا کیا ہوگا‘ فلاں جائیداد کی فائل کا کیا بنا وغیرہ وغیرہ۔ شامیں گزارتے ہیں تب بھی ایسے لوگوں کو چین نصیب نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے افسر اپنی افسری تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتے۔ ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں کہ ہے تو بہت لیکن کافی نہیں‘ اور ہونا چاہیے۔
ان کے برعکس ہمارے یہ دوست جن کا ذکر ہوا ہے۔ عجیب مستی میں ایسے لوگوں کے دن گزرتے ہیں۔ فلاں میلہ ہو رہا ہے وہاں جانا ہے۔ اور جن پیر صاحب کا میں نے ذکر کیا اُن کی خواہشات تو دیکھیں کہ وہ جو فلاں جگہ فن کا مظاہرہ ہوا تھا‘ اس کی ڈھنگ سے وڈیو تو کوئی مل جائے۔ تھے بہت ہر دلعزیز‘ ہر شام کہیں نہ کہیں دعوت ہوتی تھی۔ مجھے ملتے تو کہتے کہ ایک چوزہ رکھا ہوا ہے‘ شام کو آ جانا بڑے طریقے سے تیار کیا جائے گا۔ یہ بھی کہہ دیتے کہ کچھ اور چیزیں بھی موجود ہوں گی۔ دنیا میں جہاں چکوال کے لوگ بستے تھے وہاں اُن کے مرید ہوتے تھے۔ اُنہیں گفٹ وغیرہ آتے رہتے تھے لیکن کمال کی بات ہے کہ سب گفٹ ایک طرف رکھتے اور ایک مخصوص سوغات پہ تکیہ کرتے۔ اب چلے گئے ہیں اور اُن کی یاد آتی ہے۔
پیسہ کمانا بہت ضروری ہے‘ اِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن پیسہ کمانا اور پیسہ لگانا یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ بہتوں کو پیسہ کمانا آتا ہے‘ لگانا نہیں آتا۔ لگانے کا یہ مطلب نہیں کہ بڑا فارم ہاؤس ہو‘ گاڑیاں کھڑی ہوں‘ نوکروں کا طم طراق ہو۔ بات تو تب ہے کہ پیسہ ہو تو دنیا کی روزمرہ کی چھوٹی موٹی فکر سے آپ آزاد اور بے نیاز ہو جائیں۔ یہ کیا ہوا کہ پیسہ بہت ہو اور بلڈ پریشر اورذیابیطس کے مرض بھی لاحق ہو جائیں۔ ناشتے کے وقت گولیاں آپ پھک رہے ہوں‘ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے آپ کی جان نہ چھوٹے۔
پیسہ لگانے کے حوالے سے البتہ ایک بات کی مذمت ضروری ہے۔ ایسوں کو بھی ہم نے دیکھا ہے جن کو کچھ ورثے میں ملا اور وہ اُسے تڑکا لگانے لگے اور فضول کی عیاشیوں کی طرف چل نکلے۔ ہمارے گاؤں اور آس پاس کے علاقے میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ زمین اپنی بیچی اور اُن پر لگا دی جن کا مسکن عموماً بدلتا رہتا ہے۔ ایسی حرکات تو لچرپن کے زمرے میں آتی ہیں۔ بات تو وہ ہے کہ اپنی کمائی سے آپ کچھ کریں اور خوش قسمت لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔ ایک اور بات ہے کہ لٹانے کا بھی ڈھنگ ہوتا ہے۔ پیسہ برباد کرنے کیلئے ایک اسلوب چاہیے۔ مثال کے طور پر میرے جیسے آدمی کے ہاتھ میں وقتی طور پر بہت کچھ آ جائے تو میں کروں گا کیا۔ عمر بیت گئی طریقے کا رقص ہمیں کرنا نہیں آتا۔ کسی محفل میں جائیں تو بے ترتیبی باتیں کر ڈالتے ہیں۔ وہ جو جانِ محفل ہوا کرتے ہیں وہ ہم کبھی نہیں رہے۔
ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ نسبتاً جوانی میں اُس علاقے میں جانا ہوا جو کہ بادشاہی مسجد کے خاصا قریب ہے۔ مرحوم ظفر اقبال مرزا جو اپنے زمانے کے مشہور انگریزی صحافی تھے وہ ساتھ تھے اور ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے سینئر اور ایک لحاظ سے گرو آئی اے رحمان بھی وہاں موجود تھے۔ بہت اچھی محفل تھی‘ سلجھے ہوئے لوگ تھے۔ یاد نہیں پڑتا کہ کون سی موسیقی بجائی گئی اور اُس پہ کس قسم کا پرفارمنس ہوا۔ لیکن ایک بات یاد ہے کہ اُس جگہ کی جو خاص نوجوان شخصیت تھی اور جس کے فن کا مظاہرہ ہم دیکھنے گئے تھے اُن کا ایک نوجوان جاننے والا بھی وہاں موجود تھا۔ پتا چلا کہ یہ اُن کا جاننے والا ہے تو ہمیں اچھا تو نہ لگا لیکن وقفے وقفے سے وہ نوجوان کھڑا ہو جاتا اور خاص شخصیت کے ساتھ مل کر پرفارم کرنے لگتا۔ کیا انداز اُس کا تھا‘ کس بے خودی کے عالم میں وہ رقص کررہا تھا۔ ہم سب کچھ بھول گئے اُس کو دیکھتے رہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اُس جگہ پر اُس کی خاص پہچان تھی تو جیب اُس کی لمبی ہوگی اور وہ خرچتا بھی ہوگا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ نرالا انداز ہو پھر توکوئی پیسہ لٹائے۔ ہم جیسے تھدی ایک پیسوں کی کسی جگہ لے جائیں‘ پاؤں ٹھیک طرح زمین پر پڑیں نہ‘ موسیقی کہیں اور جا رہی ہو ہمارے پاؤں کہیں اور لڑکھڑا رہے ہوں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کے تو ہنسی آتی ہوگی۔
بہرحال زندگی کے چکروں سے اب تھک چکے ہیں۔ امیدیں بھی بیٹھ چکی ہیں۔ یہاں ہونا ہوانا کچھ بھی نہیں۔ یہ ملک لوٹنے والے طبقات کے ہاتھوں میں آچکا ہے اور اِن طبقات کے ہاتھ بڑے مضبوط ہیں۔ لہٰذا جیسی چل رہی ہے ایسے ہی چلے گی۔ یہ کہنا کہ مایوسی کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں فضول کی گفتار ہے۔ ٹھیک ہے عمران خان شور مچا رہے ہیں‘ اللہ انہیں اور ہمت دے لیکن اُن کے ساتھ بھی وہی لوگ ہیں جومراعات یافتہ طبقات کا حصہ ہیں۔ منصفانہ معاشرے کے قیام کیلئے یہاں کون تگ و دو کرے گا؟ اِسی لیے اکثر خیال آتا ہے کہ چھوڑیں اس جھمیلے کو‘ دنیا کی سیر کو نکلیں‘ اِتنا کچھ ہے جو دیکھا نہیں۔ یا ہمہ وقت توجہ کھیتی باڑی پر دیں۔ ایسے خیالات دل کو گھیرتے ہیں تو عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
لیکن کوئی کتاب لینن یا فیدل کاسترو کی ہاتھ آ جائے تو وجود میں آگ لگ جاتی ہے۔ مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور خیال آتا ہے کہ نہیں آخری دم تک جیسے بھی ہو جس انداز میں ہو سفر جاری رہنا چاہیے۔ استحصالی قوتیں مضبوط ہیں تو پھر کیا ہوا۔ ناقابلِ شکست تو نہیں۔ جبر و استبداد پر مبنی کتنے نظام دنیا میں آئے لیکن جب ان کا وقت آیا تو ان کے در و دیوار پاش پاش کر دیے گئے۔ لوگوں میں بیداری پیدا ہونے کی دیر ہوتی ہے۔ پر صحیح جماعت اور صحیح لیڈر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تب ہی بات بنتی ہے۔ ہماری بدنصیبی کہ یہاں کوئی ایسی جماعت نہیں آئی اور لیڈر بھی ہمیں ویسے ہی ملے ہیں۔ لیکن دل میں آرزو تو رہنی چاہیے۔