تعصب اور حسد کا کوئی علاج نہیں۔ تعصب کے مارے لوگ کیا سمجھیں گے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ عمران خان کو لاکھ برا کہیں‘ یہ ماننا پڑے گا کہ اُنہوں نے نوجوانوں کی سوچ بدل کررکھ دی ہے۔ جن موضوعات پر یہاں کبھی بات نہیں ہوتی تھی وہ سرعام ڈِسکس ہو رہے ہیں۔ نوجوان اب ایسی بات سنتے ہیں کہ یہ جو گمنام نمبروں سے دھمکیاں دیتے ہیں‘ ان کو واپس دھمکایا کرو۔ ہمارے ملک میں خوف کا راج چلتا رہا ہے اور جب کوئی کہے کہ خوف کی چادر اتار پھینکو تو یہ بات قومی تربیت کے زمرے میں آتی ہے۔ جب عمران خان کہتے ہیں یہ مسٹر ایکس اور وائے ہوتے کون ہیں ڈرانے والے تو پاکستانی تناظر میں یہ ایک نئی چیز ہے۔ عوام کے لیول پر ایسی باتیں کبھی پہلے نہیں سنی گئیں۔
اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں کو اہم عہدوں پر تعیناتیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی تو ایسی باتیں بھی پہلی بار کھلم کھلا ڈسکس ہو رہی ہیں۔ ان باتوں کے اثر میں پوری قوم‘ بالخصوص نوجوان آ رہے ہیں۔ جھوٹ تو یہاں بولا جاتا ہے‘ ناٹک کیے جاتے ہیں‘ لیکن ایسی باتیں سن کر ملک کے نوجوان آسانی سے ورغلائے نہ جا سکیں گے۔ پاکستانی سیاست میں خان کا یہ بڑا حصہ ہے یا جسے انگریزی میں Contribution کہتے ہیں۔ ایسی باتوں کے بعد کون سی مقدس گائے؟ ہمارے ہاں بڑے بڑے خیالی بت بنے رہے ہیں اور عمران خان کا یہ اعزاز ہے کہ ایک ایک کرکے وہ ان خیالی بتوں کو توڑ رہا ہے۔ اور کچھ ہو نہ ہو یہی بہت بڑی بات ہے۔ یہاں تو رواج رہا ہے کہ ہم اپنے سایوں سے ڈرتے رہے ہیں۔ یہ بات نہیں کرنی‘ اُس بات کے بارے میں احتیاط برتنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ خان اپنی تقریروں میں جو باتیں کہہ رہے ہیں ان سے یہ سب چیزیں ٹوٹ رہی ہیں۔
ایک اور بات دیکھیں‘ پنجاب میں شریف زادوں کا مقابلہ کون کر سکتا تھا؟ ان کا سیاسی تسلط‘ ان کی کمرشل اور انڈسٹریل ایمپائر‘ یہ اتنی مضبوط تھیں کہ مقابلہ کرنا تو دور کی بات ان کے خلاف کھڑا ہونا مشکل تھا۔ وسطی پنجاب اور لاہور کا تو ہم کہتے تھے کہ شریفوں کے قلعے ہیں۔ خان نے ان علاقوں میں آکر نہ صرف شریفوں کو للکارا ہے بلکہ انہیں پریشان کردیا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ خان کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کہ شریفوں کی عوامی مقبولیت تھی۔ اُن کے حلقے مضبوط کہلاتے تھے لیکن یہ سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ عوامی مقبولیت شریفوں سے ہٹ کر خان کے پیچھے آچکی ہے۔ یہی چیز شریفوں کو پریشان کررہی ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا لاہور میں انتخاب ہوں اور شریف ہار جائیں؟ لیکن ضمنی انتخابات میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ بالکل ایسا ہی ہوا اور لاہور سے یہ سیٹیں ہار گئے۔
سمجھا یہ جا رہا تھا کہ خان کو اقتدار سے ہٹائیں گے تو اس کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ بالکل الٹ ہوا کیونکہ خان کھڑا ہو گیا‘ طاقتوروں کو اس نے للکارا اور عوام بالخصوص نوجوانوں کے دلوں کو یہ بات لگی۔ اسی سے تو طاقتور حلقے حیران ہیں کیونکہ ان کی تمام منصبو بہ بندی میں یہ بات نہیں تھی کہ عوام عمران خان کے ساتھ ہو جائیں گے۔ حکومت ہو نہیں رہی‘ نون لیگیوں سے علیحدگی میں بات کریں تو وہ کہیں گے کہ شہباز شریف کسی کام کے نہیں نکلے۔ یہ تو جو ہوا ہو گیا لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ الیکشن سے یہ لوگ ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پھینٹی پڑ جائے گی لیکن کتنی دیر انتخابات سے بھاگ سکتے ہیں۔ آج نہیں تو کل کرانے پڑیں گے۔ اور اگر اگلے سال تک انتخابات نہ ہوئے‘ عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگا اور عمران خان کی سیاسی مقبولیت زیادہ زور پکڑے گی۔ دیکھیں تو سہی معیشت کا حال کیا ہو چکا ہے۔ اور چیزوں کو چھوڑیں صرف آٹے اور بجلی کو لیں۔ بلوں کی ادائیگی عام لوگوں کی استطاعت سے باہر ہو رہی ہے۔ آٹے کی قیمت تو جاکے پوچھ لیں کہ کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ اگلے سال تک کیا یہ حالات بہتر ہو جائیں گے؟ یہ عجیب سے حکمران جو اقتدا رمیں لائے گئے ہیں حقیقت سے منہ پھیر رہے ہیں لیکن فرار کے تمام راستے ان کیلئے بند ہو رہے ہیں۔ الیکشن آپ کو کرانے پڑیں گے‘ پھر کیا ہوگا؟
ایک بات ذہن نشیں ہونی چاہیے‘ لاٹھی گولی کی سرکار کا آپشن پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہا ہے۔ حالات خراب ہوئے تو شہسواروں کو موقع ملا اور سیاسی میدان کو انہوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ رونا یہ ہے کہ پاکستان میں اب اس آپشن کی گنجائش محدود کیا ختم ہو گئی ہے۔ پاکستان میانمار نہیں ہے۔ پاکستان مصر نہیں ہے۔ مصر میں اشرافیہ مقتدر قوتوں کے ساتھ تھی۔ آج کے پاکستان میں پاکستانی اشرافیہ تقسیم ہو چکی ہے۔ آدھے سے زیادہ حصہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ یعنی عمران خان کے ساتھ عوامی سپورٹ ہے اور ساتھ ہی معاشرے میں مقام رکھنے والے طبقات کی سپورٹ ہے۔ اسی لیے طاقتور حلقے بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں گے لیکن انہیں احساس ہو چکا ہے کہ وہ کر نہیں سکتے۔ اس لحاظ سے عمران خان کی پوزیشن ذوالفقار علی بھٹو سے مختلف ہے۔ بھٹو کے پیچھے اشرافیہ کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ اسی لیے بھٹو پر ہاتھ ڈالنا نسبتاً آسان تھا۔ یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان اور تھا اور تب لاٹھی گولی کی سرکار بہ آسانی قائم ہو سکتی تھی۔ آج کا پاکستان مختلف ہے۔ عوامی موڈ تبدیل ہو چکا ہے عمران خان نے لوگوں کے ذہنوں میں احساس کا مادہ بھر دیا ہے۔
جنرل ضیا کے زمانے میں کون سے سمارٹ فون ہوا کرتے تھے اور کون سے ذرائع ابلاغ؟ خبروں کیلئے پاکستانی عوام کو بی بی سی کا سہارا لینا پڑنا تھا۔ آج بی بی سی کو کون سنتا ہے‘ ہر فرد ہاتھ میں فون لیے بی بی سی بنا ہوا ہے۔ صحیح اور غلط خبریں فوراً پھیل جاتی ہیں۔ خان کی تقریروں کے فوری نشر ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن عوام کی تقریروں تک رسائی ختم تو نہیں ہو سکی۔ زبردستیاں بھی کی جا رہی ہیں‘ شہبازگل کی مثال کو سامنے رکھیے لیکن کتنوں کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کی بات ہو تو وہ اور چیز ہے لیکن یہاں سارے عوام کا مسئلہ ہے۔ عوام کا موڈ بدل چکا ہے اور کوئی یہ سمجھے کہ جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا‘ یہاں پنجاب میں وہاں سندھ میں‘ ان کی مزید حکمرانی اس ملک کے عوام برداشت کر لیں گے‘ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ دولت اکٹھی کرنے والوں کی خان نے مٹی اتنی پلید کی ہے کہ وہ کہیں پبلک میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ شریفوں کے لندن کے محلات کا کیا فائدہ جب آپ باہر نکلنا چاہیں تو بائیں دائیں دیکھ کر۔ باڈی گارڈوں کے بغیر چہل قدمی کر نہیں سکتے۔ پاکستانیوں سے لندن بھرا ہوا ہے۔ شہبازشریف پہلی بار مع وزیران نواز شریف کو ملنے لندن گئے تو ان عظیم رہنماؤں کو خفیہ مقام پر میٹنگ کرنی پڑی کہ کہیں لوگ دیکھ نہ لیں اور ہم پر آوازے نہ کسے جائیں۔ یہ ہے عوام کا موڈ اور یہ ہے نام نہاد لیڈروں کی کیفیت۔
یہ حالات اب رکنے کے نہیں۔ ملکی حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں اور آپ کی بے بسی اور نااہلی روز بروز عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی صورتحال کو کتنا طول دیا جا سکتا ہے؟ آپ کی اپنی گفتگو خان سے شروع ہوتی ہے اوراُسی پہ ختم ہوتی ہے۔ بات بہت آگے جا چکی ہے۔ ذہنوں میں طغیانی آچکی ہے۔ عوامی غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ اور آپ ہیں کہ سورج کے سامنے اپنا چراغ جلانے کی کوشش کررہے ہیں۔