نااُمیدی کیوں پھیلی ہوئی ہے؟ جہاں بیٹھو گفتگو کا بس ایک ہی موضوع کہ ملک کا کیا بنے گا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یا تو اُمید کی فصل بوئی ہوتی‘ پھر تو کہہ سکتے تھے کہ ارادے نیک تھے لیکن تدبیریں غلط ہوئیں۔ لیکن جہاں فضول کے نظریات کو پروان چڑھانے کا کام شروع دن سے ہی کیا گیا ہو وہاں اتنی مایوسی اور بے بسی کا جواز نہیں بنتا۔
پاکستان بیسویں صدی کے وسط میں معرضِ وجود میں آیا۔ لیکن کون سی ہماری چیز ہے جس سے عندیہ لگایا جا سکے کہ بیسویں صدی کے تقاضوں کا ہمیں کچھ ادراک تھا۔ہندوستان سے تعلقات خراب تھے لیکن وہ تو تقسیمِ ہند کا ایک منطقی شاخسانہ تھا۔ بٹوارہ ہوا‘ پنجاب میں وسیع پیمانے پر خون خرابہ ہوا‘ ہندو مسلم تفریق ڈل چکی تھی۔ ایسے میں تعلقات خراب نہیں تو کشیدہ رہنے تھے‘ لیکن کس عالم نے ہمیں یہ سبق دیا کہ قوم کی تعمیر و ترقی کے تقاضوں کو بھول کر ہم بیکار کی نظریاتی بحثوں میں پڑے رہیں؟ آج تک سمجھ نہیں آیا کہ قراردادِ مقاصد کس مقصد کی ایجاد تھی۔ ملک بن گیا کچھ قائداعظم کی قیادت کی وجہ سے کچھ انگریز حکمرانوں کی مہربانی سے‘ تقاضا توپھر یہ ہونا چاہیے تھا کہ نئے مولود ملک کو ترقی کی راہ پہ ڈالا جائے اور فرسودہ خیالات و تصورات‘ جن کی ہمارے معاشرے میں کبھی کوئی کمی نہیں رہی‘ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہم نے الٹا کام کیا‘ آگے کے بجائے پیچھے جانے لگے۔ تصورِ مملکت کو کوئی نئی پہچان نہ دے سکے بس فضول کی بحثوں میں الجھے رہے۔ پہلے ہی حالت پسماندگی والی تھی‘ رجعت پسندی ہماری اجتماعی سوچ کا حصہ تھی لیکن نئے خیالات کو جنم دینے کے بجائے ہم ماضی کے ذکر میں اپنی پہچان ڈھونڈتے رہے۔
شروع کے ایام میں ایک چیز اچھی تھی کہ حکمران کلاس انگریز کی تربیت یافتہ تھی۔ انگریزوں کا اثر کچھ اس طبقے پر تھا۔ لہٰذا شروع کے دس برسوں میں جہاں سیاسی استحکام بحیثیت قوم ہمیں نصیب نہ ہو سکا کئی اور کام ڈھنگ سے ہوتے گئے۔کوئی ڈیم بنے‘ کچھ فیکٹریاں بنیں‘ باہر کے لوگوں کو بھی غلط فہمی ہوئی کہ یہ قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزوں کا اثر بہت پہلے جا چکا۔ اب ہر چیز میں ہمارا اپنا خالص مزاج کارفرما ہے‘ لہٰذا جہاں دیکھو تباہی کے مناظر نظر آتے ہیں۔ انگریز فاتح قوم تھی‘ ہم محکوم تھے اور تاریخ کا اٹل سبق ہے کہ فاتح قومیں محکموم قوموں کا استحصال کرتی ہیں۔ استحصال کا عنصر نکال دیں تو فتح اور کامرانی کا جواز نہیں رہتا۔ لہٰذا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ انگریز قوم نے ہندوستان کی دولت کو لوٹا۔ نہ لوٹتے تو بے وقوف ہوتے۔ لیکن اس کے باوجود انگریز کچھ اچھے کام بھی کر گئے۔ ہماری آزادی کا مطلب تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جو ورثے میں اچھی چیزیں ملیں اُنہیں ہم آگے لے کے جاتے اور جو انگریزوں نے کا م نہیں کیے تھے وہ ہم کرتے۔ نئے کام ہم نے کیا کرنے تھے‘ انگریز ورثے میں جو اچھی چیزیں ملی تھیں وہ بھی سنبھال نہ سکے۔
ریلوے کا بہت اچھا نظام تھا۔ وہی نظام بھارت میں چل رہا ہے لیکن ہماری صلاحیتیں دیکھئے کہ ہم سے نہ چلا۔ ریلوے کے نظام کو برباد کرکے ہم نے رکھ دیا۔ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں روسیوں نے ہمیں ایک سٹیل مل بنا کر دی۔ وہ ہم سے نہ چلی۔ انگریز کے تربیت یافتہ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغرخان نے ایک بہترین قومی ایئرلائن کی بنیاد رکھی۔ جب تک وہ یا اُن جیسے رہے قومی ایئرلائن بخوبی چلتی رہی‘ ہمارا مزاج اوپر اٹھا تو اس ایئرلائن کو ہم نے برباد کردیا۔
انتظامی ڈھانچہ اب بھی وہی ہے جو انگریز چھوڑ کر گئے تھے۔ ضابطے اُن کے‘ قوانین اُن کے بنائے ہوئے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ہر جگہ رشوت‘ ہر کونے میں اقربا پروری۔ اب تو قائداعظم کی تصویر والے نوٹ کے بغیر کوئی کام ہوتا نہیں۔ قائداعظم کے نوٹ کا استعمال کیا جائے تو ہرکام تیز رفتار ہو جاتا ہے۔ کرپشن بھارت میں بھی ہے‘ وہاں بھی بخشش اور رشوت چلتی ہے لیکن کچھ کام بھی ہوتا ہے۔ یونیورسٹیاں اُن کی عالمی معیار کی ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ وہاں کے سرمایہ داروں نے بڑی بڑی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں جن کی کارکردگی ایسی ہے کہ باقی دنیا سے مقابلہ کرتی ہیں۔ ہمارے سرمایہ دار ایک دو شعبوں میں پھنسے ہوئے ہیں کہ وہاں سے جلد پیسہ بن جائے گا۔ برآمدات ہماری ایک ٹیکسٹائل سیکٹر پر انحصار کرتی ہیں۔ اور کوئی چیز ہم سے ہوتی نہیں۔ ایٹم بم بنا لیا‘کچھ آگے بھی کرتے۔ دولت کا نظام ایسا بن چکا ہے کہ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز ہوا ہے۔ سیاستدان ہمیں ایسے نصیب ہوئے جن کا مقصدِ سیاست دولت اکٹھا کرنا تھا۔ ایسے سیاستدانوں کے چنگل سے قوم نکل نہیں پا رہی۔ یہاں جو نظام ہے وہ کوئی جمہوریت ہے؟ سیاسی اصطلاح میں اسے عالی گارکی (oligarchy) کہتے ہیں‘ یعنی اوپر کے طبقات جن کا کنٹرول بیک وقت سیاست اور قومی وسائل پر ہے۔
ایسے نظام کا متبادل کیا ہوگا‘ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ عمران خان تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی سوچ اور وژن بھی نہایت محدود نکلے۔ یہ حقیقی آزادی کا نعرہ کیا ہے؟ حقیقی آزادی نعروں سے نہیں معاشی ترقی سے آتی ہے۔ ہاتھ پھیلانے والا کبھی آزاد ہوسکتا ہے؟ ہاں‘ عمران خان کو نکالا گیا اور اُس کے خلاف وہ میدان میں آئے اور عوام نے اُنہیں پذیرائی بخشی۔ لیکن ضرورت اب اس امر کی ہے کہ وہ بتا سکیں کہ اقتدار میں ہم پھر سے آئے تو ہم کیا کریں گے۔ ہماری ٹیم کون سی ہے؟ ایسا وہ نہیں کر پا رہے۔
جہاں تک ہماری مقتدر قوتوں کا تعلق ہے وہ اپنی محدود سوچ کے دائرے سے نکل ہی نہیں پاتیں۔ یہ جو ملک کے ساتھ اب ہو رہا ہے اس کا تو کچھ اندازہ لگایا جائے۔ تیس چالیس سال سے جن سیاسی قوتوں کو آزما یا جا چکا ہے اور جن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی قیادتوں نے اپنی جیبیں بھریں اور قوم کو تباہ حال کیا اُن کو پھر سے قوم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ایسے عناصر سے امید کیا لگائی جا سکتی ہے؟ جناب زرداری صاحب یا نوازشریف صاحب قوم کوکیا نیا سبق دے سکتے ہیں؟ لیکن نہیں‘ عمران خان سے اتنی الرجی ہو گئی تھی کہ ان چلی ہوئی توپوں کو پھر سے میدان میں گھسیٹ لایا گیا۔
اس صورتحال سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟ یہی کہ ہماری قومی سوچ بہت محدود ہے اور ہمارے اکابرین‘ جو بھی ہیں اور جن شعبوں سے اُن کا تعلق ہے‘ اُن کے تصورات بہت ہی محدود ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج جس مقام پر ہم کھڑے ہیں یہ صورتحال راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ ہمارا قومی سفر ایسا تھا کہ آج کی صورتحال اُس کا منطقی نتیجہ ہے۔ کبھی بنگال پر چڑھائی کبھی کہیں اور جو محدود سوچوں کے دائرے میں بھاگتے ہوئے نہ آئے اُنہیں غدار قرار دیا گیا۔ ترقی نہ ہوئی‘ قِسم قِسم کے نظریات پیدا ہوتے رہے۔ اپنی جنگیں جو لڑیں اُن کا مقصد سمجھ نہ آیا۔ دوسروں کی جنگوں میں والہانہ انداز سے کود پڑے۔ ان خدمات کیلئے جو کچھ ملا اسے اپنی کامرانی سمجھا۔
اسی لیے ہم کہتے آئے ہیں کہ چھوڑیں قوم کے درد کو۔ اپنا جو ہو سکتا ہے وہ کریں۔ موسیقی کی چاشنی سے فائدہ اٹھایا جائے اور راحت کے جو اسباب پیدا ہو سکیں اُنہیں حاصل کیا جائے۔